پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ تمباکو استعمال کرنے والے ممالک میں شامل
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ تمباکو استعمال کرنے والے ممالک میں شامل ہوگیا ہے، 14 فیصد لڑکے اور سات فیصد لڑکیاں (جن کی عمر 15 سال سے کم ہے) تمباکو استعمال کرتی ہیں۔
یومیہ تقریباً 470 اور سالانہ تقریباً ایک لاکھ 71 ہزار سے زیادہ افراد سگریٹ نوشی کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ روزانہ تقریباً 1200 سے زاید بچے سگریٹ نوشی کا آغاز کر رہے ہیں۔
قومی سطح پر قانون کی سر عام دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور کوئی روک نہیں رہا ہے حکومت اور سگریٹ کمپنیاں مبینہ طور پر آپس میں ملی ہوئی ہیں اور یہ سب حکومت کی سرپرستی میںہو رہا ہے۔ آج کل کے نوجوانوں میں عام سگریٹ کی جگہ ای سگریٹ متعارف کروائی جا چکی ہے اور حکومت نے اس کی درآمدات کی اجازت بھی دے رکھی ہے۔
تقریباً پانچ فیصد نوجوان ای سگریٹ کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔ انہیں جدید نام دے کر فیشن کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۔آج کل یہ ای ہکا، موڈز، ویپ پنز، ویپس، ٹینک سسٹمز اور الیکٹرانک نکوٹین ڈیلیوری سسٹم کے نام سے متعارف کروائے جا رہے ہیں ۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی کینٹین پر غیر قانونی طور پر سگریٹ بیچے جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے بالکل سامنے کھوکھے پر سگریٹ بیچے جاتے ہیں۔
اس حوالے سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کی ایک رپورٹ کے مطابق 24 ملین فعال تمباکو استعمال کرنے والے ممالک کے ساتھ، پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ تمباکو استعمال کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم نیٹ ورک فار کنزیومر پروٹیکشن کے مطابق فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 کے تحت کوئی بھی کمپنی سگریٹ برانڈ کا کوئی بھی ایسا ورڑن فروخت نہیں کرسکتی، جس کی قیمت اسی برانڈ فیملی میں موجود سگریٹ برانڈ سے کم رکھی گئی ہو۔
اس کے باوجود ایک کمپنی نے نیا سگریٹ برانڈ لانچ کیا ہے، جس کی قیمت اس کے موجودہ فیملی برانڈ کی قیمت سے کم ہے، تاکہ اسے بچوں اور کم آمدن والے گھروں تک پہنچایا جا سکے۔
کیمپین فار ٹوبیکو فری کڈز کے کنٹری ہیڈ ملک عمران احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سگریٹ کے سنگل اسٹکس (کھلے سگریٹ) بیچنے پر پابندی ہے لیکن اس کی سرعام خلاف ورزی ہو رہی ہے اور کوئی روکنے والا نہیں ہے اب غریب طبقے اور بچوں تک سگریٹ پہنچانے کے لیے 10 اسٹکس والی سستی پیکنگ تیار کرنے کی اجازت دی جاری ہیں ۔
گلوبل یوتھ ٹوبیکو سروے کی ایک تحقیق کے مطابق سگریٹ سے عام آدمی کے لیے روز بروز صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔جتنا ٹیکس سگریٹ کی فروخت سے حاصل ہو رہا ہے، اس سے کئی گنا زیادہ سگریٹ نوشی کی وجہ سے پیدا ہونے والے صحت کے مسائل حل کرنے پر خرچ ہو رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسکولوں اور کالجوں کے قریب سگریٹ بیچنا قانون کے مطابق جرم ہے۔ بچوں تک سگریٹ پہنچانے کے لیے ان کے مختلف فلیورز موجود ہیں۔چاکلیٹ اور ونیلا سمیت مختلف ذائقوں کے چھوٹے سگریٹ بچوں کے لیے بنائے اور سمگل کیے جاتے ہیں اور ان کی قیمت کم رکھنے کے لیے گھٹیا کوالٹی والا تمباکو استعمال کیا جاتا ہے۔
سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (اسپارک)کے مطابق تمباکو کی صنعت کی طرف سے بیرون ملک ایکسپورٹ کرنے کے بہانے 10ا سٹک والے سگریٹ کے پیک کی تیاری کے لیے منظوری حاصل کرنے کی کوششوں پر تشویش کا ظہار کیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے مطابق سے زیادہ کی قیمت رہے ہیں رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
کس نامور اداکار نے اپنے بیٹے کو 22 سال کی عمر تک اسمارٹ فون کے بجائے ’ ڈبہ فون ‘ استعمال کروایا؟
ممبئی(شوبز ڈیسک)سائبر تھرلر فلم ’لاگ آؤٹ‘ کے اداکار بابل خان نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ وہ ڈیجیٹل دنیا میں پروان چڑھیں اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے 22 سال کی عمر تک ڈبہ فون استعمال کیا۔
سوشل میڈیا انفلوئنسر بابل خان ان دنوں ڈیجیٹل دنیا کی تلخیاں بیان کرتی فلم ’ لاگ آؤٹ‘ میں مرکزی کردار کے باعث سرخیوں میں ہیں۔
حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران بابل خان نے بتایا کہ میری پرورش عام لوگوں کی طرح نہیں ہوئی کیوں کہ میرے والدین اس بات پر اٹل تھے کہ وہ اپنے بیٹے کو ڈیجیٹل دنیا میں پروان نہیں چڑھائیں گے، اس لیے میری پرورش پہلے جنگل کے بالکل قریب اور پھر مدھ جزیرے پر ہوئی، اس کے بعد مجھے اسکول بھیجا گیا جہاں پلاسٹک کی اجازت نہیں تھی اور ہر چیز لکڑی کی تھی۔
اداکار نے بتایا کہ میں آج کے نوجوان کی طرح ڈیجیٹل آلات اور اسمارٹ فونز کے جنون میں مبتلا نہیں تھا، میرے پاس 21 یا 22 سال کی عمر تک ایک ڈبہ فون تھا جب ہی یہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا میرے لیے بالکل نئی ہے ‘۔
بابل خان نے اعتراف کیا کہ اگرچہ میں سوشل میڈیا کا جنون نہیں رکھتا اور ڈیجیٹل دنیا سے دور رہنا پسند کرتاہوں لیکن لاگ آؤٹ پر کام کے دوران میں نے سوشل کی دنیا سے متعلق بہت کچھ سیکھا، اس دوران مجھے اندازہ ہوا کہ ہمیں اپنی عزت نفس کے لیے سوشل میڈیا پر انحصار کرنے کے بجائے اسے تخلیقی صلاحیتوں کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں:سوتیلے باپ کے تشدد کا شکار بالی وڈ کا وہ نامور اداکار جو مسجد کے باہر بھیک مانگنے پر مجبور تھا