اسلام ٹائمز: احمد الشرع (جولانی) نے مخالفین کو دبانے کی دھمکی دی ہے اور ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن اسکی فورسز نے بے انتہا ظلم ڈھائے ہیں، جس سے الجولانی کا داعشی روپ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جولانی فورسز کی طرف سے تشدد میں شدت ہے اور سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ بڑے پیمانے پر پھانسیاں بھی دی جا رہی رہی ہیں، غیر ملکی کھلاڑی جو شام میں ماضی میں انسانی حقوق کے لیے بہت واویلا کرتے تھے، آج اس بڑے پیمانے پر ہونے والے تشدد پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔ تحریر: سید رضی عمادی
شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے تین ماہ بعد الجولانی حکومت کے خلاف مختلف علاقوں میں جھڑپیں شروع ہوگئی ہیں۔ ادھر جولانی حکومت نے اپنے مخالف گروپوں پر تشدد کا ایک نیا دور شروع کر دیا ہے۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے پیر کے روز اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ گذشتہ بہتر گھنٹوں کے دوران الجولانی کے عناصر کے ہاتھوں چالیس جرائم کے دوران نو سو تہتر عام شہری مارے گئے ہیں۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ علویوں کا قتل عام، ان کے گھروں کی تباہی اور جلانے نیز انہیں اجتماعی طور پر قتل کئے جانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور ان جرائم کو فوری طور پر روکا جانا چاہیئے۔ شام میں تقریباً ایک ہزار عام شہریوں کے قتل عام کا سلسلہ ایسے حالات میں جاری ہے کہ جب شام کی عبوری حکومت کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے ساحلی صوبوں میں عام شہریوں کے قتل عام پر دعویٰ کیا ہے کہ جن لوگوں نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور جن کے ہاتھ عام شہریوں کے خون سے رنگے ہيں، ہم انہیں سزا دیں گے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق دہائیوں تک علوی بشار الاسد کے اقتدار کی بنیاد سمجھے جاتے تھے، لیکن اب وہ انتقامی حملوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق، علوی دیہات میں خوفناک مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، جہاں مسلح افراد شہریوں کو ان کے گھروں کی دہلیز پر یا سڑکوں پر قتل کر رہے ہیں۔ گھروں کو لوٹا اور جلایا جا رہا ہے، جس کے باعث ہزاروں افراد قریبی پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بنیاس سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں تشدد کی کچھ انتہائی ہولناک وارداتیں پیش آئی ہیں۔ یہ حملے شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی میں شدت کی ایک نئی لہر کو ظاہر کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک میں مزید عدم استحکام کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ یہ تنازعہ شام میں مزید عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے اور اس سے ملک میں انسانی اور سکیورٹی کی صورتحال متاثر ہو رہی ہے۔
شام کے ساحلی علاقے لاذقیہ اور طرطوس کے شہر، جن کی آبادی دو ملین سے زیادہ ہے اور جہاں اکثریت علویوں کی ہے، ان میں گذشتہ جمعرات کو شدید ترین جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ شام کے جنوبی اور مشرقی صوبوں میں بھی کشیدگی عروج پر ہے۔ شام کی شمالی سرحد پر کردوں نے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے، جبکہ جنوب میں دروز نشین علاقوں میں بھی کئی ہفتوں سے دروز برادری اور دمشق کی حکمران حکومت کے درمیان کشیدگی پائی جا رہی ہے۔ دوسرا سنگین تنازعہ علاقہ جبلہ کے ارد گرد طرطوس کا علاقہ ہے، جو مخالف فورسز کا کمانڈ سینٹر بن گیا ہے۔ یہ جھڑپیں 6 مارچ 2025ء کو شروع ہوئیں، جب مسلح افراد نے لاذقیہ کے مضافاتی علاقے بیت عنہ کے قریب سکیورٹی اڈوں پر حملہ کیا۔
بشار اسد کے فوجی اور سکیورٹی کمانڈروں نے لاذقیہ اور طزطوس صوبوں میں واپس آکر شام کے نئے نظام کے صدر احمد الجولانی کی حکومت کے خلاف سڑک پر مظاہرے اور فوجی و سکیورٹی سطح پر مخالفت کے لئے ایک بنیاد فراہم کر دی ہے۔ احمد الشرع (جولانی) نے مخالفین کو دبانے کی دھمکی دی ہے اور ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن اس کی فورسز نے بے انتہا ظلم ڈھائے ہیں، جس سے الجولانی کا داعشی روپ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جولانی فورسز کی طرف سے تشدد میں شدت ہے اور سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ بڑے پیمانے پر پھانسیاں بھی دی جا رہی رہی ہیں، غیر ملکی کھلاڑی جو شام میں ماضی میں انسانی حقوق کے لیے بہت واویلا کرتے تھے، آج اس بڑے پیمانے پر ہونے والے تشدد پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں حکومت کے ہے اور
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، تشدد کے بعد کشمیری جوان کی لاش دریائے جہلم سے برآمد
ذرائع کے مطابق بانڈی پورہ ضلع میں تین بچوں کے والد فردوس احمد میر کو 11 ستمبر کو گرفتار کیا گیا تھا، جنہیں دوران حراست بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی لاش دریائے جہلم سے برآمد ہوئی۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشتگردی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔مختلف اضلاع میں روزانہ بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن جاری ہیں اور نوجوانوں کو جبری طور پر حراست میں لیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق بانڈی پورہ ضلع میں تین بچوں کے والد فردوس احمد میر کو 11 ستمبر کو گرفتار کیا گیا تھا، جنہیں دوران حراست بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی لاش دریائے جہلم سے برآمد ہوئی۔ فردوس احمد کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف حاجن بانڈی پورہ میں شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے، جن میں عوام نے متاثرہ خاندان کو انصاف دینے اور مجرم بھارتی فوجیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ یہ بانڈی پورہ میں دو ہفتوں کے دوران دوسرا واقعہ ہے، اس سے قبل نوجوان زہور احمد صوفی بھی پولیس حراست میں شہید کیا گیا تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ نے ان کے گردے پھٹنے اور شدید تشدد کی تصدیق کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق ان ہلاکتوں کے بعد علاقے میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے تاکہ عوامی ردعمل کو دبایا جا سکے۔ اس کے علاوہ ڈوڈہ ضلع کے ایم ایل اے معراج ملک کو بھی سیلاب متاثرین کے حق میں آواز بلند کرنے پر کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
کشمیری رکن پارلیمنٹ آغا روح اللہ نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کی شناخت، زبان اور دین کو ختم کرنے کی سازش کر رہی ہے، مگر عوام اپنی عزت اور انصاف کے لیے لڑتے رہیں گے۔ ذرائع کے مطابق قابض فوج نے صرف پہلگام واقعے کی آڑ میں 3190 کشمیریوں کو گرفتار کیا، 81 گھروں کو مسمار کیا اور 44 نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کیا۔ مقبوضہ وادی میں روزانہ احتجاج، ہڑتالیں اور مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت دس لاکھ فوج کے باوجود کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو ختم کرنے میں ناکام ہے۔