پاکستان کا اے سی کارڈ والے افغانوں کو ملک چھوڑنے کا حکم، افغان سیٹزن کارڈ کیا ہے اور کب جاری کیا گیا تھا؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
پاکستان نے ملک میں رہائش پذیر افغان سیٹزن کارڈ (اے سی سی) کے حامل افغان شہریوں کو 31 مارچ تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے، جبکہ بعد ان کے خلاف ممکنہ طور پر کریک ڈاؤن بھی شروع کیے جانے کا امکان ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 31 دسمبر کے بعد افغان شہری اسلام آباد میں نہیں رہ سکیں گے، وزیر داخلہ نے ڈیڈلائن دیدی
گزشتہ ہفتے پاکستانی حکام نے افغان شہریوں کو خبردار کیا تھا کہ ایسے افغان شہری جو پاکستان میں افغان سٹیزن کارڈ کے تحت پاکستان میں رہائش پذیر ہیں اس کی مدت 31 مارچ تک ہے۔ اس کے بعد پاکستان میں قیام غیرقانونی ہو گا اور ایسے افغان 31 مارچ تک رضاکارنہ طور اپنے وطن واپس جائیں۔ جس کے بعد پاکستان میں رہائش پذیر افغان شہریوں میں بے چینی کی لہر پھیل گئی ہے۔
اے سی سی ہے کیا؟افغان سٹیزن کارڈ یا اے سی سی حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کردہ کارڈ ہے جس کے تحت افغان باشندوں کو پاکستان میں قانونی طور پر رہائش کی اجازت تھی اور ہر سال وفاقی کابینہ سے اس میں توسیع کی جاتی تھی۔ افغان سیٹزن کا اجرا سال 2017 میں وفاقی کابینہ کی منظوری سے شروع کیا گیا تھا اور افغان باشندوں کو اس کے تحت رجسٹرڈ کرکے کارڈ جاری کیا گیا تھا۔
حکام کے مطابق پاکستان میں بڑی تعداد میں غیر قانونی افغان باشندے رہائش پذیر تھے اور مختلف جرائم میں ملوث ہونے کی بھی رپورٹ تھی۔
حکام نے بتایا کہ 2017 تک قانونی طور پر صرف ان افغان باشندوں کو رہائش کی اجازت تھی جو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے افغان مہاجرین کے ساتھ رجسٹرڈ تھے اور ان کے پاس پروف آف ویری فیکشن (پی او آر) کارڈ تھے، اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد بغیر کسی قانونی دستاویز کے غیر قانونی طور پر رہائش پذیر تھی اور اس حوالے سے کسی قسم کا ڈیٹا حکومت کے پاس نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: افغان شہری سیکیورٹی کلیئرنس کے بغیر اسلام آباد میں نہیں رہ سکیں گے، چیف کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کی پریس کانفرنس
افغان کمشنریٹ حکام کے مطابق سال 2017 میں ایک بین اقوامی ادارے کے تعاون سے نادرا نے باقاعدہ طور پر غیر قانونی مقیم افغان باشندوں کی رجسٹریشن کا عمل شروع کیا۔ حکام نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے اعلان کے بعد مختف شہروں میں رجسٹریشن مراکز قائم کیے گئے جہاں غیر قانونی مقیم افغان شہریوں نے اپنے اہلخانہ کے ساتھ جاکر رجسٹریشن کروائی اور ان کا ڈیٹا باقاعدہ نادرا کے ساتھ لنک کیا گیا۔
حکام نے بتایا تصدیق کے بعد رجسٹرڈ ہونے والے افغان شہریوں کو حکومت کی جانب سے افغان سٹیزن کارڈ کے نام سے شناختی کارڈ جائے کیے گئے۔ جس کے ذریعے غیرقانونی مقیم افغان باشندوں کو قانونی دائرے میں لایا گیا اور ان کا ڈیٹا حاصل کیا گیا۔
اے سی کارڈ کے تحت کنتے افغان پاکستان میں مقیم ہیں؟افغان کمشنریٹ حکام کے مطابق افغان سٹیزن کارڈ کے تحت رہائش پذیر افغان باشندوں کا تمام ڈیٹا نادرا کے پاس ہے اور 2017 میں شروع رجسٹریشن کے تحت 7 لاکھ ایسے افغان باشندوں کو اے سی کارڈ جاری کیے گئے تھے جو یو این ایچ سی آر کے پی او آر کارڈ سے محروم تھے۔ ان کی رہائش پاکستان میں غیر قانونی تھی۔ جبکہ یو این ایچ سے آر کے ساتھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 14 لاکھ تک ہے۔
حکام کا بتانا ہے کہ اب پاکستان نے اے سی سی رجسٹرڈ افغان باشندوں کو واپس جانے کا حکم دیا۔
اے سی سی کے اجرا کا مقصد کیا تھا؟پاکستانی حکام کے مطابق پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں افغان باشندے رہائش پذیر تھے جو یو این ایچ سی آر کے ساتھ بھی بطور مہاجر رجسٹرڈ نہیں تھے جبکہ پاکستان کے پاس بھی ان کا کوئی ڈیٹا نہیں تھا، ساتھ ہی ایسے افغان باشندوں کی مختلف جرائم میں ملوث ہونے کی بھی رپورٹ تھیں۔ جس کے بعد حکومت نے ان کا ڈیٹا حاصل کرکے انہیں قانونی دائرے میں لانے کا فیصلہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 9 مئی واقعات میں ملوث پہلے 10 مجرموں کو قید و جرمانے کی سزائیں، 4 افغان شہری بھی شامل
کمشنریٹ کے مطابق رجسٹریشن کے بعد افغان باشندوں کی جرائم میں ملوث ہونے کے امکانات کم ہو گئے اور ملوث ہونے کی صورت میں گرفتاری میں آسانی ہونے لگی۔ حکام کے مطابق نادرا کے پاس ڈیٹا ہونے کی وجہ سے کسی بھی جرائم کے بعد شناخت کے عمل میں مدد ملنے لگی اور ملزمان تک رسائی آسان ہوئی۔
کیا افغان سٹیزن کارڈ والوں کو نکالنا آسان ہے؟حکومتی عدادوشمار کے مطابق 7 لاکھ کے قریب اے سی سی، 14 لاکھ یو این ایچ سی آر کارڈ والے افغان باشندے پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد ہیں۔ جبکہ ہزاروں کی تعداد میں غیرقانونی باشندے بھی رہائش پذیر ہیں۔
حکام کے مطابق حکومت نے اے سی سی والوں کو بھی واپس کرنے کا فیصلہ گیا اور یکم اپریل کے بعد حکمت عملی واضح ہو گی،غیر قانونی مقیم افغان شہریوں کی نسبت قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو واپس کرنا آسان ہو گا کیونکہ ان کا پورا ڈیٹا نادرا کے پاس ہے۔
کیا افغان شہریوں کی واپسی کا عمل آسان ٹاسک ہے؟پشاور میں افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق افغان باشندوں کو زبردستی واپس کرنا شاید اتنا آسان نہیں ہے، ان کے مطابق یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان نے افغان باشندوں کو واپس جانے کا حکم دیا ہو بلکہ ماضی میں سخت کریک ڈاؤن بھی ہوئے۔
صحافی وسیم ساجد ایک بین اقوامی ادارے کے ساتھ کام کرتے ہیں اور افغان امور پر گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کا فیصلہ افغان شہریوں کے لیے سخت ہے جو اس وقت واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغان شہریوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے والا نادرا کا اسسٹنٹ ڈائریکٹر گرفتار
وسیم ساجد کا کہنا ہے کہ چند سال پہلے غیرقانونی مقیم افغان باشندوں کو واپس کرنے کے لیے کریک ڈاؤن کیے گئے۔ خیمہ بستی قائم کی گئی لیکن چند ماہ بعد حکومت خاموش ہو گئی اور اب بھی اچھی خاصی تعداد میں غیر قانونی افغان پاکستان میں ہیں۔
ان کا ماننا ہے اس طرح زبردستی کے اقدامات سے حالات خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ ’جب تک افغان حکومت اپنے شہریوں کی پاکستان سے واپسی کے لیے خصوصی پیکچ کا اعلان نہیں کرتی اس وقت تک پاکستان سے افغان شہریوں کی مکمل طور پر واپسی ممکن نظر نہیں آرہی۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغان شہری افغانستان اے سی سی پاکستان خیبرپختونخوا نادرا وزارت داخلہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان شہری افغانستان اے سی سی پاکستان خیبرپختونخوا وزارت داخلہ قانونی مقیم افغان افغان باشندوں کو افغان سٹیزن کارڈ افغان شہریوں کو حکام کے مطابق پاکستان میں افغان شہری ایسے افغان رہائش پذیر یو این ایچ شہریوں کی ملوث ہونے سے افغان نادرا کے میں ملوث اے سی سی کارڈ کے کیا گیا کیے گئے کو واپس کا ڈیٹا حکام نے کے ساتھ ہونے کی کے لیے کے پاس کے تحت کے بعد کا حکم
پڑھیں:
اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے: وزارت داخلہ
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز (اے سی سی) کے ملک چھوڑنے کی حکومتی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔
ڈان نیوز نے غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں افغان شہریوں کو اپنے سامان کے ساتھ طورخم اور چمن بارڈر عبور کرتے دیکھا گیا۔
حکومت پاکستان کی جانب سے 31 مارچ سے ان افغان شہریوں کی ملک بدری کی دوسری مہم کا آغاز کیا تھا جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ تھا (ایک شناختی دستاویز جو 2017 میں پاکستانی اور افغان حکومتوں نے مشترکہ طور پر جاری کی تھی)۔
دراصل یہ 2023 میں شروع کی گئی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کی وطن واپسی تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں ان تمام افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا جن کے پاس شناختی ثبوت موجود نہیں تھے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے کی جانے والی یہ ملک بدریاں افغانستان میں طالبان حکومت پر دباو¿ ڈالنے کی کوشش ہے، جنہیں اسلام آباد کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے کا ذمہ دارٹھہرایا جاتا ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق ’اپریل 2025 کے دوران ایک لاکھ 529 افغان شہری پاکستان سے واپس اپنے ملک جاچکے ہیں۔27 سالہ اللہ رحمٰن نے طورخم بارڈر پر اے ایف پی کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ’میں پاکستان میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان نہیں گیا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں پولیس مجھے اور میرے خاندان کو ذلیل نہ کرے اور اب ہم بے بسی کے عالم میں افغانستان واپس جا رہے ہیں‘۔افغانستان کے وزیر اعظم حسن اخوند نے پاکستان کے ’یک طرفہ اقدامات‘ کی سخت مذمت کی جب کہ اس سے ایک روز قبل وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے افغان شہریوں کی واپسی کے معاملے پر کابل کا دورہ کیا تھا۔
افغان شہریوں کی اکثریت رضاکارانہ طور پر واپس جارہی ہے تاکہ زبردستی ملک بدری سے بچ سکیں لیکن اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق صرف اپریل میں پاکستان میں 12 ہزار 948 گرفتاریاں کی گئیں جو گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہری اپنے ملک کی صورتحال سے فرار ہوکر پاکستان میں داخل ہوئے جبکہ 2021 میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے۔
افغان شہریوں کی ملک بدری کی اس مہم کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے کیوں کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد افغان آبادی کی میزبانی سے اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔
41 سالہ حجام تنویر احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغانی یہاں پناہ لینے آئے تھے لیکن پھر نوکریاں کرنے لگے، انہوں نے کاروبار کھول لئے اور پاکستانیوں سے نوکریاں چھین لیں جو پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔دوسری جانب یو این ایچ سی آر نے کا کہنا ہے کہ ملک بدر کئے جانے والے افغان شہریوں میں نصف سے زائد بچے ہیں جب کہ سرحد عبور کرنے والوں میں خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جو ایک ایسے ملک میں داخل ہورہی ہیں جہاں انہیں سیکنڈری تعلیم کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
2023 میں واپسی کے پہلے مرحلے کے دوران دستاویزات نہ رکھنے والے لاکھوں افغانوں کو زبردستی سرحد پار بھیج دیا گیا تھا۔مارچ میں اعلان کردہ دوسرے مرحلے میں حکومت پاکستان نے 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کے رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے اور ان ہزاروں افراد کو بھی خبردار کیا جو کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں کہ وہ اپریل کے آخر تک ملک چھوڑ دیں۔
ایک دکاندار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان وہ کام کرتے ہیں جسے کرتے ہوئے پاکستانیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جیسے کچرا اٹھانا وغیرہ لیکن جب وہ چلے جائیں گے تو یہ کام کون کرے گا؟
عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے ، عمران خان
مزید :