Express News:
2025-09-18@21:31:37 GMT

خوشی کا حصول

اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT

خوشی کا حصول ہر انسان کی زندگی کا ایک بنیادی مقصد ہے۔ کوئی اسے دولت میں تلاش کرتا ہے،کوئی شہرت میں،کوئی محبت میں اورکوئی اقتدار میں تلاش کرتا ہے، لیکن جب ہم حقیقی زندگی کے تجربات پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام چیزیں جنھیں ہم خوشی کا ذریعہ سمجھتے ہیں، درحقیقت سب عارضی ہیں۔

دولت، شہرت، تعلقات اور کامیابی وقتی طور پر خوشی تو دے سکتی ہیں، لیکن ان میں وہ دیرپا سکون نہیں جو دل کی گہرائیوں سے محسوس ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ مالدار، طاقتور اور مشہور لوگ بھی اکثر افسردہ، بے چین اور پریشان دکھائی دیتے ہیں، اگر خوشی کا دار و مدار صرف مادی وسائل پر ہوتا تو یہ لوگ سب سے زیادہ خوشحال ہوتے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔

خوشی ایک اندرونی کیفیت ہے، جو دل و دماغ کے سکون سے جنم لیتی ہے۔ یہ باہر سے حاصل ہونے والی کوئی چیز نہیں، بلکہ ہمارے طرزِ فکر، طرزِ عمل اور طرزِ زندگی پر منحصر ہے، اگر ہم اپنی زندگی میں حقیقی خوشی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا، اپنی توقعات کو محدود کرنا ہوگا اور اپنی زندگی کو ان اصولوں کے مطابق گزارنا ہوگا جو سکون اور طمانیت کی ضمانت دیتے ہیں۔

سب سے پہلی چیز جو حقیقی خوشی کے لیے ضروری ہے، وہ قناعت اور شکرگزاری ہے۔ دنیا میں وہ شخص کبھی خوش نہیں رہ سکتا جو ہر وقت دوسروں سے اپنا موازنہ کرتا رہے اور اپنی زندگی کو دوسروں کے معیار پر پرکھے۔ جو شخص یہ سوچے کہ فلاں کے پاس بڑا گھر ہے، فلاں کی گاڑی زیادہ اچھی ہے، فلاں کے پاس مجھ سے زیادہ دولت ہے، وہ کبھی بھی دل کی خوشی محسوس نہیں کر سکتا۔

حسد اور بے جا مقابلہ بازی انسان کے سکون کو برباد کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو شخص اپنی موجودہ حالت پر مطمئن ہو، جو کچھ اس کے پاس ہے اس کی قدر کرے، زیادہ بہتر کی کوشش کرے اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرے، وہی حقیقی خوشی حاصل کر سکتا ہے۔

خوش رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ماضی کے بوجھ سے آزاد ہو جائیں۔ اکثر لوگ اپنی زندگی کے تلخ تجربات، ناکامیوں اور دکھوں کو بار بار یاد کرتے رہتے ہیں، جس سے ان کے اندر افسردگی اور مایوسی جنم لیتی ہے جو گزر چکا، اسے یاد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، اگر کوئی شخص اپنی پرانی غلطیوں پر پچھتاتا رہے اور اپنی ناکامیوں کو سوچ کر خود کو کوستا رہے تو وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔

ہمیں چاہیے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھیں، حال میں جئیں اور مستقبل کے لیے مثبت سوچ رکھیں۔ زندگی میں خوشی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دوسروں سے اپنی توقعات کم کر دیں۔ اکثر لوگ اس لیے ناخوش رہتے ہیں کہ وہ دوسروں سے زیادہ امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں اور جب وہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں تو دل ٹوٹ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں مصروف ہے، ہر کسی کو اپنی پریشانیاں لاحق ہیں اور کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ہر وقت ہماری توقعات پر پورا اتر سکے۔

جو شخص دوسروں سے کم توقع رکھے گا، وہ کم مایوس ہوگا اور جو کم مایوس ہوگا، وہ زیادہ خوش رہے گا۔ خوش رہنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کو سادگی اور قناعت کے اصولوں پر گزاریں۔ جو شخص اپنی ضروریات کو محدود کر لیتا ہے، وہ زیادہ سکون میں رہتا ہے۔ ایک مفکرکا قول ہے کہ ’’ اگر تم اپنی خواہشات کو محدود کر لو گے تو تمہارے پاس ہمیشہ کفایت ہوگی، لیکن اگر تم اپنی خواہشات کو بڑھاتے جاؤ گے تو تم ہمیشہ محرومی کا شکار رہو گے۔‘‘

دنیا میں وہی لوگ سب سے زیادہ ناخوش ہوتے ہیں جو ہر وقت مزید حاصل کرنے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں اور جوکبھی یہ سوچ کر مطمئن نہیں ہوتے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے وہ کافی ہے۔ حقیقی خوشی کا ایک اور راز دوسروں کے ساتھ حسن سلوک ہے۔ جو لوگ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں، ان کے چہروں پر مسکراہٹ لاتے ہیں، ان کی مدد کرتے ہیں، وہ ہمیشہ زیادہ خوش رہتے ہیں۔

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جب ہم کسی ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں، کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں، یا کسی غمزدہ شخص کو تسلی دیتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر ایک عجیب قسم کی خوشی اور سکون محسوس ہوتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ دوسروں کے لیے اچھائی کرنا ہماری روح کو تسکین دیتا ہے اور یہی تسکین حقیقی خوشی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

اچھے دوست اور مثبت ماحول بھی خوشی کے لیے بہت اہم ہیں، اگر ہم ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو ہر وقت شکایتیں کرتے ہیں، مایوسی پھیلاتے ہیں اور ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔

اس کے برعکس اگر ہم ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو ہمیں حوصلہ دیتے ہیں، مثبت سوچ سکھاتے ہیں اور زندگی کو بہتر بنانے کے طریقے بتاتے ہیں تو ہم زیادہ خوش رہیں گے۔ اس لیے ہمیں اپنے دوستوں اور تعلقات کو بہت سوچ سمجھ کر منتخب کرنا چاہیے، کیونکہ ہمارا ماحول ہماری خوشی پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔

خوشی کا ایک اور اہم ذریعہ صحت مند طرزِ زندگی ہے۔ ایک صحت مند جسم ہی ایک خوشحال دماغ کو جنم دیتا ہے، اگر ہم اپنی صحت کا خیال نہ رکھیں، بے تحاشا جنک فوڈ کھائیں، ورزش نہ کریں اور اپنی نیند پوری نہ کریں تو ہم جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہو جائیں گے اور خوشی محسوس نہیں کر سکیں گے۔

ورزش، متوازن خوراک اور اچھی نیند نہ صرف ہماری جسمانی صحت کو بہتر بناتی ہے، بلکہ ہمارے مزاج کو بھی خوشگوار رکھتی ہے، لیکن سب سے بڑھ کر حقیقی خوشی اللہ کی رضا میں ہے، جو شخص اللہ پر بھروسا کرتا ہے، اس کی رضا پر راضی رہتا ہے اور اس کے ذکر سے اپنے دل کو آباد رکھتا ہے، وہی حقیقی خوشی محسوس کر سکتا ہے۔ارشاد ربانی ہے۔ ترجمہ’’ جان لو! اللہ کے ذکر میں ہی دلوں کا سکون ہے۔‘‘

 جو شخص اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے، وہ دنیا کی مشکلات میں بھی پرسکون رہتا ہے،کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ ہر چیز اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی سب کچھ بہتر کرنے والا ہے۔ نماز، دعا اور توبہ وہ ذرایع ہیں جو انسان کو اللہ کے قریب کرتے ہیں اور حقیقی خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔

حقیقی خوشی کسی مادی شے،کسی مقام یا کسی انسان میں نہیں، بلکہ ہمارے اندر ہے، اگر ہم اپنی سوچ کو مثبت بنا لیں، قناعت اور شکرگزاری کو اپنا لیں، دوسروں کی مدد کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں سکون تلاش کریں تو ہمیں خوشی خود بخود مل جائے گی۔ خوشی ایک ایسی روشنی ہے جو اندر سے آتی ہے اور جب یہ روشنی دل میں موجود ہو، تو باہر کے حالات جیسے بھی ہوں، ہم ہمیشہ خوش اور مطمئن رہ سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اپنی زندگی دوسروں کے زیادہ خوش ہیں تو ہم زندگی کو شخص اپنی ضروری ہے اور اپنی دیتے ہیں سے زیادہ رہتے ہیں کرتے ہیں ہم اپنی خوشی کا ہوتا ہے ہیں اور کے پاس اگر ہم کے لیے ہے اور

پڑھیں:

جسٹس طارق کیس، ریکارڈنگ کے حصول کی درخواست دائر، اسلام آباد بار کی جزوی ہڑتال

اسلام آباد (وقائع نگار+ آئی این پی+ این این آئی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا2  صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے2  صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے۔ تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک جسٹس جہانگیری کو کام سے روکا جا رہا ہے، اس کیس میں حساس نوعیت کے سوالات موجود ہیں، جن میں جج کی اہلیت کا سوال بھی شامل ہے۔ اسلام آباد کورٹ کو یہ بھی بتایا گیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف شکایت زیرِ التوا ہے۔ عدالت نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم دیا ہے۔ عدالتی حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ عدالتی معاونین21 اکتوبر کو عدالت کی معاونت کریں گے۔ کیس کی آئندہ سماعت بھی21  اکتوبر کو مقرر کر دی گئی ہے۔ روسٹر کے مطابق جسٹس ثمن رفعت اب ہائی کورٹ کی تیسرے نمبر پر سینئر ترین جج بن گئی ہیں۔ علاوہ ازیں جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کے حکم میں نیا موڑ، چیف جسٹس کورٹ کی سماعت کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کے حصول کی درخواست دائر کر دی گئی۔ بیرسٹر جہانگیر جدون نے رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کو درخواست دائر کی۔ درخواست میں موقف اپنایا کہ گزشتہ روز میڈیا پر بڑے پیمانے پر جسٹس جہانگیری کیس رپورٹ ہوا، میڈیا پر رپورٹ ہوا چیف جسٹس نے وکلاء کو کہا ابھی کوئی آرڈر پاس نہیں کر رہے لیکن سماعت ختم ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ جسٹس جہانگیری کو کام سے روک دیا گیا۔ درخواست میں استدعا کی گئی کہ16 ستمبر دن ایک بجے کورٹ نمبر 1 کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ دی جائے۔ علاوہ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روکنے کے معاملے پر اسلام آباد بار کونسل کی کال پر وکلاء نے جزوی ہڑتال کی۔ اس موقع پر عدالتوں میں معمول کی کارروائی متاثر ہوئی۔ سیکرٹری ہائیکورٹ بار منظور ججہ نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے وکلاء سے اپیل کی کہ وہ عدالتوں میں پیش نہ ہوں۔ جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی عدالت نہیں پہنچیں جبکہ جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق کا ڈویژن بنچ بھی شروع نہ ہو سکا۔ جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس خادم سومرو پہلے ہی تین روزہ رخصت پر ہیں۔ جزوی ہڑتال کے باوجود کچھ وکلاء ارجنٹ نوعیت کے کیسز میں پیش ہوتے رہے۔ اس دوران سیکرٹری ہائیکورٹ بار منظور ججہ بھی ہائی کورٹ کے احاطے میں موجود رہے۔

متعلقہ مضامین

  • افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
  • امریکی شہریت کا حصول مزید مشکل: ٹیسٹ سخت کر دیا گیا، کیا تبدیل ہوا؟
  • پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی دفاعی معاہدہ، سوشل میڈیا پر لوگوں کی خوشی دیدنی
  • جسٹس طارق کیس، ریکارڈنگ کے حصول کی درخواست دائر، اسلام آباد بار کی جزوی ہڑتال
  • ماں کا سایہ زندگی کی بڑی نعمت‘ اس کا نعم البدل کوئی نہیں: عظمیٰ بخاری
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • خیبرپختونخوا کے کسی بھی ضلع میں چند سو سے زیادہ دہشتگرد موجود نہیں، آئی جی
  • مجھے کرینہ کپور سے ملایا جاتا ہے: سارہ عمیر