ٹرمینیٹر، ٹائٹینک اور اوتار فلموں کے خالق نے امریکا چھوڑ دیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
لاہور:
ڈائریکٹر جیمز کیمرون ’’ٹرمنیٹر‘‘، ’’ٹائٹینک‘‘ اور ’’اوتار‘‘ جیسی یادگار فلمیں بنا کر عالمی شہرت پاچکے، وہ کینیڈا میں پیدا ہوئے مگر بیشتر زندگی امریکا میں گذاری.
امریکی شہری بننا چاہتے تھے مگر امریکا نے جنگیں شروع کیں تو اس ملک سے متنفر ہو گئے، اب وہ نیوزی لینڈ کے شہری بن گئے ہیں اور کبھی امریکہ نہیں رہنا چاہتے، نئی فلمیں بھی کیوی کے دیس میں بنائیں گے۔
انھوں نے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ٹرمپ کا امریکا تمام مہذب و معقول باتوں سے منہ موڑ رہا ہے جو نہایت خوفناک رجحان ہے اگر امریکیوں نے اپنے مفادات کی خاطر اعلی انسانی اقدار کو ملیامیٹ کردیا تو انہیں نظریاتی طور پہ کھوکھلا ہو کر تباہ ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
شادی سے مایوس چینی شخص نے نوکری اور گھر بار چھوڑ کرپہاڑوں کا رخ کرلیا، غار میں پناہ لے لی
سچوان (اوصاف نیوز)چین کے صوبہ سچوان سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ من ہینگ کائی نامی شخص نے دنیاوی ذمہ داریوں، شادی اور روزگار کو ترک کرکے غار میں تنہا زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جنوبی چین مارننگ پوسٹ کے مطابق، انہوں نے اپنی ملازمت چھوڑ کر شہر کی بھاگ دوڑ سے دور سکون کی تلاش میں پہاڑوں کا رخ کیا ہے۔
من ہینگ کائی ایک وقت میں روزانہ دس گھنٹے رائیڈ ہیلنگ سروس چلا کر خاندان کے قرضے چکانے میں مصروف تھے، تاہم یہ کام انہیں بے معنی لگا۔ 2021 میں، انہوں نے ماہانہ 1400 امریکی ڈالر کی نوکری چھوڑ دی اور ایک چھوٹے سے پلاٹ کے بدلے اپنی زمین کا سودا کر کے ایک 50 مربع میٹر پر مشتمل غار کو 6 ہزار ڈالر کی لاگت سے اپنا نیا گھر بنا لیا۔
ان کے مطابق، رشتہ داروں کی جانب سے ان کی جائیدادیں بیچ دیے جانے کے بعد وہ مایوس ہو گئے اور 42 ہزار ڈالر کے بینک قرضے کی واپسی کا ارادہ بھی ترک کر دیا۔
غار میں زندگی گزارنے والے من ہینگ کائی کا معمول سادہ ہے۔ صبح 8 بجے جاگنا، مطالعہ کرنا، چہل قدمی اور زمین کی دیکھ بھال کرنا، اور رات 10 بجے سونا۔ وہ زیادہ تر اپنی اگائی گئی سبزیوں پر گزارا کرتے ہیں اور صرف ضروری اشیاء پر خرچ کرتے ہیں۔ 4 سال سے اس غار میں ہی رہائش پزیر ہیں اور اپنی رہائش کو وہ ’بلیک ہول‘ کہتے ہیں تاکہ خود کو اپنی حیثیت کا احساس دلاتے رہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ تنہائی کی زندگی گزارنے کے باوجود سوشل میڈیا پر کافی متحرک ہیں۔ ان کے فالوورز کی تعداد 40 ہزار تک پہنچ چکی ہے اور وہ لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے کمائی بھی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ شہر میں ملازمت کرتے ہوئے ہمیشہ اسی سادہ زندگی کی خواہش رکھتے تھے۔
شادی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ وقت اور پیسے کا ضیاع ہے کیونکہ سچی محبت ملنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ’جب سچی محبت ملنے کے امکانات ہی نہ ہوں، تو میں اتنی محنت کیوں کروں؟‘
ان کی زندگی کے انتخاب پر سوشل میڈیا پر شدید بحث چھڑ گئی ہے۔ کچھ صارفین نے انہیں ’ٹانگ پنگ‘ یعنی ’لیٹے رہنے والا‘ یا بےعمل کہا، جو صرف بنیادی ضروریات پوری کرنے والا طرزِ زندگی ہے، جبکہ دیگر نے انہیں سماجی روایات کو رد کرنے والا ’سچا فلسفی‘ قرار دیا، حالانکہ ان کی تعلیم معمولی ہے۔
ایک صارف نے لکھا، ’یہ تو جنت جیسی زندگی ہے!‘
دوسری جانب کچھ لوگوں نے اس طرزِ زندگی پر سوالات بھی اٹھائے ہیں، کیونکہ وہ سوشل میڈیا پر متحرک ہیں اور انٹرویوز بھی دیتے ہیں، جو ان کی ’تنہائی‘ کے دعوے سے متصادم معلوم ہوتا ہے۔
معاشی استحکام کیلئے ایس آئی ایف سی کی کاوشیں رنگ لے آئیں، منرلز کمپلیکس قائم