Express News:
2025-04-26@01:43:34 GMT

پاکستان اور بنگلہ دیش میں مٹتی دوریاں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

بنگلہ دیش کو پاکستان سے 25 ہزار ٹن چاول کی ترسیل جلد مل جائے گی ۔پاکستانی وزارت خوراک کے اس اعلان نے پانچ دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد دونوں حکومتوں کے درمیان براہ راست دوطرفہ تجارت کی بحالی کی تصدیق کر دی۔

کئی دہائیوں کے تلخ تعلقات کے بعد گزشتہ اگست سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی معزولی کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں کافی بہتری آ چکی۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر، نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے دو بار ملاقات کے بعد سے پاکستان کے ساتھ مزید دوطرفہ تبادلے ہوئے ہیں۔

وزارت خوراک نے کہا ہے کہ اس ماہ کے شروع میں ڈھاکہ نے پاکستان سے چاول درآمد کرنے کے معاہدے کو حتمی شکل دی۔وزارت کے ایڈیشنل سیکرٹری ضیا الدین احمد نے پریس کو بتایا،25 ہزار ٹن کی پہلی کھیپ 3 مارچ کو بنگلہ دیش پہنچے گی۔1971 ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب بنگلہ دیش نے پاکستان سے حکومتی سطح پر چاول کی درآمد شروع کی ہے۔

 حالیہ نومبر میں دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کے براہ راست سمندری رابطے کے بعد تجارتی تعلقات ہوئے جب ایک پاکستانی کارگو جہاز 1971 ء کے بعد پہلی بار بنگلہ دیش گیا۔بین الاقوامی تعلقات کی ماہر اور امریکی نارتھ ساؤتھ یونیورسٹی کی لیکچرار ،آمنہ محسن نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تجارت دوبارہ شروع کرنا بنگلہ دیش کے لیے اہم اقدام ہے۔’’ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات آگے بڑھیں۔

ہم ہمیشہ اپنے تعلقات کو متنوع بناتے ہیں (لیکن) سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت ہمارے بھارت کے ساتھ تعلقات خراب ہیں … اس تناظر میں، پاکستان سے چاول درآمد کرنے کا یہ تازہ ترین فیصلہ بہت اہم ہے،‘‘۔ انہوں نے بتایا۔ بیگم حسینہ کی حکومت نے اپنی پندرہ سالہ بلاتعطل حکمرانی میں پاکستان کے خلاف دشمنی رکھی لیکن بھارت کے ساتھ قریبی اتحاد برقرار رکھا ۔ وہ گزشتہ سال طلبہ کی زیر قیادت عوامی بغاوت کے بعد فرار ہو گئی تھیں اور بدستور جلاوطن ہیں۔ انہیں عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد ڈھاکہ اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات میں سرد مہری آ گئی۔

ڈھاکہ کا پاکستان سے چاول درآمد کرنے کا فیصلہ سیلاب اور معاشی عدم استحکام کے باعث جاری معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے حکومت نے قلت سے بچنے کے لیے بھارت سے بڑی مقدار میں چاول درآمد کرنا بھی شروع کر دیا ۔’’اس وقت، بنگلہ دیش کی مارکیٹ میں چاول کا بحران ہے، اور ہمیں مسابقتی قیمت پر مختلف ذرائع سے چاول حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔" ڈھاکہ میں سینٹر فار پالیسی ڈائیلاگ کے ریسرچ ڈائریکٹر ڈاکٹر خندکر غلام معظم کہتے ہیں۔’’اس نقطہ نظر سے ایک نیا ذریعہ تلاش کرنا (چاول کی درآمد کے لیے) ہمارے لیے مثبت چیز ہے۔"انہوں نے مزید کہا کہ اب تجارت دوبارہ شروع ہو گئی ہے،تو بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان مختلف شعبوں میں تجارتی تعلقات بڑھانے کی صلاحیت ہے۔’’ہمارے تاجر پاکستان کی مارکیٹوں کو تلاش اور لاگت کے لحاظ سے فزیبلٹی پر غور کر سکتے ہیں۔ چاول کی درآمد کے ساتھ ساتھ دیگر اشیا کی درآمد کے مواقع بھی بڑھ گئے ہیں۔" معظم نے کہا۔’’پاکستان ہماری مارکیٹ میں ایک نیا اضافہ ہے، خاص طور پر بنگلہ دیش کی جاری تجارتی تنوع کی کوششوں پر غور کرتے ہوئے"۔

پاکستان اور بنگلہ دیش، جنوبی ایشیائی ممالک کے طور پر ثقافتی وابستگی، مذہبی تعلقات، اقتصادی ترقی اور ترقی کی باہمی خواہش سمیت متعدد مشترک نکات رکھتے ہیں۔ ایک امید افزا موڑ میں انھوں نے باہمی تعاون اور علاقائی ہم آہنگی کی ایک مثال قائم کرتے ہوئے اپنے دوطرفہ تعلقات کو نئے سرے سے بحال کرنے اور مضبوط کرنے کے سفر کا آغاز کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ابھرتی ہوئی شراکت داری مشترکہ مفادات، تاریخی روابط اور خوشحال مستقبل کے وژن کی بنیاد پر استوار ہے۔

مفادات کی ہم آہنگی:  دونوں ممالک غربت کے خاتمے، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور تکنیکی ترقی جیسے مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے میں قریبی تعاون کی صلاحیت تسلیم کرتے ہیں۔عالمی ملبوسات کی صنعت میں بنگلہ دیش کی بڑھتی اہمیت اور ٹیکسٹائل، زراعت اور ٹیکنالوجی میں پاکستان کی مہارت بہتر تجارتی اور سرمایہ کاری کی شراکت کو موزوں بناتی ہے۔ صنعتی ترقی اور علاقائی تجارت جیسے شعبوں میں اپنے اہداف کو ہم آہنگ کرتے ہوئے پاکستان اور بنگلہ دیش ہم آہنگ اقتصادی تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی: بنگلہ دیش میں نئی نگران حکومت کی قیادت میں ایک آزاد خارجہ پالیسی بحال ہوئی ہے جس سے پاکستان سمیت تمام ممالک کے ساتھ متوازن اور نتیجہ خیز تعلقات کی راہ ہموار ہوگئی ۔ دونوں حکومتوں کے درمیان اعلیٰ سطح کی مصروفیات، باہمی دوروں اور مشاورت نے سفارتی تعلقات کو زندہ کیا ہے اور مختلف شعبوں میں تعاون کے دروازے کھولے ہیں۔

٭ تجارت اور سرمایہ کاری: دونوں ممالک تجارتی حجم بڑھانے، برآمدی شعبوں کو متنوع بنانے اور ٹیکسٹائل، زراعت اور ٹیکنالوجی جیسے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ یہ تعاون ملازمتیں پیدا کرنے اور اقتصادی ترقی کو بڑھانے کا امکان رکھتا ہے۔

٭ تعلیم اور ثقافت: پاکستانی اور بنگلہ دیشی یونیورسٹیوں کے درمیان تبادلے کے پروگرام اور تعلیمی تعاون کا آغاز علم کے تبادلے اور ثقافتی تفہیم کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ مشترکہ ثقافتی ورثے کو منانے کی کوششوں نے عوام سے عوام کے روابط کو مزید مضبوط کیا ہے۔

٭ دفاع اور سلامتی: دونوں ممالک نے تربیتی پروگراموں، مشترکہ مشقوں اور انٹیلی جنس شیئرنگ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے دفاعی تعاون دوبارہ شروع کیا ہے۔ ان کوششوں کا مقصد علاقائی سلامتی اور استحکام کو بڑھانا ہے۔

٭ سائنس اور ٹیکنالوجی: پاکستان اور بنگلہ دیش قابل تجدید توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بائیو ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں جدت اور تحقیق کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ توقع ہے کہ ان شعبوں میں مشترکہ منصوبے پائیدار ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔

ویزے میں نرمی اور بہتر رابطہ: خیر سگالی کو فروغ دینے کی طرف ایک بڑا قدم ویزے کے نظام میں نرمی ہے، جس سے دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے آسان سفر ممکن ہو گیا ۔ یہ اقدام نہ صرف کاروبار اور سیاحت کو آسان بناتا بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے لوگوں کو قریب لاتے ہوئے خاندانی اور ثقافتی روابط کو بھی مضبوط کرتا ہے۔

٭مستقبل کے لیے وژن:پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجدید شدہ شراکت داری دونوں ممالک اور جنوبی ایشیائی خطّے کے لیے خوش آئند امر ہے۔ مشترکہ اہداف پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے دونوں ممالک پائیدار ترقی اور علاقائی خوشحالی کے حصول کے لیے اپنی منفرد طاقتوں کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

٭ علاقائی تعاون: پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان قریبی شراکت داری دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے ایک ماڈل کے طور پر کام کر سکتی ہے، جس سے زیادہ علاقائی انضمام اور اقتصادی تعاون کو فروغ ملے گا۔

٭ اقتصادی ترقی: وسائل اور مہارت جمع کر کے دونوں ممالک صنعتی ترقی کو تیز کر ، نئی منڈیاں بنا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر سکتے ہیں۔

٭ عالمی موقف: مضبوط تعلقات پاکستان اور بنگلہ دیش کو عالمی پلیٹ فارمز پر مشترکہ مفادات کی وکالت کرنے کے قابل بنائیں گے اور بین الاقوامی فورمز پر اپنے اجتماعی اثر و رسوخ کو بڑھا سکیں گے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں مثبت تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 1971 ء کے واقعات کی وجہ سے ماضی میں دونوں فریقوں کی طرف سے خندق پاٹنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں، جیسا کہ بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس نے گزشتہ دسمبر میں قاہرہ میں وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران بھی ذکر کیا۔ اگست 2024ء میں بنگلہ دیشی حکومت کی تبدیلی کے بعد سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں یکے بعد دیگرے ہونے والی پیش رفت اس بات کی عکاس ہے کہ دونوں فریق دو طرفہ تعلقات کو مستقل بنیادوں پر مثبت انداز میں تبدیل کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

جوائنٹ بزنس کونسل (JBC) کی تشکیل، ایف پی سی سی آئی اور ایف بی سی سی آئی کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط، کراچی اور چٹاگانگ کی بندرگاہوں کو ملانے والے میری ٹائم شپنگ روابط کی بحالی اور اعلیٰ سطح کے فوجی حکام کے دوروں کو عام اقدامات کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ اس میں ویزے کی پابندیوں میں نرمی اور دس سال کے وقفے کے بعد کراچی اور ڈھاکہ کے درمیان براہ راست پروازیں بحال کرنا شامل ہیں۔

پندرہ سال سے زائد عرصے تک جب بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت تھی، پاکستان کو ایک دشمن ریاست کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اور دونوں فریقوں کے درمیان تجارت، تعلیم، سفر، سیاحت اور دیگر شعبوں میں صرف رسمی تعلقات تھے۔پاکستانی ویزا درخواست گزاروں کے ساتھ بنگلہ دیشی قونصلر سٹاف کا معاندانہ رویہ اس نفرت کی گہرائی ظاہر کرتا جو نئی دہلی کے کہنے پر حسینہ واجد کے دور میں بوئی گئی تھی۔ بنگلہ دیشی آبادی کی بڑی اکثریت پاکستان کے لیے خوشگوار جذبات رکھتی ہے لیکن حسینہ واجد حکومت نے مختلف انداز میں کام کیا۔اپنے بیس سالہ اقتدار کے دوران( 1996 ء سے 2001 ء اور 2009 ء سے 2024 ء تک) حسینہ نے 1971 ء کے بدقسمت واقعات اور مغربی پاکستان کے ذریعے مشرقی پاکستان کے مبینہ استحصال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو بدنام کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔

بنگلہ دیش میں نصابی کتب پاکستان مخالف مواد سے بھری پڑی ہیں چاہے وہ زبان کی تحریک ہے جس کی وجہ سے 22 فروری 1952 ء کو بنگلہ کو مساوی حیثیت دینے کا مطالبہ کرنے والے تین احتجاجی طلبہ کو قتل کر دیا گیا تھا یا عوامی لیگ کو اقتدار سے انکار۔ 25 مارچ سے 16 دسمبر 1971 ء کو ڈھاکہ میں پاکستانی مسلح افواج کے ہتھیار ڈالنے تک فوجی آپریشن بھی نصابی کتب میں نمایاں طور پر موجود ہے۔پاکستان کی نصابی کتب میں صرف 1971 ء میں ہندوستانی مداخلت کے حوالے سے بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کی بات کی گئی ہے۔ لیکن بنگلہ دیشی نصابی کتب کے مواد کے ساتھ ایسا نہیں جس میں واضح طور پر تین قومی دنوں کا ذکر کیا گیا ہے یعنی 22 فروری کو یوم زبان کے طور پر، 26 مارچ یوم آزادی کے طور پر اور 16 دسمبر کو یوم فتح کے طور پر جو پاکستان مخالف ہیں۔

عوامی لیگ دور حکومت میں پاکستان مخالف جذبات کو فروغ دینے کے باوجود بنگلہ دیش کی نئی نسل پاکستان سے دشمنی نہیں رکھتی۔ بنگلہ دیش کی طلبہ برادری جس نے حسینہ کو گرانے میں اہم کردار ادا کیا، پاکستان کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کی کوششوں کی قیادت کر رہی ہے۔ نیز پاکستان کے مختلف حصوں بالخصوص پنجاب میں بنگلہ دیش کے حامی اجلاسوں کا انعقاد اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستانی نئی نسل بنگلہ دیش کے ساتھ دوبارہ دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے۔پاکستان کے خلاف دشمنی ختم ہونے کے بعد ہی دوطرفہ تعلقات کے تناظر میں حالات میں تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ بنگلہ دیش میں کچھ قوتیں پاکستان کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کے حق میں نہیں ، دونوں ممالک محتاط انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ طاقتیں نئی دہلی کی پشت پناہی سے اس سارے عمل کو پٹڑی سے اتارنے کا موقع ڈھونڈ رہی ہیں۔

عوامی لیگ کے 15 سالہ دور حکومت میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را بنگلہ دیشی ریاست اور معاشرے کے اندر گہرائی تک گھس چکی۔ جب تک بنگلہ دیش میں سول سوسائٹی، میڈیا، اکیڈمی اور طلبہ برادری بھارت کو مداخلت سے نہیں روکتی، یونس کی حکومت نئی دہلی پر کرپشن اور مجرمانہ سرگرمیوں میں مطلوب حسینہ کی حوالگی کے لیے دباؤ نہیں ڈال سکے گی۔ اور معزول بنگلہ دیشی رہنما بھارتی سرپرستی سے عبوری حکومت کو غیر مستحکم کرتے رہیں گے۔

آخری نکتہ: پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ابھرتے ہوئے تعلقات مذاکرات کی طاقت، باہمی احترام اور مشترکہ خواہشات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مسابقت پر تعاون کو ترجیح دے کر دونوں قومیں نہ صرف اپنے شہریوں بلکہ پورے جنوبی ایشیائی خطے کے لیے ایک روشن مستقبل کی طرف امید افزا راستہ بنا رہی ہیں۔یہ تجدید ی شراکت داری امن، استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینے کے لیے ہم آہنگ تعلقات کی صلاحیت کی مثال ہے۔یہ ایک زیادہ مربوط اور تعاون پر مبنی جنوبی ایشیا کے لیے اُمید کی کرن کے طور پر ابھر رہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور بنگلہ دیش کے پاکستان کے ساتھ کو فروغ دینے کے جنوبی ایشیائی دوطرفہ تعلقات بنگلہ دیش میں بنگلہ دیش کی میں پاکستان سرمایہ کاری دونوں ممالک چاول درا مد بنگلہ دیشی پاکستان سے کہ پاکستان شراکت داری تعلقات میں کے درمیان تعلقات کو کرتے ہوئے تعلقات کی نصابی کتب کی درا مد کے طور پر حسینہ کی ممالک کے نئی دہلی کے لیے ا چاول کی سے چاول کرنے کے کے بعد کیا ہے

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات

پاک افغان تعلقات میں بہتری کی بنیادی کنجی باہمی اعتماد کا ماحول،دو طرفہ بات چیت،باہمی ہم آہنگی،ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی موثرحکمت عملی سے جڑی ہوئی ہے۔ پاک افغان تعلقات میں موجود بداعتمادی کا ماحول، جنگ و جدل اور تنازعات کو آگے بڑھا کر پورے خطے کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ کچھ عرصے قبل تک ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مکمل طور پر ڈیڈلاک پیدا ہو چکا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں ہیں۔لیکن اب حالات بدلتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور دونوں طرف سے سیاسی جمود ٹوٹا ہے۔

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل اور افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند سمیت افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے باہمی امور پر تفصیلی ملاقاتیں اور بات چیت کا عمل برف پگھلنے کا واضح اشارے دے رہا ہے۔اگرچہ فوری طور پر پاک افغان تعلقات میں بہت بڑے بریک تھرو ہونے کے امکانات محدود ہیں۔لیکن اب اگردو طرفہ بات چیت کا عمل آگے بڑھتا ہے اور دونوں ممالک باہمی اعتماد کے ساتھ دو طرفہ معاملات پر زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پھر خطے میں بہتری کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔لیکن اس بات کا انحصار دونوں ملکوں کی باہمی سفارت کاری اور ڈپلومیسی پر ہے کہ وہ کس طریقے سے دو طرفہ معاملات میں موجود مسائل پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کے بعد آگے لے کر چلتے ہیں۔

اس وقت پاک افغان تعلقات میں خسارے یا بداعتمادی کا بنیادی نقطہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی ہے۔پاکستان طالبان حکومت کو ثبوت بھی پیش کر چکا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور ٹی ٹی پی کو افغان افغان حکومت کی جانب سے بھی مختلف نوعیت کی سہولت کاری حاصل ہے۔ یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ ٹی ٹی پی کو اس امریکی اسلحہ تک بھی رسائی حاصل ہے جو 2021 میں امریکا افغانستان میں چھوڑ گیا تھا۔

پاکستان کا یہ موقف ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ اس امریکی اسلحے تک ٹی ٹی پی کی رسائی کو ناممکن بنایا جائے جب کہ امریکا افغان طالبان سے افغانستان میں اپنا چھوڑا ہوا اسلحہ واپس لے۔ پاکستان بار بار اس موقف کا اعادہ افغانستان سمیت عالمی دنیا میں کر رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن گئی ہے ۔ اسحاق ڈار کے دورہ کابل میں بھی سرحد پار دہشت گردی گفتگو کا سرفہرست نقطہ تھا۔ اسحاق ڈار نے افغانستان میں موجود علیحدگی پسند تنظیموں کی مختلف سرگرمیوں اور مطلوب افراد کی حوالگی کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔

 پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی جو لہر ہے یا بلوچستان اور خیبر پختون کے سیکیورٹی سے جڑے حالات ہیں ان کا تعلق عملی طورپرافغانستان سے جڑا ہوا ہے۔کیونکہ جب تک افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرکے انھیں ختم نہیں کرتی اور مطلوبہ دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے نہیں کرتی، اس وقت تک پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا اور یہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی ۔

دیکھنا یہ ہوگا کہ اس دورے کے بعد طالبان حکومت، پاکستان کے جو بھی تحفظات ہیںاس پر کس طرز کے سنجیدہ اقدامات اٹھاتی ہے اور کیسے باہمی معاملات کو بہتر بنانے میں اپنی کوششیں دکھاتی ہے۔کیونکہ پاک افغان تعلقات کا حل محض باتوں سے ممکن نہیں ہے جب تک افغانستان کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف موثر اقدامات نہیں اٹھائے جائیں گے بہتری کا حل آسانی سے سامنے نہیں آئے گا۔

پاکستان کی یہ سوچ تھی کہ جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئے گی تو وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی اور خطے میں پاکستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش بھی اس کی اہم ترجیحات کا حصہ ہو گی۔لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہو سکا اور ہم کو پاکستان افغانستان تعلقات میں مختلف نوعیت کے بگاڑ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بہتری میں ایک بڑا چیلنج دہشت گردی ہی ہے۔ افغانستان کے داخلی مسائل کا جائزہ لیں تو وہاں جمہوریت نہیں ہے، جب کہ دہشت گرد گروہوں کی موجودگی جیسے سنگین مسائل موجود ہیں۔

افغان حکومت ب مختلف گروپ بندیوں کا شکار ہے، اور پاکستان کے بارے میں ان کی پالیسی واضح نہیں ہے اور اسی وجہ سے ہمیں افغانستان کی اپنی پالیسی میں تضادات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ افغان میڈیا نے یہ بیانیہ بنایا ہوا ہے کہ افغان حالات کی خرابی کا ذمے دار پاکستان ہے۔افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے کو بھی افغان میڈیا منفی انداز میں پیش کررہا ہے۔خود بھارت بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور افغانستان تعلقات میں بہتری کے پہلو سامنے آئیں۔ بھارت کی کوشش ہوگی کہ پاک افغان تعلقات میں بداعتمادی موجود رہے تاکہ پاکستان افغانستان کے دباؤ میں رہے اور اس کا فائدہ بھارت کو ہو۔

پاکستان کو یہ بھی سمجھناہوگا کہ امریکا بھی افغان پالیسی میں تبدیلی لارہا ہے اور پاکستان پر حد سے زیادہ انحصار کرنے کی بجائے وہ عملا متبادل آپشن دیکھ رہا ہے۔اس لیے پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے وقت کے تقاضے اور پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائے ۔پاکستان کو افغان قیادت یا حکومت میں اس تاثر کو مضبوط بنانا ہوگا کہ ہم بطور ریاست افغانستان کو مضبوط بنیادوں پر دیکھنا چاہتے ہیں۔اسی طرح افغان حکومت ضرور بھارت سے تعلقات کو بہتر بنائے مگر یہ پاکستان کی قیمت یا پاکستان کو کمزور کرنے کے ایجنڈے سے نہیں جڑا ہونا چاہیے۔

جہاں ہمیں علاقائی ممالک کا تعاون درکار ہے وہیں عالمی قوتوں کے بغیر بھی یہ جنگ نہیں جیتی جا سکے گی۔اب اگر دونوں ممالک نے بات چیت کا دروازہ کھولا ہے تواسی راستے کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا دونوں ہی ممالک کے مفاد میں ہوگا۔اس لیے مذاکرات کے دروازے کو دونوں اطراف سے بند نہیں ہونا چاہیے اور جو بھی قوتیں پاکستان افغانستان تعلقات میں خرابی یا رکاوٹیں پیدا کرنا چاہتی ہیں ان کا مقابلہ دونوں ممالک کی مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔اچھی بات یہ ہے حالیہ دو طرفہ گفتگومیں افغانستان نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی جو یقینی طورپر امید کا پہلو ہے کہ افغانستان حکومت بھی سمجھتی ہے کہ ٹی ٹی پی کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات میںبگاڑ بڑھ رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بندونگ کانفرنس اعلامیہ کا جذبہ
  • پاک بھارت تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے، دونوں مسئلہ خود حل کریں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • شامی صدراحمد الشرع سے رکن کانگریس کوری ملز کی ملاقات، اسرائیل کیساتھ تعلقات معمول پر لانے پر اتفاق
  • یمن، بنگلہ دیش، کینیڈا، پاکستان سمیت ساری دنیا بھارتی دہشتگردی سے واقف ہے، میجر جنرل (ر) زاہد محمود
  • پاک افغان تعلقات کا نیا دور
  • پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
  • پہلگام واقعہ: واگہ بارڈر پر روایتی پریڈ محدود کرنے کا فیصلہ
  • بنگلہ دیش میں پہلی بار پاکستان لائیو اسٹائل ایگزیبیشن
  • ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ چین کا پیغام
  • کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟