سری لنکا کے سابق کرکٹر کو مقبوضہ جموں وکشمیرمیں زمین الاٹ، حیران کن خبرآگئی
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
سرینگر (ویب ڈیسک) سری لنکا کے ایک سابق کرکٹر کو بھارت کے زیر تسلط متنازع علاقے میں سینکڑوں کنال اراضی الاٹ کردی گئی ہے،یہ انکشاف مقبوضہ جموں و کشمیر کی اسمبلی میں کیا گیا ۔
نجی اخبار کے مطابق مقبوضہ کشمیر قانون ساز اسمبلی نے قابض انتظامیہ سے اس بارے میں سوالات اٹھا ئے ہیں کہ غیر ملکی کرکٹر کو مقبوضہ جموں و کشمیرمیں زمین کیسے الاٹ کی گئی؟ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ادھر انڈیا ٹوڈے کے مطابق جس کرکٹر کا ذکر ہوا ہے ، وہ سابق کرکٹر مرلی دھرن ہیں جن کی مشروبات بنانے والی کمپنی کو بوتلنگ پلانٹ کے لیے معاوضہ کے بغیر ہی 25 ایکڑ سے زائد زمین ضلع کٹھوا میں الاٹ کی گئی، کانگریس اور سی پی آئی (ایم) نے عمرعبداللہ انتظامیہ سے وضاحت مانگی ہے کہ کیسے ایک غیر بھارتی شہری کو “مفت میں” زمین دی گئی۔
رپورٹ کے مطابق عمر عبداللہ کی حکومت نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں ان کے پاس کوئی معلوم نہیں ہیں۔
مزیدپڑھیں:ٹاک ٹاکر وزیر اعلیٰ کی کوئی پرفارمنس نہیں، میو اسپتال واقعہ کا پول کھل گیا، ملک احمد خان
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت پر پابندی، کشمیری سیاستدان برہم
محبوبہ مفتی نے سخت ردعمل ظاہر کرتے کہا کہ سیاسی قیادت کو نظر بند کرنے کا فیصلہ جموں و کشمیر کی سخت اور غیر جمہوری حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی کئی سیاسی لیڈروں نے انہیں خانہ نظربند کر کے آزادی پسند لیڈر اور حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت سے روکنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انتظامیہ کے اس اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے سخت ردعمل ظاہر کرتے کہا کہ سیاسی قیادت کو نظر بند کرنے کا فیصلہ "جموں و کشمیر کی سخت اور غیر جمہوری حقیقت" کو عیاں کرتا ہے۔ انہوں نے سماجی رابطہ گاہ ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ صرف اس لئے گھروں میں نظر بند کیا گیا کہ ہم سوپور جا کر پروفیسر عبدالغنی بٹ کے انتقال پر تعزیت نہ کر سکیں۔ محبوبہ مفتی نے بی جے پی پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ وہ دکھ اور بے چینی کو سیاسی مفاد کے لئے ہتھیار بنا رہی ہے۔
پروفیسر بٹ کے قدیم ساتھی اور پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون نے بھی الزام عائد کیا کہ انہیں سوپور جانے سے روکنے کے لیے گھر میں نظر بند کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا اس کی کوئی ضرورت تھی، پروفیسر صاحب ایک پُرامن شخصیت کے مالک تھے اور برسوں سے عملی سیاست سے الگ ہو چکے تھے، ان کو آخری الوداع کہنا سب کا حق تھا۔ ادھر میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق، جو ان کے دیرینہ ساتھی رہے ہیں، نے الزام عائد کیا کہ حکام نے جنازہ جلد بازی میں کرایا اور انہیں بٹ کی تجہیز و تکفین میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ ناقابلِ بیان دکھ ہے کہ حکام نے پروفیسر صاحب کے جنازے کو عجلت میں نمٹا دیا۔ انہون نے کہا "مجھے گھر میں بند رکھا گیا اور آخری سفر میں شریک ہونے کے حق سے محروم کر دیا گیا، ان کے ساتھ میری رفاقت اور رہنمائی کا رشتہ 35 سال پر محیط تھا، اتنے لوگوں نے ان کا آخری دیدار کرنے کی خواہش کی تھی، مگر ہمیں اس حق سے بھی محروم رکھنا ظلم ہے"۔