ٹرمپ کی دھمکی اور عالمی فوجی عدالت کے بارے میں افغان طالبان کا ردعمل
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ کوئی بھی اس وہم میں نہ رہے کہ افغانستان، یوکرائن ہے، وہ افغانوں کو حکم نہیں دے سکتے ہیں، ہم کسی دوسرے ملک کے کنٹرول اور انتظامیہ کے ماتحت نہیں ہیں، امریکی افواج کے پیچھے چھوڑے گئے ہتھیار اب افغان عوام کی ملکیت ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان طالبان کو ایک بار پھر وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کا چھوڑا گیا 7 بلین ڈالرز کی قیمت کا امریکی اسلحہ ہمیں واپس کر دو، امریکہ بائیڈن کی غلطی کو درست کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ اس کے جواب میں افغانستان طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ کوئی بھی اس وہم میں نہ رہے کہ افغانستان، یوکرائن ہے، وہ افغانوں کو حکم نہیں دے سکتے ہیں، ہم کسی دوسرے ملک کے کنٹرول اور انتظامیہ کے ماتحت نہیں ہیں، امریکی افواج کے پیچھے چھوڑے گئے ہتھیار اب افغان عوام کی ملکیت ہیں۔
دوسری جانب انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان کی عبوری انتظامیہ، اسلامی قانون کی روشنی میں اور افغانوں کی مذہبی اور قومی اقدار کی حفاظت کرنے والے نظام کے طور پر، روم کنونشن کی بنیاد پر قائم ہونے والے "انٹرنیشنل کریمنل کورٹ" نامی ادارے کے سامنے خود کو ذمہ دار نہیں سمجھتی اور درج ذیل نکات کا اعلان کرتی ہے: 1۔ "عدالت" کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے اقدامات عدل و انصاف کے اصول کے بجائے سیاسی تبدیلی پر مبنی ہیں، اور افغانستان کی عبوری انتظامیہ ممالک کے ساتھ کنٹرول اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات چاہتی ہے، اس پالیسی سے متفق نہیں۔ 2۔ افغانستان اور دیگر ممالک میں لاکھوں عام شہری (جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی) پسماندہ ہیں اور مارے گئے، لیکن یہ "عدالت" سنگین امریکی جرائم پر خاموش رہی۔ 3۔ اس ادارے نے کبھی افغانستان میں قابضین اور ان کے اتحادیوں کے جنگی جرائم کے بارے میں نہیں پوچھا، جس نے پورے دیہات کے دیہات کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا، تعلیمی مراکز، مساجد، اسپتالوں اور شادی بیاہ کی تقریبات کو دھماکے سے اڑا دیا، اور عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور ہزاروں قیدیوں کی شہادت کا سبب بنے۔ 4۔ بہت سی بڑی طاقتیں اس "عدالت" کی رکن نہیں ہیں، اسی طرح افغانستان جیسے ملک کی رکنیت بھی ضروری نہیں ہے، جو ہمیشہ دوسروں کے قبضے اور استعمار کی وجہ سے مظلوم رہا ہے۔
مذکورہ بالا نکات کے پیش نظر افغانستان کی عبوری حکومت باضابطہ طور پر روم معاہدے کی عدم پاسداری کا اعلان کرتی ہے اور سابقہ انتظامیہ کے مذکورہ معاہدے سے الحاق کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
امریکی صدر اور ایلون مسک جھگڑا،'ٹرمپ کو مسک سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں'
واشنگٹن:امریکی صدر اور دنیا کے امیر ترین فرد ایلون مسک کے درمیان ہونے والے جھگڑے کے بعد وائٹ ذرائع نے بتایا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو مسک سے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کے درمیان ہونے والے جھگڑے سے باخبر وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ایلون مسک سے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
قبل ازیں ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کے درمیان عوامی سطح پر جھگڑا ہوا تھا۔
ایلون مسک نے اس جھگڑے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ردعمل دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر الزامات کی بوچھاڑ کردی تھی اور کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ جیفری ایپسٹین کی فائلیں عوام کے سامنے نہیں لا رہی ہے کیونکہ ٹرمپ کی حقیقت ان فائلوں میں موجود ہے۔
مسک نے ایکس پر بیان میں کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ میرے بغیر انتخاب میں ہار چکے ہوتے اور ڈیموکریٹس کو ایوان میں برتری حاصل ہوتی اور ری پبلکنز کو سینیٹ میں 51 کے مقابلے میں 49 نشستیں حاصل ہوتیں۔
دوسری طرف ٹرمپ نے ایلون مسک کو منشیات استعمال کرنے کا الزام عائد کیا اور سرکاری معاہدے منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دے دی ہے۔
خیال رہے کہ ایلون مسک نے ٹرمپ انتظامیہ سے متعدد امور پر اختلافات کے بعد اپنی سرکاری ذمہ داریوں سے استعفیٰ دیا تھا۔