Daily Mumtaz:
2025-09-18@10:28:47 GMT

ججزمیں تقسیم مزیدگہری ،معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا 

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

ججزمیں تقسیم مزیدگہری ،معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا 

  اسلام آباد(طارق محمودسمیر)26ویں آئینی ترمیم سے پہلے بھی اور اب بھی ججز کی تقسیم ، اختلافات اور تنازعات موجود ہیں،کبھی کوئی جج خط لکھ دیتاہے تو کبھی کوئی
سنیارٹی کو بنیادبناکراسے چیلنج کردیاجاتاہے،یہ سنجیدہ آئینی وقانونی معاملہ ہیا ور اس بارے میں ہائیکورٹ کے پانچ ججزجسٹس محسن اخترکیانی،جسٹس طارق محمودجہانگیری،جسٹس بابرستار،جسٹس سرداراعجازاسحق خان اورجسٹس ثمن رفعت امتیازنے ہائیکورٹ میں ججز کی سنیارٹی کامعاملہ اب سپریم کورٹ میں چیلنج کردیاہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے سینئروکلاء منیراے ملک اور بیرسٹرصلاح الدین کی خدمات حاصل کی ہیں اور اعتراض اٹھایاہے کہ ہائی کورٹ سے لائے گئے تین ججز جن میں اسلام آبادہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سرفرازڈوگر،جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمدآصف شامل ہیں ،کودوبارہ حلف لینے کی ضرورت تھی اور حکومت نے بدنیتی سے جونیئرزکوسینئربنادیاجب کہ ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس عامرفاروق نے انہی پانچ ججز کی ری پریزنٹیشن کو مستردکردیاتھااورکہاتھاکہ ججز کاتبادلہ آئین کے مطابق ہیاورانہیں دوبارہ حلف لینے کی ضرورت نہیں ہے،جسٹس سرفرازڈوگرجولاہورہائیکورٹ میں سنیارٹی میں 15ویں نمبرپرتھے انہیں اسلام آبادہائیکورٹ لایاگیالیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ 2015میں انہوں نے ہائیکورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایااوراعتراض کرنے والے اسلام آبادہائیکورٹ کے سینئر جج محسن اخترکیانی نے بھی 2015میں حلف اٹھایااور دونوں کی سنیارٹی میں چندماہ کافرق ریکارڈ کے مطابق موجود ہیاوراس کے مطابق جسٹس سرفرازلاہورہائیکورٹ میں تقرری کے وقت جسٹس محسن اخترکیانی سے سینئرتھے اوراسی بنیادپرانہیں اسلام آبادہائیکورٹ کاچیف جسٹس مقررکیاگیاہے،بہرحال یہ ایک اہم معاملہ ہے،اگرکسی معاملے پر ابہام ہواور آئینی تشریح کی ضرورت ہوتو وہ صرف سپریم کورٹ ہی کرسکتی ہے،چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے چندروزقبل یہ بیان دیاتھاکہ تین ججز کاتبادلہ آئین کے مطابق ہوا،دوسری ہائیکورٹس سے آنے میں کوئی پابندی نہیں ہیتاہم انہوں نے سنیارٹی کے معاملے پر کسی قسم کاتبصرہ کرنے سے اس لیے گریز کیاتھاکہ یہ معاملہ ان کے پاس آنے والاہے،اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیایہ معاملہ آئینی بینچ کو بھیجاجائے گایاچیف جسٹس خود وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ کریں گے ،دوسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے وزیراعظم شہبازشریف کی اہم ملاقات ہوئی جس میں عدالتی اصلاحات ،لاپتہ افراد کے ایشواور ٹیکس کیسز کے فیصلوں میں تاخیرسمیت دیگرامورپربات چیت کی گئی اس ملاقات کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہیاور چیف جسٹس تحریک انصاف کے رہنمااور اپوزیشن لیڈرعمرا یوب سے بھی ملاقات کریں گے جس میں ان سے عدالتی اصلاحات کے لیے تجاویز لی جائیں گی لیکن افسوسناک امریہ ہیکہ چیف جسٹس کی وزیراعظم سے ملاقات کیبعد ایک سیاسی جماعت کے حامیوں نے سوشل میڈیاپرمنفی پروپیگنڈا مہم چلارکھی ہے جس میں چیف جسٹس اور وزیراعظم کے خلاف نامناسب اور غیرپارلیمانی زبان استعمال کی جارہی ہے جو کسی طور پر بھی درست نہیں ہے کیایہی لوگ عمرایوب کی ملاقات پر بھی اسی طرح کا پروپیگنڈا کریں گے ،چیف جسٹس عدالتی اصلاحات پر اگرحکومت اوراپوزیشن سے مشاورت کررہے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں،ایک زمانہ وہ بھی تھاجب سابق چیف جسٹس ثاقب نثارنے 2017میں اس وقت کے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کو شارٹ نوٹس پرسپریم کورٹ ملاقات کے لیے بلایااورانہیں دھمکی دی تھی کہ اگر پارلیمنٹ سے نوازشریف کوپارٹی صدارت کے لیے اہل قراردینے کابل پاس کیاگیاتو وہ فوری طور پراسے کالعدم قراردے دیں گے اور اس دھمکی کیبعد شاہدخاقان عباسی نے یہ قانون سازی نہیں کی تھی اور بعدازاں انہوں نے کئی انٹرویوزمیں اس بات کا خود بھی انکشاف کیاتھاکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثارنے ملاقات کیلیے بلاکرقانون سازی نہ کرنے کی بات کی تھی ۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے  سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔

وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔

حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔

حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے،  ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔

انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ  قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان  نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ؛ پولیس نے عمران خان کی بہنوں کو چیف جسٹس کے چیمبر میں جانے سے روک دیا
  • بانی پی ٹی آئی کی بہنیں سپریم کورٹ پہنچ گئیں، عمران خان کا خط چیف جسٹس کو دینے کی کوشش ناکام
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا حکمنامہ جاری
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری کا جوڈیشل ورک سے روکنے کا آرڈر چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کیخلاف اپیل خارج کردی
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
  • پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
  • پانامہ کیس فیصلے سے متعلق مبینہ آڈیو لیک معاملہ پر کمشن تشکیل دینے کی درخواست خارج 
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ