امریکی گلوکارہ کیٹی پیری کا ستاروں تک پہنچنے کا خواب: خلا میں سفر کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
امریکی گلوکارہ کیٹی پیری نے ایک ایسے خواب کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ وہ جیف بیزوس کی خلائی کمپنی ’بلیو اوریجن‘ کے ذریعے خلا میں سفر کرنے والی سیلیبریٹیز کی فہرست میں شامل ہوگئی ہیں۔
کیٹی پیری نے اس موقع پر کہا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ یہ سفر نہ صرف ان کی بیٹی بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی ترغیب دے گا۔
بلیو اوریجن کی جانب سے جاری کی گئی فہرست میں کیٹی پیری کے علاوہ کئی دیگر معروف خواتین بھی شامل ہیں، جن میں جیف بیزوس کی منگیتر لارین سانچیز، ٹی وی میزبان گائل کنگ، ناسا کی سابق راکٹ سائنسدان عائشہ بوو، ریسرچ سائنسدان امندا نووئین، اور فلم پروڈیوسر کیرین فلین شامل ہیں۔ یہ تمام خواتین اپنے شعبوں میں نمایاں مقام رکھتی ہیں اور اب وہ خلا کے سفر کے لیے تیار ہیں۔
لارین سانچیز، جو خود ایک ہیلی کاپٹر پائلٹ اور سابق ٹی وی صحافی ہیں، نے اس پرواز کے عملے کا انتخاب کیا ہے۔ یہ سفر ’نیو شیپرڈ‘ راکٹ کے ذریعے مغربی ٹیکساس سے کیا جائے گا اور یہ بلیو اوریجن کی 11ویں انسانی خلائی پرواز ہوگی۔ اگرچہ سفر کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا، لیکن یہ موسم بہار میں کسی وقت ہوگا۔
کیٹی پیری نے اس منفرد موقع پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’میں اس سفر کو ایک ایسے تجربے کے طور پر دیکھ رہی ہوں جو نہ صرف مجھے بلکہ میری بیٹی اور دوسروں کو بھی ستاروں تک پہنچنے کی ترغیب دے گا۔ یہ ایک ایسا موقع ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری حدود آسمان سے بھی آگے ہیں۔‘‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بلیو اوریجن نے کسی مشہور شخصیت کو خلا میں بھیجا ہو۔ 2021 میں، ’اسٹار ٹریک‘ کے مشہور اداکار ولیم شاٹنر 90 سال کی عمر میں خلا میں جا چکے ہیں۔ شاٹنر، جو ٹی وی سیریز میں کیپٹن کرک کے کردار کےلیے مشہور ہیں، خلا میں جانے والے سب سے عمر رسیدہ فرد بن گئے تھے۔ ان کا یہ سفر سائنس فکشن کے مداحوں کےلیے ایک تاریخی لمحہ تھا، کیونکہ وہ ٹیلی وژن اسکرین پر خلائی جہاز کے کمانڈر کے طور پر نظر آتے تھے اور اب حقیقت میں خلا تک پہنچ چکے تھے۔
کیٹی پیری کا یہ سفر نہ صرف ان کے لیے بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے ایک متاثر کن لمحہ ہوگا جو خواب دیکھتے ہیں اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سفر ثابت کرتا ہے کہ انسان کی خواہشات اور خوابوں کی کوئی حد نہیں ہے، اور ہم اپنی کوششوں سے ستاروں تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بلیو اوریجن خلا میں یہ سفر
پڑھیں:
دھمکی نہیں دلیل
اسلام ٹائمز: امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں: امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اسکے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔ تحریر: احسان احمدی
امریکی حکام نے برسوں سے اپنے آپ کو دھوکہ دے رکھا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرکے اس کے جوہری پروگرام میں رکاوٹ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ خلاصہ ہے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سابق اہلکار اور ایک سینیئر امریکی ماہر رے ٹیکیکی کے الفاظ کا۔ رے ٹیکیکی نے ہفتے کے روز پولیٹیکو ویب سائٹ پر واشنگٹن اور تہران کے درمیان بالواسطہ بات چیت کے بارے میں ایک مضمون شائع کیا تھا۔ مغربی میڈیا کے معمول کے پروپیگنڈے کے برعکس رے ٹیکیکی نے اپنے مضمون کا مرکز اس حقیقت پر رکھا کہ جس چیز کی وجہ سے ایران اور امریکہ کے درمیان مختلف ادوار میں مذاکرات ہوئے، وہ ایران کے خلاف پابندیوں کا دباؤ نہیں تھا بلکہ امریکہ کو ایران کی جوہری پیش رفت سے خطرے کا احساس تھا۔
یہ نقطہ نظر، میڈیا کی تشہیر سے ہٹ کر، مختلف امریکی حکومتوں کے حکام کے الفاظ میں اشاروں کنایوں میں درک کیا جاسکتا ہے۔ ان اہلکاروں میں سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی شامل ہیں۔ اپنی ایک رپورٹ Every Day Is Extera میں وہ واضح کرتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایران کی مقامی افزودگی کو تسلیم کیے بغیر اس کے ساتھ بات چیت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کتاب میں، جان کیری لکھتے ہیں: "اس بات سے قطع نظر کہ ایران کو افزودگی کا "حق" حاصل ہے یا نہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب تک ہم احتیاط سے طے شدہ حدود کے تحت ایران کی افزودگی جاری رکھنے کے امکان کے بارے میں بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، تب تک ایران کے ایٹمی پروگرام تک رسائی، شفافیت اور حقائق کے حصول کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ افزودگی کے حق کو تسلیم کرکے ہی اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ ایران فوجی جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے یا نہیں۔
سابق امریکی سفارت کار نے مزید کہا ہے کہ ایران میں اوسط ہر دوسرا فرد اس خیال سے ناراض ہوگا کہ ان کا ملک وہ نہیں کرسکتا، جو دوسرے آزاد ممالک (افزودگی) کرتے ہیں، کیونکہ امریکہ ایسا کرنا چاہتا ہے۔ ایرانیوں کے نزدیک یہ انداز امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مساوی ہوگا۔ وہ امریکی جنہوں نے ان کے خیال میں شاہ کے دور میں ان کی آزادی اور خودمختاری میں کافی عرصے تک مداخلت کی تھی۔ اس کتاب میں کیری نے انکشاف کیا کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی خفیہ طور پر ایران میں مقامی افزودگی کو قبول کرنے کی ضرورت کے خیال کو قبول کر لیا تھا۔
وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں نے ان سے اپنی نجی گفتگو سے یہ درک کیا کہ بش انتظامیہ کے بظاہر عوامی موقف کے باوجود، اس انتظامیہ نے خفیہ طور پر اور نجی طور پر (ایرانی افزودگی کے) خیال سے اتفاق کر لیا تھا، حالانکہ وہ کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچے تھے کہ ایٹمی ڈھانچہ یا سطح (افزودگی) کیا ہونی چاہیئے۔ اپنے مضمون میں رے ٹیکیکی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے دوران زیادہ سے زیادہ دباؤ کا منصوبہ ایران کے جوہری پروگرام کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز، حتیٰ کہ اوباما کے دور میں بھی، واشنگٹن کی جانب سے تہران کو دی جانے والی اہم مراعات کا نتیجہ تھا۔
"اوباما کی زیادہ دوستانہ پالیسی تبھی آگے بڑھی، جب واشنگٹن نے (تہران) کو ایک کلیدی رعایت دی یعنی "ایران کو افزودہ کرنے کا حق،" امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں۔ امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اس کے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔