Daily Ausaf:
2025-11-03@11:09:24 GMT

چلتی پھرتی کہانیاں

اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT

جماعت اسلامی ہیرے تراشنے میں کمال رہی ہے،پروفیسر غفور احمد سے موجودہ امیر انجینئرحافظ نعیم الرحمان تک ایک ایک ہیرا تراش کر دھرتی کی نذر کیا۔مگر اس حوالے سے جماعت کے مقدر میں سیاسی کامیابیاں بہت کم آئیں کہ مولانا کوثر نیازی سے مخدوم جاوید ہاشمی تک جو سیاست کے آسمان کا ستارہ بنا وہ ٹوٹ کر کسی اور کے آنگن میں اترگیا ۔
دراصل ایک قاری نے مولانا کوثر نیازی مرحوم کی مشہور زمانہ کتاب ’’ اور لائن کٹ گئی‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کی بھی لائن کٹ گئی کہ سیاست پر سے یکسر ہاتھ اٹھا لیا ہے اور قلم مذہبی شخصیات کو معنون کردیا ہے‘‘ انہیں کیا عرض کروں کہ سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے چالیس برس سے زیادہ عرصہ گزر گیا ،مجال ہے میرے یا مجھ ایسے دشت سیاست میں آبلہ پائی کرنے والے کسی ایک شخص کے بھی سیاست یااہل سیاست پر اثرات مرتب ہوئے ہوں ، ہم نے راہ سیاست کے کانٹے بہت چنے مگر کانٹے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی چلے گئے مگر ہم بھی وہ ٹھہرے کہ بقول شاعر۔
کانٹے کی رگ میں بھی ہے لہو سبزہ زار کا
پالا ہوا ہے یہ بھی نسیم بہار کا
مارشل لا ء یا نیم مارشل لا ء ادوار میں تو جو سہا سو سہا ،جمہوری ادوار میں تو سانس تک لینا دشوار رہا کہ کہیں سے عملی دبائو آیا یا نہیں اپنے ضمیر نے اس قدر کچوکے لگائے کہ الامان الحفیظ ۔اکثر شکیب جلالی کا یہ شعر پڑھ کر روپڑے یا ہنس دیئے کہ
جو بھی حساس ہے زمانے میں
اس سے کہہ دو گھٹ کے مرجائے
شکیب تو بہت ہی حساس نکلے کہ ریل گاڑی سے سر ٹکرا کر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے اورہم تو یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ کیا کریں ،حکمرانوں ہی کی مہربانیوں سے نہیں شہر کے دوست نما دشمنوں کے ہاتھوں بھی رسوا ہوئے مگر گلانہیں کیا کہ مروت بھی کوئی شے ہوتی ہے اور اب جوسیاسی حالات سے روگردانی کی ٹھانی ہے تو ابھی تک یکسر فیصلہ نہیں کرپائے ،کبھی پانی سر تلک پہنچ جاتا ہے تو ایک ذرا سی دیرکو سیاسی حالات پر لکھنا اندر کی مجبوری بن جاتا ہے ۔
یوں بھی بنیادی طور پر کہانی گر ہوں اور ملک کے مشہور سرجن (ماہر میل انفرٹیلیٹی) معروف مصور و مجسمہ ساز دوست ڈاکٹر خلیق الرحمان سال ہا سال سے ایک ہی شکوہ کرتے رہے ہیں کہ ’’اندر کا کہانی کار مارنے پر تلے ہو پروہ بھی اتنا سخت جان ہے کہ مرنے نہیں پارہا‘‘ اور اب تو میرے گھر میں اس تحریک کا زور ہے کہ اخبار سے رشتہ توڑدوں اور اپنی بچھڑی ہوئی کہانیوں کو پھر سے گلے لگالوں کہ اسی میں پناہ اور اسی میں عافیت ہے ۔جب سے بڑے بیٹے حسن سرمد کے سر میں کہانی گری کا سودا سمایا ہے اپنے ساتھ ساتھ اس پر بھی ترس آنے لگا ہے کہ یہ راستہ کا نٹوں بھرا ہے اب اسے بھی یہ چننے پڑیں گے پھر کسی دن کسی ’’ماہ نو‘‘ جیسے ادبی جریدے سے کوئی کہانی اس جملے کے ساتھ واپس آئے گی کہ ’’اپنے پاس رکھو یہ کہانی کہ ہم آئینہ دیکھنے کے موسم میں پیدا نہیں ہوئے تھے‘‘ ۔
(کشور ناہید) اظہاریئے کا آغاز مولانا کوثر نیازی کے ذکر سے ہوا تھا ،اتفاق سے ان کی وفات بھی اسی ماہ یعنی مارچ کی انیس تاریخ(1994) میں ہوئی تھی ،سیاسی زندگی کی ابتدا جماعت اسلامی سے ہوئی ،مولانا مودودی کی فکر کے متاثرین میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔جتنا عرصہ جماعت میں رہے سرگرم کارکن رہے ،پائے کے مقرر تھے اور بہت ہی عمدہ صحافی بھی مگر انہوں نے اپنا اندر کا صحافی پاکستان پیپلزپارٹی کی بھینٹ چڑھا دیا ،سیکولر مزاج اپنایا تو جماعت سے فاصلے بڑھتے چلے گئے آخر کار جماعت کی سخت گیر پالیسیز اور رجعت پسندانہ نظریات سے گریز پا ہوئے اور 1950 ء میں اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کرلیا اور پی پی پی میں شامل ہوگئے پھر بہت جلد ذوالفقار علی بھٹو سے قربت پیدا کر لی ۔ پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی تو وزارت اطلاعات کا قلمدان مولانا کوثر نیازی کے حصہ میں آیا ،تب خطابت سے سیاست چمکائی اور رواں نثر سے صحافت میں نام پیدا کیا ۔عملی سیاست میں جماعت اسلامی سے وابستگی کا مرثیہ ہی پڑھتے رہے اور جب پھر جب پیپلزپارٹی پر برا وقت آیا تو ایک بار پھر ان پر موقع پرستی کا الزام لگا کہ انہوں نے پارٹی کے ڈوبتے ہوئے سورج کے پیش نظرنئے آنے والے حکمرانوں کے ساتھ پینگیں بڑھانا شروع کردیں ۔
بہر حال جو کچھ بھی تھے ان کا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم کردار رہا ، جسے بھلایا نہیں جاسکتا اور رہے ہم تو چلتی پھرتی کہانیاں ہیں کبھی ہم بھی قصہ پارینہ ہوجائیں گے کہ۔
اجل کے ہاتھ کوئی آرہا ہے پروانہ
نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مولانا کوثر نیازی

پڑھیں:

جو کام حکومت نہ کر سکی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-8

 

آصف محمود

کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے

ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)

 

آصف محمود

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی ہند کا بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر اظہار تشویش
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • صرف بیانات سے بات نہیں بنتی، سیاست میں بات چیت ہونی چاہیے: عطاء تارڑ
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
  • عوام پر اضافی بوجھ ڈالا جارہا ہے: حافظ نعیم سندھ حکومت کے ای چالان سسٹم کے خلاف بول پڑے
  • پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ: بابر اعظم نے ویرات کوہلی کا کونسا ریکارڈ توڑ ڈالا؟
  • فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  • جماعت اسلامی کااجتماعِ عام “حق دو عوام کو” کا اگلا قدم ثابت ہوگا، ناظمہ ضلع وسطی
  • کالعدم تحریک لبیک کے جنوبی پنجاب کے ٹکٹ ہولڈرز نے جماعت سے علیحدگی کا اعلان کردیا