امریکی پابندیوں کو اب انسانیت کے خلاف جرم تسلیم کرنے کا وقت آ گیا،عباس عراقچی
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
تہران(انٹرنیشنل ڈیسک) ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ امریکی پابندیوں کو اب انسانیت کے خلاف جرم تسلیم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ انہوں نے ان تمام ممالک سے اپیل کی جو اس وقت یا ماضی میں امریکی پابندیوں کا نشانہ بنے، کہ وہ متحد ہو کر مشترکہ ردعمل دیں اور اس معاملے پر عالمی سطح پر آواز بلند کریں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری بیان میں عراقچی نے طبی جریدے لانسیٹ گلوبل ہیلتھ میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مطالعے کا حوالہ دیا، جس میں بین الاقوامی پابندیوں کے انسانی جانوں پر اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
ان کے مطابق مغربی حکومتیں برسوں سے یہ دعویٰ کرتی آئی ہیں کہ پابندیاں جنگ کا پرامن متبادل ہیں، لیکن نئی تحقیق کے مطابق یکطرفہ پابندیاں، خصوصاً امریکا کی جانب سے عائد کی جانے والی، جنگ جتنی مہلک ثابت ہو سکتی ہیں۔
عراقچی نے بتایا کہ 1970 کی دہائی سے اب تک ہر سال پانچ لاکھ سے زائد جانیں پابندیوں کے اثرات سے ضائع ہو رہی ہیں، جن میں زیادہ تر بچے اور بزرگ شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے عائد غیر انسانی پابندیوں کے خلاف عالمی اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ اس عمل کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا جا سکے۔
انہوں نے نشانہ بننے والے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنے اقدامات کو ہم آہنگ کر کے اجتماعی اور مؤثر ردعمل دیں، تاکہ اس مسئلے کا مقابلہ عالمی سطح پر کیا جا سکے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے خلاف
پڑھیں:
چین کے خلاف امریکی AI ہتھیار پروگرام اپنے اہداف حاصل نہ کرسکا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی پینٹاگون کا “ریپلیکیٹر” منصوبہ جس کا مقصد بحرالکاہل میں چین کے بڑھتے ہوئے عسکری خطرے سے نمٹنے کے لیے ہزاروں خودکار ڈرونز اور اے آئی سے لیس ہتھیار مہیا کرنا تھا متعدد تکنیکی، انتظامی اور مالی مشکلات کی وجہ سے اپنے اہداف پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق ڈرونز کی تیاری میں تاخیر، بعض ماڈلز کا ناقابلِ اعتماد نکلنا، لاگت کا بڑھ جانا اور مختلف کمپنیوں کے سافٹ ویئر کو اکٹھا کر کے ایک مؤثر نظام بنانا بڑے مسائل رہے۔ نتیجے کے طور پر یہ پروگرام اب اسپیشل آپریشنز کمانڈ کے تحت “ڈیفنس آٹونومس وارفیئر گروپ” (DAWG) کو منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ عمل میں تیزی اور درستگی لائی جا سکے۔
رپورٹ میں چند واضح ناکامیوں کی مثالیں دی گئیں — مثلاً بلیک سی کی بغیر پائلٹ کشتی “گارک” کا مشق کے دوران اسٹیئرنگ فیل ہو جانا اور بہہ جانا، اور کچھ فضائی ڈرونز کی لانچنگ میں تاخیر یا ہدف کی درست شناخت میں ناکامی۔ ایسے متعدد سسٹمز یا تو نامکمل رہے یا صرف تصوراتی سطح پر تھے، جبکہ یوکرین میں مسائل کا سامنا کرنے والے “سوئچ بلیڈ 600” جیسے ماڈلز کی بڑی تعداد خرید لی گئی۔ ماہرین نے تنقید کی کہ مواصلاتی خلل کی صورت میں یہ خودکار نظام کمزور ثابت ہو سکتے ہیں۔
دوسری طرف چند ماہرین نے ریپلیکیٹر کے مثبت پہلو بھی اجاگر کیے — کہ اس نے دو سال کے اندر نئے ڈرون سسٹمز کی خرید، جانچ اور ترقی کے عمل کو تیزی دی اور روایتی خریداری کے عمل کو مختصر کیا۔ پینٹاگون کے مطابق اس پروگرام کا بنیادی مقصد چین کے ممکنہ جارحانہ اقدامات، خاص طور پر تائیوان کے خلاف حالات میں، خودکار ڈرونز کے ذریعے دشمن پر دباؤ ڈالنے اور کم جانی نقصان کے ساتھ آپریشنز کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا تھا۔
اب DAWG کے پاس کم وقت ہے — اہلکار لیفٹیننٹ جنرل فرینک ڈونووان کی نگرانی میں — تاکہ مطلوبہ سسٹمز پینٹاگون کو فراہم کیے جائیں۔ رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ تکنیکی استحکام، قابلِ اعتماد کنیکٹیویٹی اور منتخب ہارڈویئر کی مناسب جانچ و توثیق نہ ہونے کی وجہ سے ریپلیکیٹر نے توقع کے مطابق تیز کامیابی حاصل نہ کی، اور آئندہ کامیابی کے لیے منصوبے کو درست سمت میں ترتیب دینے، وسائل کی مؤثر تقسیم اور حقیقت پسندانہ اہداف مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔