موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث 30 سالوں میں لاکھوں افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 فروری 2025ء) ان کی جانب سے جاری کردہ انڈیکس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گزشتہ 30 سالوں میں طوفانوں، سیلاب، خشک سالی، ہیٹ ویوز اور جنگلاتی آگ کے سبب تقریباً 800,000 افراد اپنی جان سے گئے۔ ان قدرتی آفات کے باعث اقتصادی نقصان کا تخمینہ تقریباً 4.2 ٹریلین ڈالر (4.
اس رینکنگ میں سب سے اوپر ڈومینیکا،چین اور ہنڈوراس رہے ہیں۔
انسانی جانوں کا ضیاع اور معاشی نقصان
جرمن واچ کی پالیسی مشیر اور متعلقہ رپورٹ کی شریک مصنفہ، لِنا عادل نے کہا، ’’کلائمیٹ رسک انڈیکس کا مقصد بین الاقوامی موسمیاتی پالیسی کو ان حقیقی خطرات کے تناظر میں ترتیب دینا ہے جن کا سامنا ممالک کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘
وہ ممالک جو مختلف اقسام کے خطرات کا سامنا کرتے ہیں، وہ اس رینکنگ میں اوپر آسکتے ہیں۔
ڈومینیکا، جو کیریبین کا وہ ملک ہے جو طوفانوں کے شکار ہے اور جو رینکنگ میں سب سے اوپر ہے، نے جرمن واچ کی جانب سے کیے گئے 30 سالہ مطالعہ میں طوفانوں سے بڑے اقتصادی نقصان اٹھائے ہیں۔ رپورٹ میں 2018 میں طوفان "ماریہ" کا ذکر کیا گیا، جس نے 1.8 ارب ڈالر تک کا نقصان پہنچایا جو ڈومینیکا کے جی ڈی پی کا 270% تھا۔
یہ جزیرہ نما ملک نسبتاً زیادہ ہلاکتوں کا شکار بھی رہا ہے، جو اس کی کم آبادی کے پیش نظر زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
چین اور ہونڈوراس شدید متاثر
چین اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے کیونکہ اس کی وسیع آبادی کے بڑے حصے کو بار بار آنے والی ہیٹ ویوز، طوفانوں اور سیلابوں نے متاثر کیا ہے۔ 2016 میں آنے والے سیلابوں نے 100 سے زیادہ افراد کی جان لی اور لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا۔
ہونڈوراس، جو اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے، اپنے غریب ترین ممالک میں شامل ہونے کے باعث شدید موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا خاص طور پر شکار ہوتا ہے۔ 1998 میں آئے سمندری طوفان ’مچ‘ نے 14,000 سے زائد افراد کی جانیں لی اور ملک کی 70% فصلیں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا۔
ہونڈوراس کی زامورا یونیورسٹی میں موسمیاتی امور کے ماہر، ڈیگو اوبانڈو بونیلہ کا کہنا ہے، ’’یہ واقعہ دو دہائیوں سے زیادہ پرانا ہے، لیکن اس کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ ہم آج بھی اس کا ذکر کرتے ہیں۔‘‘
اس سے 7 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، جس نے ملک کی ترقی کے عمل کو روک دیا۔ ایک شعبہ جو ہونڈوراس میں آنے والے طوفانوں اور خشک سالی کا خاص طور پر شکار ہوا، وہ زراعت ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سے ہر خطہ متاثر
اگرچہ عالمی جنوب کے ممالک کو سب سے زیادہ خطرات درپیش ہیں، لیکن اس انڈیکس کی فہرست میں اٹلی، یونان اور اسپین جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر 2022 میں، یہ ممالک شدید گرمی کی لہروں کی وجہ سے اس درجہ بندی میں مزید اوپر آئے۔
اس رپورٹ میں درج کیے گئے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا بھر کے تمام ممالک موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہے ہیں، چاہے وہ عالمی شمال ہو یا جنوب، عدیل نے کہا، ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی شمال اب تک آفات کے خطرات سے نمٹنے اور ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہے۔
رپورٹ میں جرمنی کے آحرتال (2021) اور اسپین کے ویلنسیا (2024) میں ہونے والی شدید سیلابوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو اس بات کی مثال ہیں کہ یورپی حکام ایمرجنسی کی حالت کا اعلان کرنے میں بہت دیر کر دیتے ہیں۔ جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ دونوں کیسز میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
عالمی شمال پر یہ دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے خطرات کو مؤثر طریقے سے منظم کرے بلکہ عالمی جنوب کی بھی مدد کرے، کیونکہ یہ ممالک دنیا میں سب سے کم کاربن اخراج کے ذمہ دار ہیں۔
یہ بات ان کی اخراجات کو کم کرنے کی کوششوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ کیونکہ جب تک آلودگی پھیلانے والے ممالک فوسل ایندھن کا استعمال جاری رکھیں گے، موسمیاتی تبدیلیوں کا جو شدید اثر عالمی موسمیاتی خطرہ انڈیکس پر نظر آ رہا ہے، وہ زیادہ شدت کے ساتھ بار بار وقوع پذیر ہوگا۔
بیٹریس کرسٹوفارو (ش خ/ ر ب)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے موسمیاتی تبدیلیوں رپورٹ میں
پڑھیں:
جموں وکشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ بن چکا ہے، الطاف وانی
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 60ویں اجلاس کے موقع پر مکالمے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے اان کا کہنا تھا کہ جب تک کشمیری عوام کو ان کا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت نہیں دیا جاتا، اس وقت تک ایک جمہوری اور منصفانہ عالمی نظام کے قیام کا عالمی وعدہ پورا نہیں ہو سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ انسانی حقوق کے معروف کارکن اور کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین الطاف حسین وانی نے کشمیری عوام کو ان کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت سے محروم رکھنے کی بھارت کی پالیسی کی شدید مذمت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق الطاف وانی نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 60ویں اجلاس کے موقع پر "جمہوری اور منصفانہ عالمی نظام کے فروغ" کے موضوع پر ایک آزاد ماہر کے ساتھ باضابطہ مکالمے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سنجیدہ یقین دہانیوں کے باوجود، بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ اپنے وعدوں کو دس لاکھ سے زائد قابض فوجیوں کی تعیناتی، بڑے پیمانے پر نگرانی اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے جیسے سنگین اقدامات سے بدل دیا ہے۔ انہوں نے بھارت کے اگست2019ء میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے یکطرفہ اورغیر قانونی اقدامات کا حوالہ دیا جن کے تحت جموں و کشمیر کے الحاق اور آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ الطاف وانی نے خبردار کیا کہ جموں و کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ بن چکا ہے جہاں پرامن اختلافِ رائے کو جرم بنا دیا گیا ہے اور صحافیوں کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کونسل پر زور دیا کہ وہ اپنے آئندہ اجلاس سے قبل کشمیر پر ایک خصوصی بین الاجلاسی پینل طلب کرے، جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی نگرانی کے لیے اقوام متحدہ کا فیلڈ مشن دوبارہ قائم کرے اور مستقبل کے اقدامات میں کشمیری سول سوسائٹی کے نمائندوں کی شمولیت کو یقینی بنائے۔ انہوں نے زور دیا کہ جب تک کشمیری عوام کو ان کا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت نہیں دیا جاتا، اس وقت تک ایک جمہوری اور منصفانہ عالمی نظام کے قیام کا عالمی وعدہ پورا نہیں ہو سکتا۔