گلگت بلتستان میں تاریخی لینڈ ریفارمز!
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
فلک بوس کہساروں کی سرزمین گلگت بلتستان کے فطری حسن اور جغرافیائی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ حال ہی میں گلگت بلتستان سے خوش آئند خبریں ملی ہیں۔ چیف منسٹر گلبر خان کی حالیہ پریس کانفرنس بہت اہمیت کی حامل تھی ۔اس پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ تاریخی اعلان کیا کہ گلگت بلتستان کی حکومت نے لینڈ ریفارمز کی منظوری دے دی ہے جو کہ عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ لینڈ ریفارمز بل اسمبلی سے منظور ہو کر قانون کی شکل اختیار کرے گا۔اتوار کو پریس کانفرنس کے دوران وزیراعلیٰ گلبر خان نے یہ بھی بتایا کہ گلگت بلتستان میں ترقیاتی کام جاری ہیں اور حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لئے عملی اقدامات کر رہی ہے۔خطے میں امن و امان کی صورتحال اطمینان بخش ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مفاہمت کے ماحول میں مثبت پیش رفت جاری ہے۔لینڈ ریفارمز کے تحت زمینوں کو عوامی ملکیت میں دیا جانا ایک تاریخی نوعیت کا اقدام ہے۔ اس لائق تحسین اقدام سے گلگت بلتستان کی حکومت نے عوام کے دیرینہ مطالبے کی تکمیل کی ہے ۔ایک طویل عرصے سے عوام یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ انہیں زمین کی ملکیت کا حق دیا جائے۔ سابقہ حکومت کی عدم توجہی اور خراب طرز حکمرانی کی وجہ سے یہ دیرینہ عوامی مطالبہ التوا کا شکار تھا ۔چیف منسٹر گلگت بلتستان کے اس تاریخی اعلان سے خطے کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔عوام کی سطح پہ یہ اطمینان وطن عزیز کے استحکام اور بقا کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔یہ امر لائق تحسین ہے کہ لینڈ ریفارمز کے ساتھ ساتھ چیف منسٹر نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بہت سے اہم منصوبوں پہ حکومتی پیشرفت کا بھی اعلان کیا۔
موجودہ حکومت ان احسن اقدامات کی بدولت تادیر تاریخ میں اچھے لفظوں سے یاد رکھی جائے گی۔یہ پہلو خاص اہمیت کا حامل ہے کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں لینڈ ریفارمز کا اقدام پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔ عوام کو زمین کی ملکیت کا حق دے کر ریاست پاکستان نے خطے میں مقبوضہ کشمیر پر ظلم و ستم ڈھانے والی بھارتی ریاست کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے عوام محکوم نہیں بلکہ اپنے تمام معاملات میں خود مختار ہیں۔ پاکستان کے اس خوبصورت اقدام کے برعکس چھ برس قبل غاصب بھارتی ریاست نے پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خود مختاری پر کاری وار کیا اور آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو پامال کر دیا ۔ دنیا بھر میں کشمیری عوام بھارتی ریاست کے سیاہ اقدام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ بھارت کے غاصبانہ رویے کے برعکس آزاد کشمیر میں ایک خود مختار حکومت فعال ہے ۔جبکہ گلگت بلتستان کی اسمبلی اور اس کے منتخب نمائندے اپنے معاملات جمہوری طریقے سے مکمل خود مختاری کے ساتھ طے کر رہے ہیں۔ حاجی گلبر خان کی قیادت میں گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت عوام کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ اس حکومت نے مختصر وقت میں ٹیکس وصولی کے 80 فیصد اہداف کامیابی سے مکمل کیے ہیں ۔ وزیر اعلی گلبر خان نے کہا کہ امن و امان کی بحالی ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس حوالے سے تمام ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔چیف منسٹر نے اپنی پریس کانفرنس میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت گلگت بلتستان کے حصے کی رقم کی جلد ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے ۔دستیاب اطلاعات کے مطابق این ایف سی ایوارڈ کے تحت گلگت بلتستان کو اس کے حصے کے 250 ارب روپے اداکئے جائیں گے ۔اس حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے عوام یہ توقع رکھتے ہیں کہ این ایف سی اوارڈ کے تحت ملنے والی رقم سے حاجی گلبر خان کی قیادت میں موجودہ حکومت عوام کی ترقی اور سہولت کے لیے بہت سے اہم منصوبے مکمل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی ۔یہ پہلو نہایت اہم ہے کہ طویل عرصے سے ازلی دشمن بھارت نے اپنی نگاہیں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے خطے پر گاڑ رکھی ہیں۔
گزشتہ کچھ سالوں کے دوران گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بدامنی کی آگ بھڑکانے کے لیے بھارت نے بہت سی سازشیں کی۔ ان سازشوں کے ذریعے مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں جاری بھیانک ریاستی جرائم پہ پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔ پاکستان اور چین کے گہرے سفارتی اور اقتصادی تعلقات میں دراڑ ڈالنے کے لیے بھارت کی خفیہ ایجنسی را ہمہ وقت سازشیں گھڑتی رہتی ہے ۔گلگت بلتستان کی سرزمین پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہداری کا نقطہ آغاز ہے جبکہ بلوچستان میں گوادر پورٹ اس تاریخی منصوبے کا انتہائی مقام ہے ۔سی پیک کو سبوتاژکرنے کے لیے ایک جانب بھارت کے پروردہ دہشت گرد بلوچستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں تو دوسری جانب اس منصوبے کے نقطہ آغاز گلگت بلتستان میں پروپیگنڈے کے ہتھیار سے عوام کے ذہنوں میں نفرت، تعصب اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے منفی رجحانات کو پروان چڑھانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ حاجی گلبر خان کی قیادت میں گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت دشمن کی ان تمام سازشوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے عوام کی فلاح بہبود اور استحکام کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: گلگت بلتستان کی گلگت بلتستان کے لینڈ ریفارمز پریس کانفرنس موجودہ حکومت عوام کی فلاح گلبر خان کی چیف منسٹر کے تحت کے لیے
پڑھیں:
معرکۂ 1948؛ گلگت بلتستان کی آزادی کی داستانِ شجاعت، غازی علی مدد کی زبانی
گلگت:سن 1948 کی جنگِ آزادی میں گلگت بلتستان کے جانبازوں نے اپنی جرات، بہادری اور قربانیوں کی ایسی مثال قائم کی جو تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔
اسی معرکے کے ایک غازی، علی مدد نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے اس تاریخی جدوجہد کی جھلک پیش کی۔
غازی علی مدد کے مطابق ’’میں 1948 میں گلگت اسکاؤٹس میں بھرتی ہوا۔ جنگ آزادی کے دوران بھارت کی جانب سے ہم پر بمباری کی جاتی تھی۔ دشمن نے اسپتالوں، پلوں اور دیگر اہم مقامات کو نشانہ بنایا، لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ اس وقت گلگت اسکاؤٹس کے پاس جدید ہتھیار موجود نہیں تھے، مگر ایمان، عزم اور وطن سے محبت کے جذبے نے انہیں ناقابلِ شکست قوت بخشی۔ ڈمبوداس کے مقام پر ہم نے گلگت اسکاؤٹس کے ساتھ مل کر دشمن پر حملہ کیا۔ کئی دشمن مارے گئے اور تقریباً 80 کو قیدی بنا کر ان کے ہتھیار قبضے میں لے لیے۔
غازی علی مدد نے مزید بتایا کہ گلگت کے جانبازوں نے دشمن کو اسکردو سے پسپا کرتے ہوئے کھرمنگ اور پھر لدّاخ تک کا سفر کیا۔ ہم لدّاخ پہنچے تو دشمن وہاں سے فرار ہو چکا تھا، تین سال بعد ہم واپس گلگت لوٹے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ جنگ کے آغاز سے پہلے مہاراجا کی فوج گلگت چھوڑ کر جا چکی تھی، جس کے بعد علاقے کی دفاعی ذمہ داری گلگت اسکاؤٹس کے سپرد کی گئی۔
غازی علی مدد نے بتایا کہ ’’دشمن کی نقل و حرکت روکنے کے لیے بونجی کے پل کو جلانے کی ذمہ داری ایک پلٹن کو دی گئی، جس کے بعد مختلف مقامات پر شدید لڑائیاں ہوئیں اور دشمن کو شکست فاش ہوئی۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ جنگ کے دوران انہوں نے دشمن کے ٹھکانوں اور دکانوں پر قبضہ کیا اور مقامی علاقوں کو محفوظ بنایا۔
غازی علی مدد نے بتایا کہ ’’میری خواہش تھی کہ میں شہادت کا رتبہ حاصل کروں، مگر یہ اعزاز میرے بیٹے کو نصیب ہوا۔ میرے تین بیٹے اب بھی پاک فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور ضرورت پڑنے پر وطن کے لیے جان قربان کرنے کو تیار ہیں۔‘‘
غازی علی مدد اور ان جیسے بے شمار جانبازوں کی قربانیوں کے نتیجے میں 1948 میں گلگت بلتستان نے آزادی حاصل کی۔ آج بھی یہ غازیانِ وطن پاکستان کے دفاع اور آزادی کی علامت ہیں۔