Express News:
2025-11-05@03:15:48 GMT

خوشی کا حصول

اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT

خوشی کا حصول ہر انسان کی زندگی کا ایک بنیادی مقصد ہے۔ کوئی اسے دولت میں تلاش کرتا ہے،کوئی شہرت میں،کوئی محبت میں اورکوئی اقتدار میں تلاش کرتا ہے، لیکن جب ہم حقیقی زندگی کے تجربات پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام چیزیں جنھیں ہم خوشی کا ذریعہ سمجھتے ہیں، درحقیقت سب عارضی ہیں۔

دولت، شہرت، تعلقات اور کامیابی وقتی طور پر خوشی تو دے سکتی ہیں، لیکن ان میں وہ دیرپا سکون نہیں جو دل کی گہرائیوں سے محسوس ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ مالدار، طاقتور اور مشہور لوگ بھی اکثر افسردہ، بے چین اور پریشان دکھائی دیتے ہیں، اگر خوشی کا دار و مدار صرف مادی وسائل پر ہوتا تو یہ لوگ سب سے زیادہ خوشحال ہوتے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔

خوشی ایک اندرونی کیفیت ہے، جو دل و دماغ کے سکون سے جنم لیتی ہے۔ یہ باہر سے حاصل ہونے والی کوئی چیز نہیں، بلکہ ہمارے طرزِ فکر، طرزِ عمل اور طرزِ زندگی پر منحصر ہے، اگر ہم اپنی زندگی میں حقیقی خوشی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا، اپنی توقعات کو محدود کرنا ہوگا اور اپنی زندگی کو ان اصولوں کے مطابق گزارنا ہوگا جو سکون اور طمانیت کی ضمانت دیتے ہیں۔

سب سے پہلی چیز جو حقیقی خوشی کے لیے ضروری ہے، وہ قناعت اور شکرگزاری ہے۔ دنیا میں وہ شخص کبھی خوش نہیں رہ سکتا جو ہر وقت دوسروں سے اپنا موازنہ کرتا رہے اور اپنی زندگی کو دوسروں کے معیار پر پرکھے۔ جو شخص یہ سوچے کہ فلاں کے پاس بڑا گھر ہے، فلاں کی گاڑی زیادہ اچھی ہے، فلاں کے پاس مجھ سے زیادہ دولت ہے، وہ کبھی بھی دل کی خوشی محسوس نہیں کر سکتا۔

حسد اور بے جا مقابلہ بازی انسان کے سکون کو برباد کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو شخص اپنی موجودہ حالت پر مطمئن ہو، جو کچھ اس کے پاس ہے اس کی قدر کرے، زیادہ بہتر کی کوشش کرے اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرے، وہی حقیقی خوشی حاصل کر سکتا ہے۔

خوش رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ماضی کے بوجھ سے آزاد ہو جائیں۔ اکثر لوگ اپنی زندگی کے تلخ تجربات، ناکامیوں اور دکھوں کو بار بار یاد کرتے رہتے ہیں، جس سے ان کے اندر افسردگی اور مایوسی جنم لیتی ہے جو گزر چکا، اسے یاد کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، اگر کوئی شخص اپنی پرانی غلطیوں پر پچھتاتا رہے اور اپنی ناکامیوں کو سوچ کر خود کو کوستا رہے تو وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔

ہمیں چاہیے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھیں، حال میں جئیں اور مستقبل کے لیے مثبت سوچ رکھیں۔ زندگی میں خوشی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دوسروں سے اپنی توقعات کم کر دیں۔ اکثر لوگ اس لیے ناخوش رہتے ہیں کہ وہ دوسروں سے زیادہ امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں اور جب وہ امیدیں پوری نہیں ہوتیں تو دل ٹوٹ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں مصروف ہے، ہر کسی کو اپنی پریشانیاں لاحق ہیں اور کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ہر وقت ہماری توقعات پر پورا اتر سکے۔

جو شخص دوسروں سے کم توقع رکھے گا، وہ کم مایوس ہوگا اور جو کم مایوس ہوگا، وہ زیادہ خوش رہے گا۔ خوش رہنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی کو سادگی اور قناعت کے اصولوں پر گزاریں۔ جو شخص اپنی ضروریات کو محدود کر لیتا ہے، وہ زیادہ سکون میں رہتا ہے۔ ایک مفکرکا قول ہے کہ ’’ اگر تم اپنی خواہشات کو محدود کر لو گے تو تمہارے پاس ہمیشہ کفایت ہوگی، لیکن اگر تم اپنی خواہشات کو بڑھاتے جاؤ گے تو تم ہمیشہ محرومی کا شکار رہو گے۔‘‘

دنیا میں وہی لوگ سب سے زیادہ ناخوش ہوتے ہیں جو ہر وقت مزید حاصل کرنے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں اور جوکبھی یہ سوچ کر مطمئن نہیں ہوتے کہ جو کچھ ان کے پاس ہے وہ کافی ہے۔ حقیقی خوشی کا ایک اور راز دوسروں کے ساتھ حسن سلوک ہے۔ جو لوگ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں، ان کے چہروں پر مسکراہٹ لاتے ہیں، ان کی مدد کرتے ہیں، وہ ہمیشہ زیادہ خوش رہتے ہیں۔

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جب ہم کسی ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں، کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں، یا کسی غمزدہ شخص کو تسلی دیتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر ایک عجیب قسم کی خوشی اور سکون محسوس ہوتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ دوسروں کے لیے اچھائی کرنا ہماری روح کو تسکین دیتا ہے اور یہی تسکین حقیقی خوشی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

اچھے دوست اور مثبت ماحول بھی خوشی کے لیے بہت اہم ہیں، اگر ہم ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو ہر وقت شکایتیں کرتے ہیں، مایوسی پھیلاتے ہیں اور ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔

اس کے برعکس اگر ہم ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو ہمیں حوصلہ دیتے ہیں، مثبت سوچ سکھاتے ہیں اور زندگی کو بہتر بنانے کے طریقے بتاتے ہیں تو ہم زیادہ خوش رہیں گے۔ اس لیے ہمیں اپنے دوستوں اور تعلقات کو بہت سوچ سمجھ کر منتخب کرنا چاہیے، کیونکہ ہمارا ماحول ہماری خوشی پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔

خوشی کا ایک اور اہم ذریعہ صحت مند طرزِ زندگی ہے۔ ایک صحت مند جسم ہی ایک خوشحال دماغ کو جنم دیتا ہے، اگر ہم اپنی صحت کا خیال نہ رکھیں، بے تحاشا جنک فوڈ کھائیں، ورزش نہ کریں اور اپنی نیند پوری نہ کریں تو ہم جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہو جائیں گے اور خوشی محسوس نہیں کر سکیں گے۔

ورزش، متوازن خوراک اور اچھی نیند نہ صرف ہماری جسمانی صحت کو بہتر بناتی ہے، بلکہ ہمارے مزاج کو بھی خوشگوار رکھتی ہے، لیکن سب سے بڑھ کر حقیقی خوشی اللہ کی رضا میں ہے، جو شخص اللہ پر بھروسا کرتا ہے، اس کی رضا پر راضی رہتا ہے اور اس کے ذکر سے اپنے دل کو آباد رکھتا ہے، وہی حقیقی خوشی محسوس کر سکتا ہے۔ارشاد ربانی ہے۔ ترجمہ’’ جان لو! اللہ کے ذکر میں ہی دلوں کا سکون ہے۔‘‘

 جو شخص اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے، وہ دنیا کی مشکلات میں بھی پرسکون رہتا ہے،کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ ہر چیز اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی سب کچھ بہتر کرنے والا ہے۔ نماز، دعا اور توبہ وہ ذرایع ہیں جو انسان کو اللہ کے قریب کرتے ہیں اور حقیقی خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔

حقیقی خوشی کسی مادی شے،کسی مقام یا کسی انسان میں نہیں، بلکہ ہمارے اندر ہے، اگر ہم اپنی سوچ کو مثبت بنا لیں، قناعت اور شکرگزاری کو اپنا لیں، دوسروں کی مدد کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں سکون تلاش کریں تو ہمیں خوشی خود بخود مل جائے گی۔ خوشی ایک ایسی روشنی ہے جو اندر سے آتی ہے اور جب یہ روشنی دل میں موجود ہو، تو باہر کے حالات جیسے بھی ہوں، ہم ہمیشہ خوش اور مطمئن رہ سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اپنی زندگی دوسروں کے زیادہ خوش ہیں تو ہم زندگی کو شخص اپنی ضروری ہے اور اپنی دیتے ہیں سے زیادہ رہتے ہیں کرتے ہیں ہم اپنی خوشی کا ہوتا ہے ہیں اور کے پاس اگر ہم کے لیے ہے اور

پڑھیں:

’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-03-4

 

سید محمد علی

دنیا ایک ایسی سمت میں جا رہی ہے جہاں آوازیں بہت ہیں مگر سننے والا کوئی نہیں۔ ہر شخص اپنی بات کہنے کے لیے بے چین ہے، مگر دوسروں کی بات سننے کی طاقت کھو چکا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس شور میں انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ؛ اس کا احساس کہیں گم ہو گیا ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں بولنے والے لاکھوں ہیں، مگر سمجھنے والے مفقود۔ ہم ایک ایسی خاموش نسل بن چکے ہیں جو اپنے ہی شور میں دب کر رہ گئی ہے۔ سوشل میڈیا کو ابتدا میں ایک انقلاب سمجھا گیا۔ اسے اظہارِ رائے، آزادی، اور انسانوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ مگر آہستہ آہستہ یہی انقلاب ایک ایسی زنجیر بن گیا جس نے ہمیں اپنی اسکرین کے اندر قید کر دیا۔ اب ہر لفظ بولنے سے پہلے ہم یہ سوچتے ہیں کہ کتنے لوگ دیکھیں گے، لائک کریں گے یا کمنٹ کریں گے۔ ہماری تحریر اور تقریر سچائی کے بجائے تاثر کے تابع ہو گئی ہے۔ ہم اپنی حقیقی زندگی کے احساسات سے زیادہ مجازی دنیا کی واہ واہ میں الجھ گئے ہیں۔ انسان کے لیے کبھی گفتگو دلوں کا رابطہ تھی، مگر اب وہ پوسٹس، ریلز اور اسٹوریز میں بدل گئی ہے۔ ایک وقت تھا جب چہرے پڑھنے، لہجے محسوس کرنے، اور آنکھوں سے بات کرنے کا فن عام تھا۔ اب سب کچھ اسکرین کے فریم میں قید ہو چکا ہے۔ ہم نے احساس کو تصویروں میں، جذبات کو ایموجیز میں، اور رشتوں کو نوٹیفکیشنز میں بدل دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ہزاروں فالورز ہیں مگر ایک سچا سننے والا نہیں۔ سوشل میڈیا نے ہمیں ظاہری طور پر جوڑ دیا، مگر حقیقت میں فاصلہ بڑھا دیا۔ ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے کی تصویریں دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں مگر ان لمحوں کو جیتے نہیں۔ ہم دوسروں کی تصویری خوشیوں کو دیکھ کر اپنی حقیقت سے دور ہو رہے ہیں۔ ہر شخص دوسرے کی زندگی کو اپنے معیار سے بہتر سمجھنے لگا ہے، اور یہ احساسِ کمتری ہمارے اندر ایک خاموش اضطراب پیدا کر رہا ہے۔ یہ وہ اضطراب ہے جو چیختا نہیں، بس اندر ہی اندر انسان کو کھا جاتا ہے۔ لوگ اپنے دکھ، پریشانی یا کمزوریوں کو سوشل میڈیا پر ظاہر نہیں کرتے کیونکہ یہاں کمزور ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ سب کچھ ’’پرفیکٹ‘‘ دکھانا ایک دباؤ بن چکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم سب مسکراتے چہروں کے پیچھے تھکے ہوئے، خالی دلوں کے ساتھ جی رہے ہیں۔ ہم نے مکالمے کو تبصرے سے بدل دیا ہے۔ اب اختلافِ رائے برداشت نہیں ہوتا، بلکہ ’’کینسل کلچر‘‘ نے سنجیدہ بات چیت کی جگہ لے لی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو سمجھنے کے بجائے رد کرنے لگے ہیں۔ کبھی اختلاف بات کو آگے بڑھاتا تھا، اب وہ تعلق ختم کر دیتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہمیں رائے دینے کا حوصلہ تو دیا ہے مگر برداشت کا حوصلہ چھین لیا ہے۔ سماجی سطح پر بھی یہ تبدیلی گہری ہو رہی ہے۔ نوجوان نسل اب حقیقی تعلقات میں کم دلچسپی رکھتی ہے۔ دوستیاں، محبتیں، حتیٰ کہ خاندانی گفتگو بھی آن لائن میسجز تک محدود ہو گئی ہیں۔ ایک وقت تھا جب گھروں میں کھانے کی میز گفتگو سے روشن ہوتی تھی، اب ہر ہاتھ میں ایک موبائل ہے اور ہر نگاہ ایک اسکرین پر جمی ہے۔ گھر وہ جگہ تھی جہاں دل آرام پاتے تھے، اب وہ وائی فائی کے سگنلز کے مرکز بن چکے ہیں۔ انسان نے مشینوں کو بنانے کے بعد سوچا تھا کہ یہ اس کی زندگی آسان کریں گی، مگر آہستہ آہستہ انہی مشینوں نے اس کے جذبات کو منجمد کر دیا۔ اب ہمارے احساسات ڈیجیٹل ردعمل کے تابع ہیں۔ کوئی ہمیں لائک نہ کرے تو ہم خود کو کم تر محسوس کرتے ہیں۔ ہماری خود اعتمادی دوسروں کے کلکس پر منحصر ہو گئی ہے۔ یہ وہ غلامی ہے جو زنجیروں سے نہیں، ذہن سے جکڑتی ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ سوشل میڈیا مکمل طور پر نقصان دہ ہے۔ دراصل، یہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم کیا بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا کی طاقت اسی وقت مثبت ثابت ہو سکتی ہے جب ہم اسے شعور کے ساتھ استعمال کریں۔ اگر ہم اسے اظہارِ احساس، آگاہی، اور فلاحِ انسانیت کے لیے استعمال کریں تو یہ معاشرتی ترقی کا زبردست ذریعہ بن سکتا ہے۔ مگر جب یہی پلیٹ فارم خودنمائی، حسد اور نفرت کے فروغ کا ذریعہ بن جائے، تو پھر یہ انسانیت کے زوال کا سبب بنتا ہے۔ اصل مسئلہ ٹیکنالوجی نہیں بلکہ وہ انسان ہے جس نے اپنی انسانیت کو اس کے تابع کر دیا۔ ہم نے مشینوں کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے انہیں اپنے احساس پر حاوی کر دیا۔ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس شور میں اپنی آواز پہچانیں، اپنی خاموشی سنیں، اور اپنے دل کی زبان سے دوبارہ جڑیں۔ انسان کو دوبارہ ’’انسان‘‘ بننے کے لیے شاید صرف ایک لمحہ درکار ہے، وہ لمحہ جب وہ اپنی اسکرین بند کر کے کسی کے چہرے کو دیکھے، کسی کی بات سنے، یا کسی کی خاموشی کو محسوس کرے۔ یہی وہ لمحہ ہے جو ہمیں احساس کی طرف لوٹا سکتا ہے۔ جب ہم دوسروں کی بات سننا شروع کریں گے، تبھی اپنی اندرونی خاموشی کا علاج ممکن ہو سکے گا۔ سوشل میڈیا کے ہجوم میں اگر کوئی چیز ہمیں دوبارہ انسان بنا سکتی ہے تو وہ احساس، مکالمہ اور سچائی ہے۔ ہمیں اس دنیا میں واپس جانا ہوگا جہاں گفتگو لفظوں سے زیادہ دلوں کے درمیان ہوتی تھی، جہاں مسکراہٹ پیغام سے زیادہ مخلص تھی، اور جہاں ملاقات صرف مجازی نہیں بلکہ حقیقی تھی۔ ہم اس زمانے کے مسافر ہیں جہاں آوازیں بہت ہیں، مگر سننے والا کوئی نہیں۔ جہاں ہر روز لاکھوں پوسٹس اپلوڈ ہوتی ہیں مگر ایک سچا جذبہ کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہی ہماری خاموشی ہے۔ اور یہی ہمارے زوال کی سب سے اونچی چیخ۔ جب تک ہم سننے اور محسوس کرنے کی صلاحیت واپس نہیں لاتے، تب تک یہ شور ہمیں مزید گہری خاموشی میں دھکیلتا رہے گا۔

سید محمد علی

متعلقہ مضامین

  • دکھ روتے ہیں!
  • مائیکرو پلاسٹکس ہماری روزمرہ زندگی میں خاموش خطرہ بن گئے
  • موجودہ دور میں جدید علوم کا حصول ناگزیر ہو چکا، ملک ڈیجیٹائزیشن کی راہ پر گامزن ہے، اسحاق ڈار
  • ناظم آباد میں باراتیوں کو شادی کی خوشی میں فائرنگ کرنا مہنگا پڑ گیا
  • ’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
  • ’تنہا ماں‘۔۔۔ آزمائشوں سے آسانیوں تک
  • ’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘
  • پاکستان کا آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالر قسط کے حصول کے لیے اہم اقدام
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • نادرونایاب تاریخ اردو نثر’’سیر المصنفین‘‘ اربابِ ذوق ِحصول کیلئے منظرعام پر