Islam Times:
2025-07-04@21:18:40 GMT

کربلا اور کربلا والے!

اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT

کربلا اور کربلا والے!

اسلام ٹائمز: کربلا کے راستے کے آج کے راہیوں میں اہل ایران، یمنی مجاہدین، لبنانی مزاحمت، عراقی عشاق، فرزندان حسینی پاکستان نے کربلا کے راستے کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے امام خامنہ ای کی بابصیرت، الہیٰ و روحانی شخصیت کیساتھ اپنے عہد کو نبھانے اور ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کیلئے آمادگی و تیاری کر رکھی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تعداد میں قلیل ہونگے، طاقت و وسائل میں کمزور ہونگے، مگر انکے ارادے چٹانوں کو ہلا دینے والے ہیں، انکے شعار و نعرے بلندیوں کو چیر دینے والے ہیں، انکا اخلاص و تڑپ متاثر کن ہے۔ انکا جذبہ کامیابی کی کنجی ہے، لہذا کربلا و کربلا والوں سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کاروان میں شامل ہوا جائے، حقیقی کربلائی کہلانے کیلئے آج کی دنیا میں یہی راستہ ہے، ہم اسی راستے کے راہی ہیں، ہم امام خامنہ ای کے سپاہی ہیں۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر

کربلا ایک ایسا نام ہے، جس پر ہم سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں، حتیٰ ٰسب سے قیمتی چیز جان ہوتی ہے، ہم اس کو بھی کربلا پر قربان کرنے سے نہیں گھبراتے۔ کربلا اور کربلا والوں نے ہمیں درس ہی ایسے دیا ہے کہ اس کے بعد کسی اور چیز میں بقاء ہی نہیں نظر آتی۔ کربلا والوں نے میدان کربلا میں تپتے ریگزار پر تین دن کی بھوک پیاس کے ہوتے ہوئے قلت تعداد میں ہو کر اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی جانوں کو قربان کر دیا تو ہم کون ہوتے ہیں، اپنی جانوں کی پرواہ کرنے والے۔ میدان کربلا میں فقط چند گھنٹوں کی لڑائی نے تاریخ کا ایسا دھارا بدلا کہ رہتی دنیا تک دنیا کے باضمیر، باغیرت، باحمیت، شجاعت و بہادری کے دلدادہ، عز و شرف کے متوالے، غیرت و حمیت کے پروانے، دین و ایمان کے سرباز، اسلام کو آفاقی و الہیٰ دین تسلیم کرکے زندگی کرنے والے انسانوں کو یہ رہنمائی و راستہ دکھاتی رہے گی۔ کربلا زندہ ضمیروں پر دستک دیتی رہے گی، کربلا طاقتوروں کو ان کی طاقت و قوت کے زور پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف للکارتی رہے گی۔

جو جو بھی کربلا سے خود کو وابستہ کرے گا، اس کو نجات کا راستہ مل جائے گا، ہدایت کا راستہ مل جائے گا، بقاء کا راستہ مل جائے گا۔ دنیا میں اربوں انسان موجود ہیں اور ارب ہا انسان فقط چودہ صدیوں میں اپنی زندگی گزار کر جا چکے ہیں، آج ان کا نام و نشان ہی باقی نہیں ہے، کوئی کسی کو جانتا بھی نہیں ہے، مگر میدان کربلا میں فقط بہتر شہداء کے ایثار و قربانی کے کردار نے ایسی ابدیت و ہمیشگی پائی ہے کہ ان کا ذکر مٹانے سے نہیں مٹتا۔ ہر سال ان کے ایام ہائے شہادت یعنی عاشورا میں دنیا کے ہر ملک و ملت میں ان کا ذکر ناصرف بلند ہوتا ہے بلکہ ہر سال کی بہ نسبت زیادہ قوت و طاقت اور زور و شور سے کیا جاتا ہے اور ایسا نہیں کہ یہ سب مفت میں ہو جاتا ہے۔ اس ذکر کو بلند رکھنے کیلئے جہاں مال کی بہت بڑی قربانی دی جاتی ہے اور وسیع پیمانے پر خرچ اخراجات کیے جاتے ہیں، وہیں اس ذکر کو بلند کرنے میں دیگر بہت سی رکاوٹوں کیساتھ بہت سے ممالک بشمول پاکستان میں جانوں کی قربانی بھی قبول کی جاتی رہی ہے اور ایسے خطرات و اندشوں کے ہوتے ہوئے یہ ذکر ہمیشہ بلند کیا جاتا ہے۔

گویا ایک عظیم قربانی کی یاد مناتے ہوئے بھی قربانیاں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ کسی دنبے یا لیلے کی قربانی نہیں بلکہ جیسے میدان کربلا میں اصل قربانیاں پیش کی گئیں تھیں، ایسے ہی ان کی یاد میں بھی انسانوں کی جانوں کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ فی زمانہ اگر ہم دیکھیں تو دنیا میں اس وقت جمہوری اسلامی ایران واحد مملکت اسلامی ہے، جس میں مکمل طور پر اسوہ کربلا کے پیروکاران طاقت و اقتدار میں ہیں۔ اسی وجہ سے جمہوری اسلامی ایران کے خلاف دنیا بھر کے یزیدی اور ان کے ہمنوا ایک ساتھ ہیں۔ گذشتہ سینتالیس برس سے انقلاب اسلامی ایران یزیدان عصر نو کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اس کو جھکانے والے جھک جاتے ہیں، مگر وہ نہیں جھکتا۔ اس کو مٹانے والے مٹ جاتے ہیں، مگر وہ نہیں مٹتا۔ اس کو نابود کرنے کی خواہش رکھنے والے نابود ہو جاتے ہیں، مگر وہ نابود نہیں ہوتا۔ یہ فقط اس راستے کی برکات ہیں، جو کربلا سے اور کربلا والوں سے متصل ہونے والوں کو ملتی ہیں۔

اس لیے کہ اٹھاون اسلامی ممالک نے اپنا سر دشمنان دین و ایمان، یزیدان عصر نو، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اسرائیل کے سامنے جھکا رکھا ہے، جبکہ جمہوری اسلامی ایران نے کبھی ان نام نہاد طاقتوروں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور ان کو یہ راہ کربلا والوں نے سکھائی و بتلائی ہے۔ بقول علامہ اقبال:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے آدمی کو دیتا ہے نجات
اہل ایران نے فقط اس کائنات کے مالک اصلی و خالق حقیقی کے سامنے سر جھکایا ہوا ہے۔ اس لیے انہیں کسی اور کے سامنے سر نہیں جھکانا پڑتا، جبکہ دیگر مسلمان ممالک اور ان کی قیادتوں نے چھوٹے بڑے یزیدوں کے سامنے سر جھکانے میں اپنی بقا و سلامتی سمجھ رکھی ہے۔ لہذا وہ جھکتے ہیں اور جھکتے ہی چلے جاتے ہیں۔کربلا والوں کی منزل راہ شہادت سے ہو کر گزرتی ہے۔ لہذا اس راہ کے راہی کبھی بھی اس سے کتراتے نہیں بلکہ اپنی منزل کے حصول میں اس راہ پرخار سے گزرنے ہوئے ان کے اندر بے تابی اور اشتیاق زور و شور پر ہوتا ہے۔

ان کا اطمینان ہی اس وقت ہوتا ہے، جب انہیں اذن شہادت ملتا ہے۔ عاشور کے دن بھی تو ایسا ہی تھا، ہر ایک بے قرار تھا کہ جان نثار کرے، ہر ایک اذن شہادت مانگتا تھا، ہر ایک ہزار ہزار بار قتل ہوکر بار بار فدا ہونا چاہتا تھا۔ دراصل یہ عشق کی کہانی ہے، یہ عشق اور جنون کے معاملے ہیں، جو عام آدمی کی پہنچ سے یقیناً دور ہیں۔ اس کی گتھیاں ہر ایک سلجھانے کی طاقت و سمجھ بوجھ نہیں رکھتا، بلکہ عاشقوں کے قبیلوں میں شامل ہی اس گتھی کو سلجھا سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں اور اس موت و شہادت میں بقا کو پا سکتے ہیں۔ بقول حسرت موہانی:
تم پر مٹے تو زندہء جاوید ہوگئے
ہم کو بقا نصیب ہوئی ہے فنا کے بعد
اور محمد علی جوہر بھی کہتے ہیں۔۔
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری، یہی انتہا کے بعد

کربلا کے راستے کے آج کے راہیوں میں اہل ایران، یمنی مجاہدین، لبنانی مزاحمت، عراقی عشاق، فرزندان حسینی پاکستان نے کربلا کے راستے کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے امام خامنہ ای کی بابصیرت، الہیٰ و روحانی شخصیت کیساتھ اپنے عہد کو نبھانے اور ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کیلئے آمادگی و تیاری کر رکھی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تعداد میں قلیل ہونگے، طاقت و وسائل میں کمزور ہونگے، مگر ان کے ارادے چٹانوں کو ہلا دینے والے ہیں، ان کے شعار و نعرے بلندیوں کو چیر دینے والے ہیں، ان کا اخلاص و تڑپ متاثر کن ہے۔ ان کا جذبہ کامیابی کی کنجی ہے، لہذا کربلا و کربلا والوں سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کاروان میں شامل ہوا جائے، حقیقی کربلائی کہلانے کیلئے آج کی دنیا میں یہی راستہ ہے، ہم اسی راستے کے راہی ہیں، ہم امام خامنہ ای کے سپاہی ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: میدان کربلا میں کربلا کے راستے امام خامنہ ای دینے والے ہیں اسلامی ایران کربلا والوں کے سامنے سر کی قربانی دنیا میں راستے کے جاتے ہیں کیلئے ا کے بعد ہر ایک

پڑھیں:

چشم فلک تُو دیکھ، ہے زندہ حسینیت ؛ پیکرِ تسلیم و رضا، محافظ حُرمت اسلام امام حسینؓ

قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی کا مفہوم ہے: ’’جب حضرت ابراھیمؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ خانہ کعبہ کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے تو انہوں نے عرض کی، مفہوم: ’’اے پالنے والے! ہماری خدمت کو قبول فرما اور ہم دونوں کو اپنا مسلمان بندہ بنائے رکھنا، ہماری ذریت کو بھی امتِ مسلمہ بنائے رکھنا۔‘‘

اسی طرح قرآنِ پاک میں ایک اور موقع پر ارشادِ قدرت ہُوا، مفہوم: ’’جب ابراھیم کو خدا نے بعض باتوں میں آزمایا تو پھر انھوں نے اُسے پورا کیا، خدا نے اُن سے فرمایا کہ میں تمھیں لوگوں کے لیے پیشوا بنانے والا ہوں۔‘‘ (سورہ بقرہ) مزید فرمایا: ’’اور ہم نے ابراھیمؑ کو دنیا و آخرت میں نیکوں اور صالحین میں لے لیا ہے، جب رب نے اُن سے کہا کہ اپنے آپ کو ہمارے سپرد کردو تو انہوں نے کہا کہ میں اپنے آپ کو سپردِ پروردگار کرتا ہوں۔‘‘ پھر ایک اور جگہ فرمایا: ’’بے شک! وہ لوگ جو خدا کے فرماں بردار ہوئے اور ایک طرف کے ہورہے، وہ مشرکین میں سے نہ تھے، خدا کی نعمتوں کے شکرگزار تھے، خدا نے اُنھیں برگزیدہ کیا اور سیدھی راہ پر چلایا اور ہم نے اُنہیں دنیا میں بھی دیا، وہ دنیا و آخرت میں بے شک صالحین خدا میں سے تھے۔‘‘

یہ ایک تاریخی اور مسلمہ حقیقت ہے کہ بارگاہِ الہی میں جس کا ایمان جس قدر مضبوط ہوگا، اسی قدر امتحان اور آزمائش کا مرحلہ بھی سخت ترین ہوگا۔ انبیاء و مرسلین میں حضرت ابراھیمؑ ہی کو لے لیں اُنھیں خدا نے مختلف آزمائش و امتحانات سے گزارا، وہ اپنی جلالتِ قدر کے لحاظ سے ہر مرتبہ امتحان و آزمائش میں کام یاب ثابت ہوئے۔ جب اُنھیں نمرود کے حکم سے آگ میں ڈالا گیا تو انھوں نے اُس وقت جو صبر و استقامت اور عزم و ہمت کا ثبوت پیش کیا یہ انھی کا کام تھا۔

بعدازاں جب حضرت اسمٰعیلؑ و ہاجرا ؓ کو بیابانِ فاران میں چھوڑنے کا حکم ملا تو وہ بھی ایک سخت ترین مرحلہ و آزمائش تھا۔ اب سب سے کٹھن امتحان اور آزمائش جو سب امتحانوں سے سخت ترین تھا۔ حضرت ابراھیمؑ خلیلِ خدا خواب میں تین شبوں تک یہی دیکھتے رہے کہ خدا کے حکم سے اپنے لختِ جگر اسمٰعیلؑ کو قربان کررہا ہوں۔ پیکرِ تسلیم و رضا ابراھیمؑ فوراً آمادہ ہوگئے کہ حکم خدا کی تعمیل کریں۔ تاہم چوں کہ یہ معاملہ اُن کے بیٹے سے متعلق تھا جن کی قربانی کا حکم تھا، لہذا حضرت ابراھیم ؑ نے اپنے فرماں بردار اور اطاعت شعار نورِنظر کو اپنا خواب بتایا اور حکم خدا سنایا۔ حضرت اسمٰعیلؑ چوں کہ خلیلِ خدا حضرت ابراھیمؑ کے بیٹے تھے لہذا انھوں نے سرِ تسلیم فورا خم کردیا اور عرض کی کہ ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

پھر ابراھیمؑ نے اپنے بیٹے اسمٰعیلؑ کو پیشانی کے بل لٹایا تو ہم نے کہا کہ اے ابراھیم! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا ہم مخلصین کو ایسے صلہ دیتے ہیں۔ حقیقت میں یہ بڑی آزمائش تھی جسے ہم نے ’’فدیناہ بذبح عظیم‘‘ قرار دے دیا اور آنے والی نسلوں کے لیے باقی رکھا، سلام ہو ابراھیم ؑ پر، ہم انہیں معروفات بجا لانے کا ایسا صلہ دیتے ہیں یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہیں۔ (سورہ الصافات)

ذاتِ الہی کے حکم کی تعمیل عقل و دانش میں آئے نہ آئے لازم ہے۔ کیوں کہ آتشِ نمرود میں کودنے کا کرشمہ عشق ہے۔ جب کہ عقل تو محوِ تماشائے لبِ بام نظر آتی ہے۔ یہی حسین ابن علیؓ کا عشقِ الہی تھا کہ عزت و حرمت اور رفعت و وقار کا ماہِ محرم نواسۂ رسول الثقلینؐ، شہزادۂ کونین حضرت امام حسینؓ کی اپنے فرماں بردار، اطاعت شعار اصحاب ؓ باوفا اور اولادِ اطہارؓ کی لہو رنگ لازوال قربانی کی یاد دلاتا ہے۔

جسے تاریخ انسانی میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے اور تاریخ بشری اس عظیم ترین قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر و عاجز ہے۔ شریعت ِ مصطفویؐ میں یہ قربانی قربِ الہی کا وسیلہ قرار پائی جو دربارِ الہی میں عجز و انکساری اور تسلیم و رضا کا سرچشمہ ہے، جس سے دنیائے شریعت کی سربلندی، عالم اسلام کی یگانگت، قوم و ملت کی سلامتی اور اعلیٰ دینی اقدار کے تحفظ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔

تسلیم و رضا کی اس لازوال داستان کو دہرانا اور خاص طور پر محرم الحرام میں اس کا تذکرہ کرنا دینی فریضہ ہی نہیں، بل کہ انسانی اقدار اور اخلاقی فضائل و کمالات کی حیات کا ضامن ہے۔ امام عالی مقامؓ کا تعلق کسی مخصوص مکتب، مذہب یا فرقے اور ملک سے نہیں بل کہ ہر باضمیر انسان بارگاہِ مظلوم کربلا میں مودب اور مغموم دکھائی دیتا ہے۔

حضرت امام حسینؓ نے روزِ عاشورہ اپنے72جاں نثاروں کو اسلام کے تقدس کی خاطر قربان کردیا اور اُس پر آنچ نہ آنے دی۔ یہاں تک کہ فاسق و فاجر کے ہاتھ میں اس کی زمام دینا بھی گوارا نہیں کیا اور اس کے خلاف آوازِ حق بلند کرکے شعائر اﷲ کے احترام کا تا قیامت سلیقہ سکھا دیا۔

حضرت امام حسینؓ نے بیعت ِ یزید کے مطالبے کو ٹھوکر مار کر دنیا کو بتا دیا کہ ہم خانوادہِ رسول ﷺ ہیں، کسی ظالم و جابر کے سامنے نہیں جھکتے اور نوکِ سناں پر بھی کلمہ حق بلند کرتے ہیں۔ اسی لیے آپؓ نے گورنر مدینہ کے سامنے اپنا تعارف یوں کرایا:

’’اے ولید! ہم خانوادہِ نبوتؐ اور معدنِ رسالت ہیں، ہم پر فرشتوں کی آمد ہوتی ہے، خدا کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، خدا نے اسلام کو ہمارے گھرانے سے شروع کیا اور ہم ہی پر اختتام کرے گا۔ لیکن یزید جس کی بیعت کی تو ہم سے توقع رکھتا ہے وہ شراب خوار ہے، بے گناہ افراد کا قاتل ہے، احکام خدا کو پامال کرنے والا ہے، کھلے عام فسق و فجور کرتا ہے اور مجھ ایسا اس یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔‘‘

امام عالی مقامؓ نے اس خطاب میں اپنا موقف کھلے الفاظ میں بیان کردیا کہ وہ بیعت ِ یزید کو غیر اسلامی اور غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ نواسۂ رسول ﷺ حضرت امام حسین ابن علی کرم اﷲ وجہہ کی جدوجہد اور شجاعت کا اہم ترین مقصد اُس قوت کو مٹانا تھا جو ناصرف یہ چاہتی تھی کہ اپنی تمام خامیوں کے باوجود خلافتِ اسلامیہ کے منصب پر قابض ہو، ظلم اور دنگا و فساد کی ترویج کرکے اُمتِ مسلمہ کے مخالف نہ ہونے کی صورت میں خلافت ِ اسلامیہ کے نقاب میں چھپ کر قرآن و اسلام کے خلاف اُن شیطانی منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے جو حضور ﷺ کے زمانے میں جدل و جدال سے کام یاب نہ ہونے پائے تھے۔ درحقیقت اسی یزیدی قوت کو ملیامیٹ کرنا حسینؓ کی ذمے داری تھی جسے آپؓ نے یوں بیان فرمایا: ’’میں معروفات کا حکم اور منکرات سے روکنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے نانا نام دار ﷺ اور بابا بزرگوار کی سیرت پر چلوں۔‘‘

اسی لیے امام مظلوم کربلا نے یہ رجز پڑھا:

’’میں حسینؓ ہوں، میں نے قسم کھائی ہے کہ دشمنِ خدا و رسول ﷺ کے سامنے سر نہیں جھکاؤں گا، احکاماتِ خداوندی کی حفاظت کروں گا، یہاں تک کہ دین نبی ﷺ کی راہ میں مارا جاؤں۔‘‘

ایک اور جگہ امام عالی مقامؓ نے فرمایا: ’’میں علیؓ کا بیٹا ہوں جو آل ہاشم کے بہترین فرد ہیں، یہی میرا سب سے بڑا افتخار ہے کہ میرے جدِامجد رسول ﷺ خدا ہیں جو تاریخ کی بہترین شخصیت ہیں، ہم خدا کے چراغ ہیں جو روشن رہنے والے ہیں، میرے بابا علیؓ اور ماں فاطمہ زہراؓ دخترِ احمدِ مرسل ﷺ ہیں، عم بزرگوار جعفر طیارؓ جو ذوالجناحین کے لقب سے مشہور ہیں، خدا ہمارے ساتھ ہے، جس نے ہمیں ہدایت و راہ نمائی کے منصب پر فائز کیا ہے، ہم تمام مخلوقات کے لیے خدا کی طرف سے پناہ گاہ ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جس کا ہم کبھی کھل کر اعلانیہ اور کبھی پوشیدہ طور پر بتاتے ہیں، ہم ساقی حوضِ کوثر ہیں، قیامت کے روز جسے چاہیں جام کوثر سے سیراب کریں، یہی وہ حوضِ کوثر ہے جو قیامت کے دن جائے سعادت ہے اور دشمن نقصان اُٹھائیں گے۔‘‘

حضرت امام حسینؓ عزت و جاہ، دولت و ثروت کے خواہاں نہ تھے۔ وہ نہ شر و فساد پھیلانا چاہتے تھے نہ مسلمانوں کے امور میں رخنہ ڈالنا چاہتے تھے۔ بل کہ اُن کی شہادت کا مقصد اسلام کی سربلندی، حرمتِ انسانی کا تحفظ، شریعت ِ محمدی ﷺ کو افراط و تفریط سے بچانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امام عالی مقامؓ نے اپنے اصحاب باوفا اور اولادِ اطہارؓ کی شہادت پیش کرکے عقول بشری کو سربلند کرکے جو اقدار فراہم کیں وہ انسان کو عظیم ترین مرتبے پر فائز کرتی ہیں۔

آج اگر پوری کائنات میں صدائے توحید گونج رہی ہے اور ہر مسلمان کے قلب پر نقش ہے تو یہ قربانی حسینؓ کا صدقہ ہے۔ حسینؓ نے اپنی اور اپنے پیاروں و جاں نثاروں کی لازوال قربانی دے کر نہ صرف کلمۂ توحید اور مشن رسالت ﷺ کی لاج رکھی، وہاں تا ابد ہر مظلوم و ناکس کو ظالموں سے ٹکرانے اور آمروں پر چھا جانے کا حوصلہ بھی عطا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حریت پسند ہی نہیں بلاتفریق مذہب ہر قوم حسینؓ کو سلام پیش کرتی ہے۔

شہادت حسینؓ مسلمانوں کے لیے سرمایۂ افتخار اور اس کے ثمرات امت مسلمہ کے لیے بیش بہا انمول سرمایہ ہیں۔ ہر عہد میں صدائے حسینیؓ کی گونج مسلمانوں میں دین سے وابستگی اور راہ خدا میں قربانی کا جذبہ بیدار رکھے ہوئے ہے۔ یہ حسینؓ کی قربانی کا ہی اعجاز ہے کہ اسلام کا ہر سپاہی ارفع و اعلی مقاصد کے لیے ہنس کر شہادت کا جام پیتا ہے۔ یزید اپنے ظلم، جبر اور ناپاک ارادوں کے ساتھ ذلّت کی عمیق گہرائیوں میں غرق ہوگیا، لیکن رسولؐ کا پیارا حسینؓ آج بھی عظیم ترین مقصد کے لیے دی گئی لازوال قربانی کی بہ دولت ہر عہد ہر زمانے پر راج کررہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چشم فلک تُو دیکھ، ہے زندہ حسینیت ؛ پیکرِ تسلیم و رضا، محافظ حُرمت اسلام امام حسینؓ
  • درآمدی ڈیوٹی میں کمی، چھوٹی گاڑیاں خریدنے والوں کوکتنا فائدہ ہو گا؟
  • سہیل وڑائچ کا صبا قمر سمیت نقل اتارنے والوں کو واضح پیغام
  • بی بی سی پر اسرائیلی پروپیگنڈا پھیلانے کا الزام، 100 سے زائد ملازمین نے احتجاجی خط لکھ دیا
  • امریکہ میں غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کا گرین کارڈ منسوخ کرنے کا فیصلہ ، وارننگ جاری
  • دین اور کربلا کا مجموعی شعور
  • اسوۂ حسینی اور پیغامِ محرم، حق، قربانی اور وحدت کا دائمی پیغام
  • اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے افسران کو معافی نہیں ملے گی‘ چیئرمین ایف بی آر
  • سیدنا حسین کی شہادت دین کی بقاءکیلیے قربانی کا درس دیتی ہے،صفیہ شعیب