بنگلہ دیش کے آرمی چیف کا انتباہ: اندرونی لڑائی سے ملک خطرے میں پڑ سکتا ہے
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
ڈھاکہ: بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے ملک میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اندرونی اختلافات ملک کی خودمختاری کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
جنرل وقار الزمان کا کہنا تھا کہ اگر لوگ اپنے اختلافات بھلا کر متحد نہ ہوئے تو ملک کی آزادی اور سالمیت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
بنگلہ دیش میں جرائم کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ سیکیورٹی فورسز نے اس ماہ ہزاروں مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے جنہیں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی جماعت سے جوڑا جا رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے، یونیورسٹی کیمپس میں حریف طلبہ گروپوں کے درمیان تصادم ہوا، جو حکومت مخالف تحریک میں شامل طلبہ کے درمیان پھوٹ کا اشارہ ہے۔ بنگلہ دیش میں "آپریشن ڈیول ہنٹ" کے دوران اب تک 8,600 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
جنرل وقار الزمان نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا: "اگر ہم خود ہی انتشار پیدا کرتے رہیں گے، تو حالات بگڑتے جائیں گے اور ملک غیر مستحکم ہو جائے گا۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "جن لوگوں پر جبری گمشدگی، قتل اور تشدد کے الزامات ہیں، ان کے خلاف تحقیقات ضروری ہیں۔ اگر سزا نہ دی گئی، تو ہم اسی دائرے میں پھنسے رہیں گے۔"
شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد، جنرل وقار الزمان نے نوبل انعام یافتہ پروفیسر محمد یونس کی عبوری حکومت کی حمایت کی۔
یونس کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں جمہوری اصلاحات لانے اور 2025 کے آخر یا 2026 کے اوائل میں عام انتخابات کرانے کا منصوبہ ہے۔
آرمی چیف نے واضح کیا کہ "ہمارا مقصد ملک میں استحکام لانا ہے، اس کے بعد فوج بیرکوں میں واپس چلی جائے گی۔"
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جنرل وقار الزمان بنگلہ دیش
پڑھیں:
ایران جوہری پروگرام سے دستبردار نہیں ہو سکتا، ایرانی وزیر خارجہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جولائی 2025ء) ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکی میڈیا ادارے فاکس نیوز کو بتایا کہ تہران اپنے یورینیم افزودگی کے پروگرام سے دستبردار نہیں ہو سکتا جسے گزشتہ ماہ اسرائیل ایران لڑائی کے دوران شدید نقصان پہنچا تھا۔
لڑائی سے قبل تہران اور واشنگٹن نے عمان کی ثالثی میں جوہری مذاکرات کے پانچ دور منعقد کیے لیکن اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا کہ ایران کو یورینیم افزودہ کرنے کی کس حد تک اجازت دی جائے۔
اسرائیل اور امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران افزودگی کے اس سطح تک پہنچنے کے قریب ہے جو اسے فوری طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت دے گا، جبکہ تہران کا کہنا ہے کہ اس کا افزودگی کا پروگرام صرف پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔(جاری ہے)
وزیر خارجہ نے پیر کو نشر ہونے والے ایک کلپ میں فاکس نیوز کے شو ''بریٹ بائر کے ساتھ خصوصی رپورٹ‘‘ کو بتایا، ''اسے (جوہری پروگرام کو) روک دیا گیا ہے کیونکہ، ہاں، نقصانات سنگین اور شدید ہیں۔
لیکن ظاہر ہے کہ ہم افزودگی ترک نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ہمارے اپنے سائنسدانوں کا کارنامہ ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ قومی فخر کا سوال ہے۔‘‘ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی اور اسرائیلی حملوں کے بعد ایران میں جوہری تنصیبات کو پہنچنے والا نقصان سنگین تھا اور اس کا مزید جائزہ لیا جا رہا ہے۔
عباس عراقچی نے کہا، ''یہ درست ہے کہ ہماری تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے، شدید نقصان پہنچا ہے، جس کی اب ہماری جوہری توانائی کی تنظیم کی طرف سے جانچ کی جا رہی ہے۔
لیکن جہاں تک میں جانتا ہوں، انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔‘‘ ’بات چیت کے لئے تیار ہیں‘عراقچی نے انٹرویو کے آغاز میں کہا کہ ایران امریکہ کے ساتھ ''بات چیت کے لیے تیار ہے‘‘، لیکن یہ کہ وہ ''فی الحال‘‘ براہ راست بات چیت نہیں کریں گے۔
عراقچی کا کہنا تھا، ''اگر وہ (امریکہ) حل کے لیے آ رہے ہیں، تو میں ان کے ساتھ مشغول ہونے کے لیے تیار ہوں۔
‘‘وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ''ہم اعتماد سازی کے لیے ہر وہ اقدام کرنے کے لیے تیار ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن ہے اور ہمیشہ پرامن رہے گا، اور ایران کبھی بھی جوہری ہتھیاروں کی طرف نہیں جائے گا، اور اس کے بدلے میں ہم ان سے پابندیاں اٹھانے کی توقع رکھتے ہیں۔‘‘
’’لہذا، میرا امریکہ کو پیغام ہے کہ آئیے ایران کے جوہری پروگرام کے لیے بات چیت کے ذریعے حل تلاش کریں۔
‘‘عراقچی نے کہا، ''ہمارے جوہری پروگرام کے لیے بات چیت کے ذریعے حل موجود ہے۔ ہم ماضی میں ایک بار ایسا کر چکے ہیں۔ ہم اسے ایک بار پھر کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
مشرق وسطیٰ میں جوہری طاقتامریکہ کے اتحادی اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر حملہ کیا جس کے بعد مشرق وسطیٰ کے حریف 12 دن تک فضائی حملوں میں مصروف رہے، جس میں واشنگٹن نے ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری بھی کی۔
جون کے آخر میں فائر بندی ہوئی تھی۔ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا فریق ہے جبکہ اسرائیل نہیں۔ اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ایران میں ایک فعال، مربوط ہتھیاروں کے پروگرام کے بارے میں ''کوئی قابل اعتماد اشارہ‘‘ نہیں ہے۔ تہران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف اور صرف پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔
اسرائیل مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف اس کی جنگ کا مقصد تہران کو اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین