اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06 مارچ ۔2025 ) موسمیاتی اثرات سے نمٹنے اور پائیدار سبز مستقبل کے لیے ماحولیاتی تحفظ کو فروغ دینے کے لیے جنگلات کے رقبے کو بڑھانا بہت ضروری ہے وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کے ترجمان محمد سلیم نے کہاکہ جنگلات کی بحالی اور توسیع سے ملک میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کو کم کرنے اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی ویلتھ پاک سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان کے جنگلات کا رقبہ مسلسل سکڑتا جا رہا ہے جس سے ماحولیات اور حیاتیاتی تنوع کو اہم خطرات لاحق ہیں ماحولیاتی تحفظ کی وسیع تر کوششیں جن میں بنیادی طور پر جنگلات کے رقبے کو بڑھانا ہے موسمی اثرات کو کم کرنے کی ضرورت ہے.

انہوں نے کہا کہ جنگلات کے احاطہ کو بڑھانا دو بنیادی حکمت عملیوں کے ذریعے مکمل کیا جا سکتا ہے جنگلات کی بحالی، جس سے مراد ان علاقوں میں درخت لگانا ہے جہاں جنگلات تباہ ہو چکے ہیں اور شجرکاری، جس میں نئے علاقوں میں جنگلات لگانا شامل ہے انہوںنے کہاکہ حکومت موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے میں مدد کے لیے خاص طور پر شہری علاقوں میں جنگلات کا احاطہ بڑھانے کی کوششیں کر رہی ہے جنگلات کا پھیلا ہوا احاطہ اہم ماحولیاتی خدمات فراہم کرتا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے خشک سالی اور سیلاب کے نقصان دہ اثرات کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے.

انہوں نے کہا کہ 2017 میں ملک بھر میں اربوں درخت لگا کر جنگلات کی بحالی کے لیے گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا گیا اس اقدام نے جنگل کے پائیدار انتظام کے طریقوں کو بھی فروغ دیا مزید برآں خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے بلین ٹری سونامی پروگرام کی سربراہی بھی کی جسے بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی ان اقدامات کی کامیابی کا انحصار تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک مربوط نقطہ نظر پر ہے.

گلگت بلتستان کے ماحولیاتی سائنس دان ڈاکٹر محمد اکبر نے کہاکہ درخت بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا مقابلہ کرنے، مٹی کے کٹا وکو روکنے اور ہوا کے بہتر معیار کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ماحول سے کاربن کے اخراج کو دور کرنے کے لیے درخت ایک ضروری ہتھیار ہیں ماحولیاتی تحفظ اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کمیونٹیز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت بہت ضروری ہے آب و ہوا کی کارروائی کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے اکبر نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات سے کمیونٹیز کو بچانے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی اشد ضرورت ہے پاکستان ایک بھرپور حیاتیاتی تنوع رکھتا ہے اس کا تحفظ نہ صرف پائیدار مستقبل کو یقینی بنائے گا بلکہ مقامی کمیونٹیز کی لچک میں بھی اضافہ کرے گا موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے میں جنگلات کے اہم کردار کے بارے میں عوام میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے.

ڈپٹی ڈائریکٹر ٹیکنیکل پاکستان فاریسٹ انسٹی ٹیوٹ پشاور محمد عاطف مجیدنے کہاکہ جنگل پانی کے چکر کو منظم کرنے، مٹی کے کٹا کو روکنے، کاربن کے ڈوبنے کے طور پر کام کرنے، اور متعدد انواع کو رہائش فراہم کرنے کا مرکز ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ خطرہ رکھتے ہیں کیونکہ اس نے شدید موسمی واقعات کا سامنا کیا جن میں گرمی کی لہریں، برفانی طوفان، خشک سالی اور سیلاب شامل ہیں یہ واقعات کم جنگلات کی وجہ سے تیز ہوتے ہیں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے، بارش کے نمونوں کو منظم کرنے، اور درجہ حرارت کو مستحکم کرنے کی زمین کی صلاحیت کو کم کرتے ہیں.

انہوں نے کہاکہ پاکستان میں جنگلات مختلف نباتات اور حیوانات کا گھر ہیںجن میں سے کچھ معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں جنگل کا نقصان جنگلی جانوروں کے قدرتی رہائش گاہ کی تباہی اور ماحولیاتی نظام کے دیگر پہلوں کا باعث بنتا ہے جو انسانی بقا کے لیے ضروری خدمات فراہم کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ پچھلی چند دہائیوں سے پاکستان مختلف وجوہات کی بنا پر جنگلات کی کٹائی کی خطرناک شرح کا سامنا کر رہا ہے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو الگ کرکے اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے نمٹنے کے لیے سایہ فراہم کرنے سے جنگلات موسمیاتی تبدیلی کے خلاف ضروری بفرز کے طور پر کام کرتے ہیں.

انہوں نے کہا کہ کمیونٹیز جنگلات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں کمیونٹی پر مبنی جنگلات کے منصوبے ماحولیاتی سیاحت، لکڑی کی کٹائی پر قابو پانے اور غیر لکڑی والی جنگلاتی مصنوعات، بشمول شہد، ریشم، گری دار میوے، پھل اور دواں کی جڑی بوٹیوں اور پودوں کے ذریعے ایک پائیدار ذریعہ معاش فراہم کرتے ہیں انہوں نے زور دیا کہ موجودہ جنگلات کے تحفظ اور جنگلات کو فروغ دینے کی اہمیت سے لوگوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے موسمیاتی تبدیلی کے ماحولیاتی تحفظ انہوں نے کہا کہ میں جنگلات جنگلات کے کو بڑھانا جنگلات کی کرتے ہیں کو یقینی ضروری ہے اثرات سے نے کہاکہ کے لیے

پڑھیں:

پہلگام حملہ : چند پہلو جنہیں سمجھنا ضروری ہے

  مقبوضہ کشمیر کے  تفریحی مقام پہلگام میں منگل کے روز ہونے والا دہشتگردی کا حملہ نہ صرف خوفناک ہے بلکہ اس نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

   اطلاعات کے مطابق ضلع آننت ناگ کے حسین مقام پہلگام سے چند کلومیٹر دور وادی میں جہاں سینکڑوں سیاح جمع تھے، اچانک جنگل سےچار پانچ حملہ آور آئے اور انہوں نے اندھادھند فائرنگ کر کے 26 کے لگ بھگ سیاح ہلاک کر دیے، کئی زخمی بھی ہوئے۔ اپنی نوعیت کا یہ شدید ترین واقعہ ہے، جس کی کوئی مثال پچھلے چند برسوں میں نہیں ملتی۔

  حملے کا پیٹرن کیا تھا؟

 قابل ذکر بات یہ تھی کہ حملہ آوروں نے خواتین کو نشانہ نہیں بنایا اور صرف مردوں پر فائرنگ کی۔ ایک بھارتی اخبار کے مطابق حملہ آوروں نے بعض خواتین کو چلا کر کہا کہ تمہیں گولی نہیں مار رہے، جا کر اپنے وزیراعظم مودی کو بتا دو کہ ہم یہاں پر غیر لوگوں کو آباد نہیں ہونے دیں گے۔ اس بات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی، البتہ یہ حقیقت ہے کہ خواتین نشانہ نہیں بنائی گئیں، مرنے والے 26 کے 26 مرد ہی ہیں۔

   بعض بھارتی میڈیا چینلز نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ حملہ آوروں نے مذہب پوچھ کر صرف غیر مسلموں کو نشانہ بنایا۔ یہ بات درست نہیں۔ عینی شاہدین نے اس بات کو کنفرم نہیں کیا۔ یہی بتایا کہ حملہ آوروں نے اندھادھند فائرنگ کی، مرنے والوں میں کم از کم ایک مقامی کشمیری مسلمان بھی شامل ہے جبکہ زخمی ہونے والوں میں بھی مسلمان شامل ہیں۔

 حملہ آور کون ہیں؟

  ابھی تک حملہ آوروں کے بارے میں ٹھوس شواہد سامنے نہیں آئے۔ حملے کے پیٹرن سے یہ لگتا ہے کہ حملہ آوروں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ کشمیری جہادی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے ’اخلاقیات‘ دکھاتے ہوئے دانستہ خواتین کو نشانہ نہیں بنایا۔

  البتہ یہ بات عجیب اور مضحکہ خیز تھی کہ سیاحوں پر گولیاں چلاتے ہوئے کہنا کہ ہم یہاں غیر کشمیریوں کو آباد نہیں ہونے دیں گے۔ یہ لوگ سیاح تھے جو صرف چند گھنٹوں کے لئے یہاں آئے، ان کا کون سا کشمیر میں گھر لینے کا ارادہ تھا۔ یہ بات صرف ایک ڈھکوسلہ ہی لگی ہے اور شاید اس کا مقصد کشمیر میں مزاحمت کرنے والی تنظیموں کو بدنام کرنا ہو۔

  بظاہر حملے کے لیے اس وادی کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ وہاں سڑک کا راستہ نہیں اور صرف پیدل یا خچر پر سواری کر کے ہی پہنچا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض زخمیوں کو خچروں پر ہی طبی امداد کے لیے پہلگام پہنچایا گیا۔

  یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جہاں حملہ ہوا، وہ جگہ کنٹرول لائن سے 400 کلومیٹر دور ہے، یعنی یہ ممکن نہیں تھا کہ حملہ آور پاکستان سے داخل ہو کر وہاں پہنچے ہوں، راستے میں بے شمار چیک پوسٹیں اور فوجی چھاؤنیاں موجود ہیں۔

  ذمہ داری قبول کرنے والا گمنام گروپ

  اس واقعے کی ذمہ داری ایک غیر معروف گروپ دی رزیسٹینس فرنٹ (ٹی آر ایف) نے قبول کی۔ بی بی سی کے مطابق  یہ گروپ سنہ 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سامنے آیا اور مبینہ طور پر ایک سرگرم عسکریت پسند نیٹ ورک میں تبدیل ہونے سے پہلے انڈیا کے خلاف آن لائن پروپیگنڈا کرنے میں مصروف رہا۔

انڈین حکومت نے سنہ 2023 میں اسے ایک دہشتگرد گروپ قرار دیا تھا اور اس پر نوجوانوں کو بھرتی کرنے، دہشتگردی کے مواد کو آن لائن پھیلانے اور جموں و کشمیر میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ کا الزام عائد کیا تھا۔بیان میں کہا گیا تھا کہ ٹی آر ایف کی سرگرمیاں انڈیا کی قومی سلامتی اور خودمختاری کے لیے نقصان دہ ہیں۔

  بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے حملہ آوروں کے سکیچز جاری کیے ہیں، یہاں تک تو بات ٹھیک ہے کہ عینی شاہدین سے حلیہ پوچھ کر سکیچ بنوا لیے۔ بھارتی خفیہ اداروں نے باقاعدہ 3 نام بھی بتائے کہ ان لوگوں نے کوڈ نیم استعمال کیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان عام سے سکیچز سے ان حملہ آوروں کے نام کیسے معلوم ہوگئے؟

بھارتی اخبار ہندو نے رپورٹ دی ہے کہ ان میں سے 2 مقامی کشمیری تھی جو پاکستان ٹریننگ کے لیے گئے۔ حد ہوتی ہے الزام تراشی کی۔ ابھی حملہ آور پکڑے نہیں گئے، ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم، کوئی سہولت کار بھی نہیں پکڑا گیا اور یوں ہی تکے سے 3 نام بھی بتا دیے اور یہ بھی کہ ان میں سے 2 فلاں تھے جو ٹریننگ کے لیے گئے۔ اسے ہی بے پر کی کہانی بنانا کہتے ہیں۔ بھارتی اداروں کو چاہیے کہ اپنے تفتیش کاروں کو کسی ڈھنگ کے یورپی ملک سے ٹریننگ دلوائیں۔

 انڈین میڈیا کا خوفناک ردعمل

  اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا، کسی بھی سیاحتی مقام پر اگر شہریوں کو فائرنگ کا نشانہ بنایا جائے تو ظاہر ہے اس کی حمایت کون کر سکتا ہے؟ ہم پاکستانیوں سے زیادہ کون یہ جانتا ہے جو ایسے بہت سے تکلیف دہ، افسوسناک واقعات بھگت چکے ہیں، ابھی حال ہی میں جعفر آباد ایکسپریس پر حملہ بھی ایسا ہی تھا جس میں نہتے  مسافروں کو بے دردی سے نشانہ بنایا۔

  یہ واقعہ افسوسناک اور ڈسٹربنگ ہونے کے ساتھ شاکنگ تھا، مگر جس انداز میں انڈین میڈیا اور وہاں کی سیلیبریٹیز نے شدید ردعمل ظاہر کیا، وہ بھی مریضانہ تھا۔ بڑے بھارتی اخبارات اور چینلز نے معمولی سا بھی انتظار کیے بغیر اس کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے دیا اور پھر اینکرز، نام نہاد تجزیہ کاروں نے طوفان اٹھادیا اور جواب میں پاکستان پر شدید ترین حملہ کرنےکا مطالبہ کر ڈالا۔

  یہ نہایت غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا۔ اس طرح کے حملے کی ذمہ داری پاکستان پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے؟بیان بازی کے طور پر ایک آدھ بیان دینا الگ بات ہے، مگر یوں میڈیا اور سوشل میڈیا پر منظم مہم چلانا تو حیران کن تھا۔ اطلاعات کے مطابق  بی جے پی کے سینکڑوں سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے یوں منظم انداز میں پاکستان مخالف مہم شروع کر دی جس سے یہ تاثر ملا جیسے یہ لوگ پلاننگ کر کے بیٹھے تھے اور انہیں علم تھا کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے اور اگلے دو تین گھنٹوں میں ٹوئٹر ایکس، فیس بک اور تمام فورمز پر قیامت برپا کر دو۔ اس سے کئی شکوک نے جنم لیا۔

   ستم ظریفی یہ ہے کہ خود بی بی سی اور بھارتی میڈیا کو اس حادثے کی جگہ تک رسائی نہیں دی گئی۔ بی بی سی نے اپنی نامہ نگار کے حوالے سے بتایا کہ ہمیں پہلگام سے 60 کلومیٹر پہلے روک دیا گیا ہے اور کسی کو ہسپتال جا کر زخمیوں سے بات کرنے یا جائے وقوعہ پر عینی شاہدین وغیرہ سے بات کرنے کی اجازت نہیں۔

  اس پر بھی شکوک پیدا ہوئے ہیں کیونکہ جب واقعہ ختم ہوگیا، لاشیں بھی ہٹا لی گئیں، 24 گھنٹوں بعد بھی میڈیا کو وہاں کیوں جانے نہیں دیا جا رہا؟ حالانکہ عام طور سے میڈیا ایسے واقعات کی جذباتی رپورٹنگ کرتا ہے جس سے حکومت کو اپنے سخت ردعمل میں آسانی ہوتی ہے۔ پہلگام واقعے میں میڈیا پر پابندی سے تو یہ لگ رہا ہے کہ شاید یہ خدشہ لاحق ہے کہ کہیں کوئی دلیر صحافی وہاں وزٹ کر کے کچھ ایسا معلوم نہ کر لے جو بھارتی سرکاری موقف سے مختلف ہو اور جو پاکستان مخالف تصویر پیش نہ کرے۔

  پاکستان پر ہی ملبہ کیوں؟

  ایک اہم سوال یہ ہے کہ آخر بھارت میں جو بھی دہشتگردی کا بڑا واقعہ ہو،  اپنی انٹیلی جنس ناکامی اور انتظامی نااہلی پر تنقید کرنے کے بجائے اس کا ملبہ ہمیشہ پاکستان پر کیوں گرایا جاتا ہے؟ پاکستان پر جنگ کے بادل کیوں منڈلانے لگتے ہیں اور ہمارا کیا قصور ہے کہ ایسے ہر واقعے کے بعد ہمیں ملزم قرار دیا جائے؟

  غیر جانبداری سے اس معاملے کا تجزیہ کیا جائے تو 4 ایسے ٹھوس پوائنٹس موجود ہیں جو پاکستان کی بریت کی گواہی دیتے ہیں :

  1: امریکی نائب صدر کی بھارت میں موجودگی۔

  جب یہ حملہ ہوا تب امریکی نائب صدر جے ڈی وینس بھارت کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ تاج محل کا وزٹ کر رہے تھے جب واقعے کی تفصیل پہنچی۔ اس وزٹ کے بعد امریکی  نائب صدر کو میڈیا سے بات بھی کرنا پڑی۔ ایسے اعلیٰ سطحی امریکی دورے کے دوران کوئی احمق ترین تنظیم ہوگی جو ایسی کارروائی کرے گی۔ جو شخص صدر ٹرمپ اور ان کے سرپھرے نائب صدر کو جانتا ہے، وہ تو ایسی حماقت نہیں کر سکتا۔ کشمیری مزاحمت کار ماضی میں غیر ملکی سیاحوں کو نشانہ بنا کر بہت نقصان اٹھا چکے ہیں، اب وہ اس سے گریز کرتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی جدوجہد کو مقامی رکھا جائے، اسے انٹرنیشنل نہ بنایا جائے کہ اس کا انہیں نقصان ہوتا ہے۔

 2: پاکستان امریکا سے خوشگوار تعلقات بگاڑنے کا رسک کیوں لے گا؟

  یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی اداروں نے بڑی سمجھداری اور دانشمندی سے امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر کیے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے کانگریس سے خطاب میں پاکستان کو سراہا۔ جبکہ پاکستان اور امریکا افغانستان اور افغان طالبان کے حوالے سے ایک ہی پیج پر آ چکے ہیں۔

  پاکستان کی کوشش ہے کہ بلوچستان میں مائنز اینڈ منرلز کے حوالے سے امریکی کمپنیوں کو بھی انویسٹمنٹ کے لیے آمادہ کیا جائے۔ خاصا کچھ پائپ لائن میں چل رہا ہے۔ بہت کچھ ایسا جو سردست بیان کرنا بھی مناسب نہیں۔

  ایسے میں کیا پاکستان ایسی حماقت کر سکتا ہے کہ بھارتی زیر تسلط کشمیر میں کوئی ایسا بڑا حملہ کرا دے جس کی دنیا بھر میں شدید مذمت ہو اور صدر ٹرمپ کے لیے آؤٹ آف دا وے انڈیا کے ساتھ جانا پڑے۔ ایسی حماقت پاکستان قطعی نہیں کر سکتا۔ اگر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی کانوائے پر کوئی حملہ ہو تو دنیا اسے الگ نظروں سے دیکھے گی، مگر کسی سیاحتی مقام پر نہتے سیاحوں پر ہونے والی اندھادھند فائرنگ کو ظاہر ہے دنیا بھر میں دہشتگردی ہی تصور کیا جائے گا۔ پاکستان اپنے پیروں پر کلہاڑی کیوں مارے گا؟

  3: پاکستان کا شدید معاشی بحران:

  پاکستان اس وقت جس قسم کے معاشی حالات سے گزر رہا ہے، اس میں ہرگز ہرگز کسی ایڈونچر کی گنجائش نہیں۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا پورا فوکس ملکی معیشت کو سنبھالنے پر ہے، زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، ہر ممکن کوشش ہو رہی ہے کہ ملکی معیشت سنبھل جائے اور استحکام پیدا ہو۔ ایسے میں جنگ جوئی کی حماقت کون کرتا ہے؟

  ایک لاکھ میں ایک فیصد سے کم امکان ہوسکتا ہے کہ ایسے بحرانی حالات میں کوئی حماقت کی جائے۔ پاکستانی اسٹیٹ ایکٹرز ک ے بارے میں تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں اگر کوئی بچا کچا نان اسٹیٹ ایکٹر ہے تو وہ بھی ایسی حماقت یا جرات نہیں کر سکتا۔ جب روٹی کے لالے پڑے ہوں تو جنگ کی طرف کون جاتا ہے؟ اس طرح کا حملہ دونوں ممالک کو کسی جنگ کی طرف اگر نہ لے جائے، تب بھی خطے کی صورتحال ازحد کشیدہ ضرور ہوجائے گی اور یہ پاکستان کے بالکل مفاد میں نہیں۔

  4: کیا یہ بھارتی فالس فلیگ آپریشن ہے؟

 فالس فلیگ آپریشن سے مراد ایسا جھوٹا، دھوکہ دینے والا حملہ ہے جس کا الزام مخالف پرلگایا جائے جبکہ وہ دانستہ طور پر خود ہی کرایا گیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بھارتی فالس فلیگ ہے؟

   دیانت داری کی بات ہے کہ میرے پاس اس کا کوئی حتمی جواب موجود نہیں مگر جس سرعت سے بھارت نے پاکستان پر مدعا ڈالنے کی کوشش کی اور جس طرح بھارتی ایجنسیوں سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس کل سے ایکٹو ہوئے ہیں اس سے فالس فلیگ والے الزام کو تقویت ضرور ملتی ہے۔

 ایک اور پہلو ہے کہ بی جے پی حکومت مسلم وقف بل کے حوالے سے شدید عوامی دباؤ میں ہے، سپریم کورٹ میں یہ کیس جا چکا ہے، بھارتی مسلمان متحد ہو کر وزیراعظم مودی اور ان کی جماعت کے خلاف موقف اپنا چکے ہیں۔ بھارت کی سیکولر اور لبرل قوتیں بھی ان کے ساتھ ہیں۔

  ایسے میں پہلگام حملہ جیسا واقعہ جو جنگی جنون بھارت میں پیدا کر دے گا، اس کا پورا فائدہ مودی حکومت ہی کو ملنا ہے۔ اب بھارتی مسلمان مزید سہم جائیں گے۔ انہیں یہ خدشہ لاحق ہوجائے گا کہ کہیں انہیں پاکستان کے ساتھ منسلک نہ کر دیا جائے۔ پہلگام حملہ ہر اعتبار سے انڈیا اور مودی حکومت کے حق میں جا رہا ہے۔ جو وقتی شاک وہاں کے عوام کو ملا ہے، وہ انہیں پاکستان پر دباؤ بڑھانے اور عالمی رائے عامہ کو پاکستان مخالف بنانے کے لیے استعمال کریں گے۔

 بھارت کیا کر سکتا ہے؟

   سوال اب یہی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔ بھارتی وزیروں کا بار بار یہ کہنا کہ بھارتی ردعمل واضح اور بلند ہوگا، یہ دراصل کسی عسکری حملے کی طرف اشارہ ہے۔ کیا پاکستان پر کوئی سرجیکل سٹرائیک یا اس سے بھی بڑا فوجی حملہ ہوسکتا ہے؟ اس کا خدشہ موجود ہے۔ تاہم بھارت نے یہ حماقت کی تو اسے  منہ کی کھانی پڑے گی۔ پاکستانی فوج کو کمزور سمجھنا وہی غلطی ہو گی جس کی سزا ابھی نندن کو تاحیات شرمندگی کی صورت میں  بھگتنا پڑی۔ ضروری نہیں کہ اب کی بار بھارتی فوجی پائلٹ اتنے خوش نصیب ہوں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

پہلگام حملہ عامر خاکوانی

متعلقہ مضامین

  • عالمی تجارت کیلئے پائیدار اور شمولیتی ترقی کا حصول ہمارا نصب العین ہے: وزیر خزانہ
  • نیوجرسی کے قریب جنگلات میں آتشزدگی، ساڑھے 12 ہزار ایکٹر اراضی متاثر
  • پہلگام حملہ : چند پہلو جنہیں سمجھنا ضروری ہے
  • نیو جرسی جنگلات میں خوفناک آتشزدگی، بجلی غائب، ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور
  • امریکی ریاست نیو جرسی کے جنگل میں بھڑکنے والی آگ ساڑھے آٹھ ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے پر پھیل گئی
  • امریکہ سے معاشی روابط بڑھانا چاہتے، معدنیات میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرینگے: وزیر خزانہ
  • جنوبی ایشیا میں امن کیلئے ایٹمی خطرات کم کرنے والے اقدامات، سٹرٹیجک توازن ضروری: جنرل ساحر
  • ارتھ ڈے اور پاکستان
  • کیک میں کیلے کے چھلکے، ذائقہ اور غذائیت دونوں کا حصول، خود آزما لیجیے؟
  • برآمدات پر مبنی پائیدار نمو کے حصول کیلئے اقدامات کر رہے: وزیر خزانہ