بالی ووڈ کی اسٹائلش اداکارہ سونم کپور اور ان کے شوہر آنند آہوجہ جلد ہی دوسری بار ماں باپ بننے والے ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق سونم کپور اور ان کے شوہر آنند آہوجہ کی شادی 2018 میں ہوئی تھی اور اگست 2022 میں خوبصورت بیٹے کے والدین بنے تھے۔

کپور خاندان کے ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ سونم کپور امید سے ہیں اور جلد اس حوالے سے ایک تقریب بھی رکھی جائے گی۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ سونم کپور نے حال ہی میں فلموں میں واپسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماں بننے کے بعد سے بیٹے کی پرورش کو وقت دیا لیکن اب واپسی ہے میرے پہلے عشق ہے اداکاری کی طرف۔

سونم کپور نے اُس وقت اپنی واپسی سے متعلق تفصیلات تو نہیں بتائی تھیں لیکن کہا جا رہا ہے کہ وہ فلم "بیٹل فار بٹورا" سے فلمی دنیا میں واپسی کر رہی ہیں۔

تاہم اب ان کے دوبارہ حاملہ ہونے کی خبروں سے اس پراجیکٹ کا معاملہ کھٹائی میں پڑتا نظر آ رہا ہے۔

اس حوالے سے اداکارہ سونم کپور اور ان کے شوہر نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سونم کپور

پڑھیں:

پاکستان کی تقدیر بدلنے کا عزم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251122-03-2
الحمدللہ! تاریخی بادشاہی مسجد میں علامہ یوسف القرضاوی مرحوم کے جانشین اور یونین آف اسلامی اسکالرز کے سربراہ شیخ ڈاکٹر علی محی الدین القرہ داغی کے خطبہ جمعہ سے مینار پاکستان کے سائے تلے وطن عزیز کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع شروع ہو چکا ہے۔ 329 ایکڑ پر پھیلے عظیم تر اقبال پارک میں جماعت اسلامی پاکستان کے تین روزہ اجتماع عام میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر رنگ ونسل، ہر فرقہ و مسلک، ہر علاقہ و زبان اور ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے انسانوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں، مردوں اور عفت مآب مائوں، بہنوں، بیٹیوں کے سر ہی سر ہر طرف دکھائی دے رہے ہیں۔ جو پاک وطن کی تقدیر بدلنے، یہاں کے فرسودہ اور سرطان زدہ نظام سے نجات دلا کر یہاں اسلام کے بتائے ہوئے قرآن و سنت پر مبنی فلاحی نظام کے نفاذ کا عظیم مقصد لے کر یہاں جمع ہوئے ہیں۔ وہ سب اس یقین سے سرشار ہیں کہ یہ اجتماع عام اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اس کے مقصد وجود سے ہم آہنگ کرنے، یہاں بسنے والے 25 کروڑ انسانوں کو مسائل و مصائب سے نجات دلانے اور ایک روشن صبح کے طلوع میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ ان شاء اللہ! بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے اپنے الفاظ میں ’’جماعت اسلامی کا نصب العین زندگی کے پورے نظام کو اسلامی نظریۂ حیات کے مطابق بدلنا ہے۔ اس غرض کے لیے وہ معاشرے کی فکری اور عملی اصلاح کے ساتھ ساتھ حکومت کے نظام میں بھی تبدیلی چاہتی ہے تاکہ مملکت کے ذرائع و وسائل پوری طرح اصلاح تعمیر کے لیے استعمال کیے جا سکیں اور ان اسباب کی روک تھام کی جا سکے جن کی وجہ سے زندگی کا نظام اسلام کے منشا کے خلاف چل رہا ہے۔ جماعت اسلامی ایک مدت سے تحریر اور تقریر کے ذریعے سے عوام میں اسلام پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اور تمام نئی اور پرانی جاہلیتوں کے خلاف بھی نبرد آزما ہے، جنہوں نے ہماری زندگی کے مختلف گوشوں میں ڈیرے جما رکھے ہیں۔ وہ انگریزی اقتدار کے ان تمام اثرات کو بھی کھرچنے کی کوشش کر رہی ہے جنہوں نے اخلاق اور نظریات سے لے کر معاشرت اور سیاست تک ہماری ہر چیز کو اسلامی نقطۂ نظر سے مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ علمی حیثیت سے بھی بتا رہی ہے کہ اسلامی اصولوں پر ہر شعبہ حیات کی تعمیر جدید کس طرح کی جا سکتی ہے اور اس وقت کے مسائل زندگی کا حل کیا ہے۔ وہ عملی حیثیت سے اس بات کی کوشش بھی کر رہی ہے کہ انفرادی و اجتماعی طور پر لوگوں میں خدا کی بندگی اور انبیائؑ کی پیروی کا جذبہ اور ایمانی اخلاق کا رنگ پیدا ہو، اور ایسی سیرتیں تیار ہوں جن میں آخرت کی جواب دہی کا احساس کار فرما ہو اور ان سب باتوں کے ساتھ وہ یہ بھی ضروری سمجھتی ہے کہ پاکستان کا نظامِ حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیا جائے جو اسلام کے مطابق کام کرنا جانتے بھی ہوں اور چاہتے بھی ہوں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ ایک بگڑی ہوئی حکومت اصلاح کے راستے میں سب سے بڑی مزاحم طاقت ہوتی ہے۔ اگر ایک طرف اصلاح کی خواہش رکھنے والے لوگ و عظ و تلقین اور تحریر و تقریر سے لوگوں کی زندگی درست کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف حکومت کی ساری طاقت اور اس کے سارے ذرائع لوگوں کے ذہن اور اخلاق اور معاملات کو بگاڑنے میں لگے رہیں تو ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ ایسے حالات میں کتنی کچھ اصلاح ہو سکے گی۔ اس کے علاوہ یہ چیز اس بنا پر بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ اگر ایک طرف یہاں اسلامی اصلاح و انقلاب کے خواہش مند لوگ غیر سیاسی تدبیروں سے اسلامی زندگی کی تعمیر کے لیے کوششیں کریں اور دوسری طرف ہماری قومی حکومت کا انتظام ان فرنگیت مآب لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو اپنی پوری سیاسی طاقت اس ملک کو انگلستان اور امریکا یا روس کی نقل بمطابق اصل بنانے کی کوشش میں صرف کر دیں تو اس سے یہاں ایک سخت کشمکش رونما ہو گی جو کسی حیثیت سے بھی اس ملک کے لیے مفید نہیں ہو سکتی۔ اس طرح ہر ایک جو کچھ بنانے کی کوشش کرے گا دوسرا اسے بگاڑنے میں اپنی طاقت صرف کرتا رہے گا اور فی الواقع یہاں کچھ بھی نہ بن سکے گا۔ یہی وہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر جماعت اسلامی اپنی دوسری کوششوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی قیادت کو ایک صالح (ایمان دار، باصلاحیت اور خدا ترس) قیادت سے بدلنے کی جدوجہد بھی کر رہی ہے۔ اس جدوجہد میں اس کے پیش نظر اپنا اقتدار نہیں بلکہ ان اصولوں کا اقتدار ہے جن پر اس کا اور ساری مسلم امت کا ایمان ہے۔ جماعت اسلامی آزمائے ہوئے غلط کار لوگوں کے مقابلے میں ان لوگوں کو انتخابات کے لیے قوم کے سامنے لانا چاہتی ہے جو دیندار بھی ہوں اور دیانت دار بھی اور اس کے ساتھ نظام حکومت چلانے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں۔ جماعت اسلامی انتخاب کے غلط طریقوں کی اصلاح کرنا چاہتی ہے جو اب تک ہمارے ملک میں دھن سے، دھونس سے اور دھاندلی سے جیتے جاتے رہے ہیں۔ جن میں جھوٹ، بہتان اور دشنام طرازی سے کام لیا جاتا رہا ہے جن میں نسل، برادری، صوبائیت اور فرقہ بندی کے تعصبات سے اپیل کی جاتی رہی ہے۔ جماعت اسلامی خود ایمانداری کے ساتھ اخلاق کے اصولوں کی پوری پابندی کرتے ہوئے یہ انتخابی جنگ لڑنا چاہتی ہے اور دوسروں کو بھی اس قابل نہیں رہنے دینا چاہتی کہ وہ انتخاب میں ناجائز ہتھکنڈے استعمال کر کے عوام کی آزاد مرضی کے خلاف ان کے سروں پر سوار ہو جائیں۔ جماعت اسلامی ایک حقیقی اور صحت مند جمہوریت کا قیام چاہتی ہے جس کے باشندے ذی شعور ہوں اور حکومت کا بدلنا اور بننا ان کی آزاد مرضی پر موقوف ہو‘‘۔ پاکستان کو وجود میں آئے 78 برس بیت چکے مگر آج بھی یہ ان مقاصد سے کوسوں دور ہے جن کی خاطر اسے وجود میں لایا گیا تھا یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہترین انسانی مادی اور معدنی وسائل کی دستیابی کے باوجود حالات ایسے پیدا کر دیے گئے ہیں کہ تمام وسائل ایک خاص طبقے نے اپنی وراثت تصور کر لیے ہیں یہ طبقہ اپنی نا اہلیوں سمیت ملک پر حکمرانی کر رہا ہے اور عام آدمی کو اس کے حقوق دستیاب نہیں اسے ہر طرف محرومیوں کا سامنا ہے، وہ تعلیم، صحت، خوراک و رہائش جیسی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے جب کہ بالا دست طبقہ ایک جانب تو خود ٹیکس دینے پر تیار نہیں اور عام آدمی پر ہر روز نت نئے اور بھاری ٹیکسوں کا بوجھ لادا جا رہا ہے اور پھر غریبوں سے جمع ہونے والے ٹیکسوں کی رقم بھی یہ بالادست طبقہ اور اشرافیہ اپنی عیش و عشرت پر بے دردی سے استعمال کرتا ہے۔ جماعت اسلامی عوام کو ان کا مناسب حالات اور بے یقینی کی فضا سے نجات دلانے کے لیے ایک بڑی تحریک شروع کرنا چاہتی ہے اور اکیس سے 23 نومبر تک مینار پاکستان پر منعقد کیے جانے والے عظیم الشان اجتماع عام کے ذریعے قوم کو روشنی اور امید کی کرن دکھانا مقصود ہے یہ تاریخی اجتماع عام پاکستان کی سیاسی، جمہوری اور عوامی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔ اجتماع سے عوام کو ایک نیا عزم و حوصلہ ملے گا۔ امیر جماعت کلیدی خطاب میں اپنے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ جماعت اجتماع کے ساتھ ہی ایک بڑی سیاسی تحریک عوام کے حقوق کے لیے برپا کرے گی۔ اس تحریک کے نتیجے میں جماعت اسلامی ایک بڑی حقیقت اور قوت کے طور پر عوام کی نگاہوں کا مرکز بنے گی اور موجود گلے سڑے ناکارہ نظام کو تبدیل کر کے اسلامی و فلاحی نظام کے قیام کی منزل تک پہنچ کر دم لے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!!!

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • شوہر کو مذاق میں دوسری شادی کا مشورہ دیا تو وہ پریشان ہوگئے، منزہ عارف
  • مسلمان نیویارک، لندن کا میئر بن سکتاہے لیکن بھارت میں وائس چانسلر بھی نہیں بن سکتا، مولانا ارشد مدنی
  • میں نے اپنے شوہر کو دوسری شادی کرنے کا مشورہ دیا تھا، منزہ عارف
  • چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کو مداحوں سے بچھڑے 42 برس گزر گئے
  • خالد خورشید قابل اور دلیر تھا لیکن خود کو نقصان پہنچایا، رحمت خالق
  • پاکستان کی تقدیر بدلنے کا عزم
  • اجتماع عام ’’بدل دو نظام ‘‘ کا شاندار آغاز‘لاکھوں مرد‘ خواتین کی شرکت‘جگہ کم پڑگئی
  • سنجے کپور کا جائیداد کا حقیقی وارث کون؟ خاندانی لڑائی نے نیا رُخ اختیار کر لیا
  •  لندن، نیویارک، شنگھائی ایک دن بھی مئیر کےبغیرنہیں چل سکتے، یہاں ایسا موثر نظام ہی نہیں، مصطفیٰ کمال
  • سونم کپور کے ہاں دوسرے بچے کی آمد کی خوشخبری، تصاویر وائرل