جموں وکشمیر میں مولانا مودودی کی تصانیف کے خلاف کریک ڈاؤن
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 فروری 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس نے کتابوں کی درجنوں دکانوں پر چھاپے مارتے ہوئے ایک اسلامی اسکالر کی کتابوں کی سینکڑوں کاپیاں قبضے میں لے لیں، جس پر مسلم رہنماؤں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ پولیس نے کہا کہ یہ تلاشیاں ''ایک کالعدم تنظیم کے نظریے کو فروغ دینے والے لٹریچر کی خفیہ فروخت اور تقسیم کے حوالے سے معتبر انٹیلی جنس معلومات‘‘ پر مبنی تھیں۔
افسران نے مصنف کا نام نہیں بتایا لیکن اسٹور مالکان نے کہا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کے بانی ابوالاعلیٰ مودودی کا لٹریچر ضبط کیا۔ 1947ء میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے کشمیر بھارت اور پاکستان کے مابین تقسیم ہے اور یہ دونوں ممالک اس ہمالیائی علاقے کی مکمل ملکیت کے دعویدار ہیں۔
(جاری ہے)
کشمیر کی آزادی یا اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرنے والے باغی گروپ کئی دہائیوں سے بھارتی افواج سے لڑ رہے ہیں جبکہ اس تنازع میں دسیوں ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے سن 2019 میں جماعت اسلامی کی کشمیر شاخ کو ''غیر قانونی انجمن‘‘کے طور پر کالعدم قرار دے دیا تھا۔ نئی دہلی نے گزشتہ سال اس پابندی کی تجدید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدام ''قوم کی سلامتی، سالمیت اور خودمختاری کے خلاف سرگرمیوں‘‘ کی وجہ سے اٹھایا گیا تھا۔سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں نے ہفتہ کو مرکزی شہر سری نگر میں چھاپے مارنے شروع کیے، اس سے پہلے کہ مسلم اکثریتی علاقے کے دیگر قصبوں میں کتابیں ضبط کی جائیں۔
سری نگر میں ایک بک شاپ کے مالک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا،''پولیس والے آئے اور ابوالاعلیٰ مودودی کی تصنیف کردہ کتابوں کی تمام کاپیاں یہ کہہ کر لے گئے کہ ان پر پابندی ہے۔‘‘ پولیس نے ایک بیان میں کہا،''یہ کتابیں قانونی ضابطوں کی خلاف ورزی کرتی ہوئی پائی گئیں اور ایسے مواد کے قبضے میں پائے جانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے۔‘‘پولیس کا مزید کہنا تھا کہ یہ تلاشیاں ''جماعت اسلامی سے منسلک ممنوعہ لٹریچر کی گردش کو روکنے کے لیے کی گئیں۔‘‘ چھاپوں سے جماعت اسلامی کے حامیوں میں غصہ پھیل گیا۔ ایک کشمیری شمیم احمد ٹھاکر نے کہا کہ ضبط شدہ کتابیں اچھی اخلاقی اقدار اور ذمہ دار شہریت کو فروغ دیتی ہیں۔
کشمیر کے مرکزی عالم دین اور حق خودارادیت کی وکالت کرنے والے ممتاز رہنما میر واعظ عمر فاروق نے پولیس کی کارروائی کی مذمت کی۔
فاروق نے ایک بیان میں کہا، ''اسلامی لٹریچر کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا اور انہیں کتابوں کی دکانوں سے ضبط کرنا مضحکہ خیز ہے۔‘‘ یہ لٹریچر آن لائن دستیاب تھا۔انہوں نے مزید کہا، '' ورچوئل ہائی ویز پر تمام معلومات تک رسائی کے دور میں کتابوں کو ضبط کر کے پولیسنگ کا سوچنا مضحکہ خیز ہے۔‘‘ ناقدین اور کشمیر کے بہت سے باشندوں کا کہنا ہے کہ مودی کی حکومت نے 2019 میں کشمیر کی آئینی طور پر دی گئی جزوی خودمختاری کو ختم کر کے نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی نافذ کرنے کے بعد شہری آزادیوں کو بڑی حد تک محدود کر دیا۔
ش ر⁄ ا ا (اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جماعت اسلامی کتابوں کی کے خلاف
پڑھیں:
کانگریس اور انڈیا الائنس دفعہ 370 کی بحالی پر بات کریں، وحید الرحمن پرہ
پی ڈی پی کے سینیئر لیڈر نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے لوگوں سے وعدہ کیا کہ یہاں پر بے روزگاری کو ختم کی جائیگی، تاہم اسکے برعکس یہاں کے قدرتی وسائل، روزگار اور دیگر چیزوں کو لوٹا جارہا ہے جسکے باعث بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے جموں کشمیر کے دیگر اضلاع کی طرح جنوبی کشمیر کے پلوامہ پلوامہ ضلع میں بھی پارٹی کے 26ویں یوم تاسیس کے سلسلے میں پروگرام منعقد کیا۔ پلوامہ میں منعقدہ اجلاس میں پارٹی کے مقامی کارکنان کے ساتھ ساتھ پی ڈی پی کے سینیئر لیڈر اور ایم ایل اے پلوامہ وحید الرحمن پرہ نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کے حاشیے پر وحید الرحمن پرہ نے میڈیا نمائندوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کی نوکریاں اور زمین کے حقوق جموں و کشمیر کے لوگوں کے لئے محفوظ رکھے جانے چاہیے اور ان کی حفاظت کے لئے سبھی پارٹیز نے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور عوام سے ان کے تحفظ کے وعدے کئے۔ وحید الرحمن پرہ نے کہا کہ ان وعدوں پر ہی نیشنل کانفرنس کو بھاری اکثریت ملی، جس کا مطلب ہے کہ عوام نے نیشنل کانفرنس پر زیادہ اعتماد ظاہر کیا تھا۔
وحید الرحمن پرہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے لوگوں سے وعدہ کیا کہ یہاں پر بے روزگاری کو ختم کی جائے گی، تاہم اس کے برعکس یہاں کے قدرتی وسائل، روزگار اور دیگر چیزوں کو لوٹا جا رہا ہے جس کے باعث بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایم ایل اے پلوامہ نے دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی یہاں کے قدرتی وسائل اور نوکریوں کو صرف جموں و کشمیر کے باشندوں کے لئے محفوظ و مخصوص رکھنے کی وکالت کرتی رہی ہے تاکہ یہاں بے روزگاری کم ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں چھینا ہوا خصوصی درجہ واپس دیا جانا چاہیئے اور کانگریس سمیت انڈیا الائنس کو 370 اور 35 اے کی بات کرنی چاہیئے۔ انہوں نے 5 اگست 2019ء کو جموں و کشمیر سے چھینی گئی حیثیت کی واپسی کے لئے پُرعزم ہونے کا بھی دعویٰ کیا۔