امریکا قطر دفاعی حکم نامہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
قطر پر اسرائیل کے حملہ کے بعد عرب ممالک میں بالخصوص یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ امریکا کے اتحادی ہونے کے باوجود اسرائیل ان پر حملہ کر سکتا ہے اور امریکا اس کو نہیں روکے گا۔ عرب ممالک میں قطر سے بڑا امریکا کا کوئی اتحادی نہیں۔
اس لیے سوال پیدا ہوگیا کہ اگر قطر محفوظ نہیں تو کوئی بھی محفوظ نہیں۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کوئی راز کی بات نہیں۔ گریٹر اسرائیل کا نقشہ خود اسرائیلی وزیر اعظم تقاریب میں پیش کرتے ہیں۔ اس لیے قطر پر اسرائیلی حملہ کے بعد عربوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا۔ ایک رائے بن گئی کہ امریکا کی چھتری کافی نہیں۔
پہلے مرحلہ میں سعودی عرب نے لیڈ کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ کیا۔ جس میں یہ طے ہوا کہ سعودی عرب پر حملہ پاکستان پر حملہ تصور ہوگا۔
یہ بارش کا پہلا قطرہ تھا۔ امریکا کے لیے واضح پیغام تھا کہ اب باقی عرب ممالک بھی اگر پاکستان کے ساتھ نہیں تو دیگر بڑے ممالک کے ساتھ ایسے معاہدے کر سکتے ہیں۔ یہ امریکا کی عربوں پر حاکمیت کو ختم کرنے کی طرف پہلا قدم سمجھا جا رہا تھا۔
یہ درست ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی حکومت نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ کی کوئی کھلم کھلا مخالفت نہیں کی۔ اس کو خوش آئند قرار دیا لیکن اندر سے خطرے کی گھنٹیاں بج چکی تھیں۔
اس لیے امریکا کے لیے عربوں کا اعتماد جیتنا اہم تھا۔ اگر امریکا نے عربوں کے ساتھ چلنا ہے تو عربوں کا اعتماد ضروری تھا۔ اس لیے آپ دیکھیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ نے مشرق وسطیٰ کی سیاست ہی بدل دی۔
امریکا دفاعی پوزیشن پر آگیا ہے۔ پہلے اسرائیل کے وزیر اعظم نے وائٹ ہاؤس سے قطر کے وزیر اعظم سے معافی مانگی۔ ورنہ اس سے پہلے ایسی کوئی روایت نہیں ملتی کہ اسرائیل نے کبھی کسی مسلم ملک بالخصوص عرب ملک سے اپنی جارحیت کی معافی مانگی ہو۔
پھر معافی کا یہ فون قطر کے امیر نے نہیں سنا۔ انھیں وزیر اعظم سے معافی مانگنی پڑی۔ قطر کے امیر نے فون پر بات نہیں کی۔ امریکا کو علم تھا کہ صرف معافی کافی نہیں۔
اسرائیل کی معافی قطر کا غصہ کم تو کر سکتی ہے لیکن مستقبل میں تحفظ کا احساس نہیں دلا سکتی۔ عرب خود کو اسرائیل سے غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں اور اس لیے وہ دفاعی معاہدہ کریں گے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ نے اسرائیل کے لیے بھی خطرے کی گھنٹیاں بجائی ہیں۔ اسرائیل کو احساس ہوا کہ اس کے خلاف ایک بڑی مشترکہ فوج بن سکتی ہے۔
اگر سب مسلم ممالک نے آپس میں ایسے دفاعی معاہدے کر لیے تو اسرائیل کے خلاف ایک بڑا اتحاد بن جائے گا جو اسرائیل کے لیے ایک خطرہ ہوگا، اس لیے اسرائیل بھی معافی مانگنے پر تیار ہوا۔
اب امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے ''قطر کی ریاست کی سلامتی کی یقین دہانی'' کے عنوان سے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں۔
یہ غیرمعمولی اقدام قطر کونیٹو کے ''آرٹیکل 5 جیسی'' حفاظتی ضمانت فراہم کرتا ہے، جو اس کی سرزمین، خودمختاری، یا اہم انفراسٹرکچر پر کسی بھی مسلح حملے کو امریکی امن اور سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ سمجھا جائے گا یعنی قطر پر حملہ امریکا پر حملہ تصور ہوگا۔
جیسا دفاعی معاہدہ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ کیا ہے بالکل ویسا ہی دفاعی معاہدہ امریکا نے قطر کے ساتھ کر لیا ہے، یعنی اب قطر پر حملے کا جواب امریکا دے گا جیسے سعودی عرب پر حملے کا جواب پاکستان دے گا۔ یہ معاہدہ قطر کو پاکستان کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنے سے روکنے کے لیے بھی کیا گیا ہے۔
امریکی صدر کے اس حکم نامے کے تحت امریکا قطر کو امریکی اتحادی کے طور تسلیم کرتا ہے، جس میں امریکی افواج کی میزبانی اور سیکیورٹی آپریشنز اور ثالثی کی کوششوں میں مدد کرنا شامل ہے (مثلاً غزہ اور دیگر عالمی تنازعات میں)۔
غیر ملکی جارحیت سے جاری خطرات کی وجہ سے ''بیرونی حملے کے خلاف ریاست قطر کی سلامتی اور علاقائی سالمیت کی ضمانت'' کے لیے امریکی پالیسی کا اعلان کرتا ہے۔
قطر کی سرزمین، خودمختاری، یا اہم بنیادی ڈھانچے پر کسی بھی مسلح حملے کو ''امریکا کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ'' سمجھا جاتا ہے۔ امریکا مشترکہ مفادات کے تحفظ اور امن کی بحالی کے لیے ''تمام قانونی اور مناسب اقدامات'' کرے گا، بشمول سفارتی، اقتصادی اور فوجی اقدامات۔ ایگزیکٹو آرڈر تمام انتظامی محکموں اور ایجنسیوں کو امریکی قانون کے مطابق حکم پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔
اس حکم پر پیر کو دستخط کیے گئے تھے، اسی دن اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا تھا۔ قطر سے معافی بھی مانگی تھی۔ لیکن حکم نامہ چند دن بعد منظر عام پر لایا گیا۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے امریکا کا ایسا کوئی معاہدہ اسرائیل کے ساتھ نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اسرائیل پر حملہ امریکا پر حملہ تصور ہوگا۔ شائد اسرائیل کو اس کی ضرورت بھی نہیں۔ لیکن ایسا معاہدہ اسرائیل کے ساتھ نہیں ہے لیکن وہ چاہتے ہیں۔
دفاعی تجزیہ نگاروں کی رائے میں یہ کوئی باہمی دفاعی معاہدہ نہیں ہے، یہ ایک امریکی صدارتی حکم ہے۔ امریکی صدر کا ایک ایگزیکٹو آرڈر ہے، اس لیے اس کو کسی بھی وقت امریکا ختم بھی کر سکتا ہے۔
ایک حکم نامہ جو ختم بھی ہو سکتا ہے، یہ معاہدہ نہیں ہے۔ اگر معاہدہ ہوتا تو دونوں ممالک اس پر دستخط کرتے۔ اس کو یک طرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اس لیے اگر دیکھا جائے تو اس کو ہم سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدہ کے تناظر میں تو دیکھ رہے ہیں، اس سے اس کی مماثلت بھی بنا رہے ہیں لیکن سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ایک باہمی دفاعی معاہدہ ہوا ہے جس پر دونوں ممالک کے دستخط ہیں۔
دونوں ممالک اس کے پابند ہیں۔ قطر اور امریکا میں ایسا نہیں ہے وہ ایک یک طرفہ حکم نامہ ہے جو یک طرفہ طور پر ختم بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے اندر سے قطر بھی جانتا ہے کہ یہ معاہدہ نہیں حکم نامہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ باقی عرب ممالک کیا کریں گے۔ کیا باقی عرب ممالک کے لیے امریکا ایسا حکم نامہ جاری کرے گا۔کیا عرب ممالک ابھی خاموش رہیں گے ۔
امریکا ان کو خاموش کروا لے گا۔ اب ان کو شور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ بات دیکھنے کی ہے۔ کیونکہ اب عرب ممالک کے پاس دو آپشن ہیں۔ ایک پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ، دوسرا امریکی حکم نامہ۔ ان کی مرضی وہ کس کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے درمیان دفاعی معاہدہ پاکستان کے ساتھ اسرائیل کے امریکا کے عرب ممالک ممالک کے اس لیے ا کرتا ہے نہیں ہے پر حملہ سکتا ہے قطر کے کے لیے
پڑھیں:
سکیورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان
سکیورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان WhatsAppFacebookTwitter 0 17 November, 2025 سب نیوز
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور دیگر حکومتی ارکان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی حمایت یافتہ غزہ امن منصوبے کی توثیق کرنے والی قرارداد پر ووٹنگ سے قبل فلسطینی ریاست کو ایک بار پھر قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق قرارداد کا مسودہ اسرائیل اور حماس کے درمیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں جنگ بندی کے معاہدے کی پیروی ہے جس میں کونسل کو غزہ میں ایک عبوری انتظامیہ اور ایک عارضی بین الاقوامی سیکورٹی فورس کی تعیناتی پر آمادہ کرے گا۔
پچھلے مسودوں کے برعکس اس قرارداد کے تازہ ترین ورژن میں مستقبل کی ممکنہ فلسطینی ریاست کا ذکر ہے جس کی اسرائیلی حکومت سخت خلاف ہے۔
گزشتہ روز اسرائیلی کابینہ کے اجلاس میں نیتن یاہو نے کہا کہ فلسطینی ریاست کے لیے ہماری مخالفت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
انہوں نے طویل عرصے سے فلسطین کی آزادی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل حماس کو نوازے گی اور اسرائیل کی سرحدوں پر حماس کے زیر انتظام ایک اور بھی بڑی ریاست کا باعث بنے گی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروفاقی آئینی عدالت نے پہلا بڑا فیصلہ سنا دیا وفاقی آئینی عدالت نے پہلا بڑا فیصلہ سنا دیا عارضہ قلب سمیت دیگر امراض میں مبتلا افراد حج نہیں کرسکیں گے، ڈپورٹ کرنےکی پالیسی بھی لاگو ایران میں بدترین خشک سالی، شہریوں کو تہران خالی کرنا پڑسکتا ہے، ایرانی صدر لیبیا کے ساحل کے قریب 2 کشتیوں کو حادثہ، 4 تارکین وطن ہلاک وقت پر اسلحہ کیوں نہیں ملتا؟ بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے شکایتوں کے انبار لگا دیے ملک کی بدنامی کا باعث بننے والے کسی مسافر کو سفر کی اجازت نہیں دی جائیگی: محسن نقویCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم