اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )پبلک اکاونٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں سٹیل ملز کی 54 ایکڑ زمین 3 یونیورسٹیوں کو دینے کے بعد کینسل کرکے 4 افراد کو دینے کا انکشاف ہوا ہے۔
روز نامہ جنگ کے مطابق چیئرمین جنید اکبر کی زیر صدارت اجلاس میں پبلک اکاونٹس کمیٹی نے سٹیل ملز کی 54 ایکڑ زمین 4 افراد کو دینے کا معاملہ نیب کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔اجلاس میں پاکستان سٹیل ملز کی 75 ایکڑ زمین نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کو استعمال کی زبانی اجازت دینے کا انکشاف ہوا ہے۔
پاکستان سٹیل ملز کی 75 کروڑ روپے مالیت کی اراضی پر قبضے کا بھی انکشاف ہوا ہے، گلشن حدید کالونی کے 176 پلاٹس پر تجاوزات قائم کی گئیں، سٹیل ملز انتظامیہ زمین کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی، 54 ایکڑ اراضی بلڈرز اور 4 دیگر افراد کو 30 سالہ لیز پر دی گئی، 4 افراد نے سٹیل ملز کی 35 ایکڑ اراضی پر قبضہ کر لیا، ان افراد کو 200 پلاٹ الاٹ بھی کئے جا چکے ہیں۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ سٹیل ملز انتظامیہ نے صارفین سے رہائشی نرخ پر بلز وصول کئے، ادائیگی انڈسٹریل نرخ پر کیں، جولائی 2022 سے جون 2023 تک قومی خزانے کو 1 ارب روپے نقصان پہنچایا گیا۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ پلاٹ سٹیل ملز ہاو¿سنگ سکیم گلشن حدید فیز تھری کو الاٹ کئے گئے، پی اے سی نے معاملے پر سٹیل ملز سے ہر 2 ہفتوں بعد رپورٹ طلب کرلی۔
چیئر مین پی اے سی کا کہنا ہے کہ ایک ماہ میں کمیٹی کو نہ بتایا گیا تو کیسں ایف آئی اے کو بھجوائیں گے۔
چیئرمین پی اے سی کا کہنا ہے کہ پی اے سی نے سٹیل مل کی 11 ایکڑ زمین پر قبضے کا معاملہ بھی نیب کو بھجوا دیا، کیا نیب کو ایسے معاملات نظر نہیں آتے یا صرف سیاستدان ہی نظر آتے ہیں، جس پر نیب حکام نے کہا کہ جی نیب کو اس معاملے کا کچھ نہیں معلوم۔نیب نے سٹیل ملز کی زمین پر قبضے کی انکوائری کےلئے2 ماہ کا وقت مانگ لیا۔سیکرٹری صنعت و پیداوار نے کہا کہ سٹیل ملز کمرشل نرخوں پر بجلی خرید کر رہائشی نرخوں پر دیتی ہے، یہ معاملہ ایس آئی ایف سی کے ساتھ اٹھایا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا کہ یہ کیسی ہمدردی ہے، سٹیل ملز کی حالت دیکھیں، ایس آئی ایف سی ایک ایجنسی ہے وہ زمین سے متعلق ہدایات نہیں دے سکتی، آپ ہمیں سمجھائیں کہ ایس آئی ایف سی کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے؟اجلاس میں موجود نوید قمر نے کہا کہ پاکستان سٹیل ملز کی زمین بہت قیمتی ہے، یہ کراچی کا ایک پرائم علاقہ ہے، کسی کے باپ کا مال نہیں، بورڈ زمین اتنی سستی بیچنے کا کیسے فیصلہ کر سکتا ہے۔
پی اے سی اجلاس میں موجود فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) حکام کہنا ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو ممبران کی کمی کا سامنا ہے، متعدد بار اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ممبران کی خالی نشستوں کے بارے میں آگاہ کیا۔شازیہ مری نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن پر الزام دھرنے کے بجائے ذمہ داری پوری کریں۔پی اے سی نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن ممبران کی تعیناتی کا معاملہ حل کرنے کی ہدایت کردی۔ثناءاللہ خان مستی خیل نے اجلاس کے دوران کہا کہ ادارے ایک دوسرے پر تھوپنے کے بجائے صحیح طریقے سے جواب دیں۔
پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی نے وزارتِ صنعت و پیداوار کے آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا اور مختلف ڈویژنز کی بجٹ کی ناقص منصوبہ بندی پر تشویش کا اظہار کیا۔پی اے سی نے یوٹیلٹی سٹورز کی ڈاو¿ن سائزنگ کے حوالے سے ذیلی کمیٹی بنانے کا فیصلہ بھی کیا۔اجلاس میں وزیراعظم کی منظوری کے بغیر انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) رضا عباس شاہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا انکشاف بھی ہوا۔اس حوالے سے نوید قمر نے کہا کہ یہ تو مذاق ہے، کیسے دو سال بعد کابینہ سے اس تنازع کی منظوری لے گئی، امین الحق نے کہا کہ وزیراعظم کی منظوری کے بغیر مدت ملازمت میں توسیع غیر قانونی ہے۔اجلاس میں سی ای او ای ڈی بی رضا شاہ کی مدت ملازمت میں غیر قانونی توسیع کا معاملہ موخر کردیا گیا۔

افغان پناہ گزینوں سے بدسلوکی کے الزامات بے بنیاد ہیں: پاکستان

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: سٹیل ملز کی پی اے سی نے ایکڑ زمین کا انکشاف کا معاملہ اجلاس میں نے کہا کہ افراد کو کو دینے نے سٹیل دینے کا نیب کو

پڑھیں:

تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد

اسلام ٹائمز: ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ تحریر: علی احمدی
 
دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عشروں میں مارکسزم اور سرمایہ داری کے خلاف نظریات کی جانب محققین کے ممکنہ رجحان کے خوف کے باعث امریکی حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر نے وسیع پیمانے پر یونیورسٹیوں پر پیسہ خرچ کیا۔ اس مالی امداد کا مقصد ایک ایسے "پرامن" اور "کنٹرول شدہ" تعلیمی ماحول کی فراہمی تھی جس میں محققین مخالف نظریات اور مکاتب فکر کے خلاف علمی نظریات متعارف کروا سکیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کے معروف فلاسفر نوام چامسکی کے بقول 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں MIT کا زیادہ تر بجٹ امریکی وزارت دفاع فراہم کرتی تھی جبکہ یہ بجٹ وصول کرنے والے زیادہ تر محققین ویت نام جنگ کے مخالف تھے۔ یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مالی امداد دراصل محققین کو امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو کرنے کے لیے انجام پا رہی تھی۔
 
لیکن چونکہ علمی اداروں اور ماہرین کی ذات میں تنقیدی انداز اور سوالات جنم دینا شامل ہوتا ہے لہذا اس خصوصیت نے ہمیشہ سے سماجی تبدیلیاں اور تحولات پیدا کرنے میں اہم اور مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں بھی امریکہ کی مین اسٹریم یونیورسٹیاں جنگ مخالف تحریک کا مرکز بن چکی تھیں اور یونیورسٹی طلبہ اور اساتید جنگ مخالف مظاہروں، دھرنوں اور وسیع احتجاج کے ذریعے ویت نام میں امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں کو چیلنج کر رہے تھے۔ اس تحریک کے نتیجے میں نہ صرف ویت نام میں امریکہ کے جنگی جرائم منظرعام پر آئے بلکہ امریکی معاشرے کی رائے عامہ میں جنگ کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اور حکومت جنگ ختم کرنے کے لیے شدید عوامی دباو کا شکار ہو گئی۔ اس جنگ مخالف طلبہ تحریک کا واضح اثر حکومتی پالیسیوں پر ظاہر ہوا اور امریکی حکومت ویت نام جنگ ختم کرنے پر مجبور ہو گئی۔
 
ریگن کا انتقام اور نولبرل ازم کا ظہور
ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں میں جنگ مخالف تحریک کی طاقت اور اثرورسوخ کا مشاہدہ کرتے ہوئے یونیورسٹیوں سے انتقام لینے اور ان کا بجٹ بند کر کے اس کی جگہ طلبہ و طالبات کو قرضے دینے کا فیصلہ کیا۔ امریکی حکومت کے اس اقدام نے امریکہ کی اعلی تعلیم کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ امریکی حکومت نے اپنے اس اقدام کا جواز نولبرل ازم پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے پیش کیا اور دعوی کیا کہ وہ معیشت کے میدان میں مداخلت کم کر کے باہمی مقابلہ بازی کی فضا کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹیوں کا بجٹ کم ہو جانے کا نتیجہ فیسوں میں بڑھوتری، تعلیمی معیار میں گراوٹ اور نچلے اور درمیانے طبقے کے لیے تعلیمی مواقع کم ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مزید برآں، ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو ڈال کر امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو تحقیقات انجام دینے پر زور دیا۔
 
یوں ریگن حکومت نے یونیورسٹی طلبہ اور محققین کی فکری خودمختاری اور عمل میں آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ ان پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومتوں نے یونیورسٹیوں کو تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل کرنے اور تنقیدی طرز فکر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
غزہ اور طلبہ تحریک کا احیاء
غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر عام شہریوں کا قتل عام امریکہ میں طلبہ تحریکوں کے احیاء کا باعث بنا ہے۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلباء اور اساتید نے احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور کانفرنسوں کے ذریعے غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کی ہے اور امریکی حکومت سے اس جرائم پیشہ رژیم کی حمایت ترک کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ میں یہ طلبہ تحریک دنیا بھر کی حریت پسند اور انصاف پسند تحریکوں سے متاثر ہوتے ہوئے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت اور قیام کی علامت بن گئی ہے۔
 
دوسری طرف امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو اور دھونس کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں کو بجٹ روک دینے کی دھمکیوں، طلبہ کو نکال باہر کیے جانے اور قانونی پابندیوں کے ذریعے طلبہ تحریک ختم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات اور جمہوری اقدار اور آزادی اظہار میں بہت زیادہ فاصلہ پایا جاتا ہے۔
ہارورڈ ٹرمپ آمنے سامنے، یونیورسٹی کی خودمختاری کی جدوجہد
ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور امیر یونیورسٹی ہے اور اب وہ ٹرمپ حکومت کے خلاف مالی امداد روک دینے پر قانونی کاروائی کر کے حکومتی دباو کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ اس قانونی کاروائی کا تعلق صرف یونیورسٹی کی خودمختاری اور آزادی اظہار سے ہی نہیں بلکہ اس نے ٹرمپ حکومت کی امتیازی اور آمرانہ پالیسیوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔
 
ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ لہذا امریکہ میں یونیورسٹیوں کا موجودہ بحران معاشرے میں اس تعلیمی مرکز کے کردار میں گہری تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ یونیورسٹیاں عالمی سطح پر محققین کے کارخانے اور نرم طاقت کے آلہ کار سے سیاسی اور سماجی قوتوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکی ہیں۔ یہ جنگ امریکی یونیورسٹیوں کی تقدیر کا فیصلہ کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کے ہزار جعلی پاسپورٹس پر غیرملکیوں کے سفر کا انکشاف
  • بارہ ہزار افغان باشندوں کا پاکستانی دستاویزات استعمال کرکے سعودی عرب جانے کا انکشاف
  • 12 ہزار افغان باشندوں کا پاکستانی دستاویزات استعمال کرکے سعودی عرب جانے کا انکشاف
  • بھارتی اقدامات کا جواب دینے کیلئے قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس آج ہوگا
  • تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
  • بھارت کے بیان کا جواب دینے کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کل طلب
  • بھارتی اقدامات کا بھرپور جواب دینے کیلیے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب
  • 5131 غلط افراد کو ای او بی آئی کی مد میں 2 ارب 79 کروڑ روپے دیے جانے کا انکشاف 
  • پبلک اکائونٹس کمیٹی، ریلوے کی سکھر میں اراضی ایک رویپہ فی مربع گز لیز پر دینے کا انکشاف، ہسپتال کی جگہ شادی لان اور  موبائل ٹاورز لگ گئے
  • چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس، پاکستان ریلوے کے آڈٹ اعتراضات کے جائزہ لیا گیا