Daily Ausaf:
2025-07-26@10:45:29 GMT

چلتی پھرتی کہانیاں

اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT

جماعت اسلامی ہیرے تراشنے میں کمال رہی ہے،پروفیسر غفور احمد سے موجودہ امیر انجینئرحافظ نعیم الرحمان تک ایک ایک ہیرا تراش کر دھرتی کی نذر کیا۔مگر اس حوالے سے جماعت کے مقدر میں سیاسی کامیابیاں بہت کم آئیں کہ مولانا کوثر نیازی سے مخدوم جاوید ہاشمی تک جو سیاست کے آسمان کا ستارہ بنا وہ ٹوٹ کر کسی اور کے آنگن میں اترگیا ۔
دراصل ایک قاری نے مولانا کوثر نیازی مرحوم کی مشہور زمانہ کتاب ’’ اور لائن کٹ گئی‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کی بھی لائن کٹ گئی کہ سیاست پر سے یکسر ہاتھ اٹھا لیا ہے اور قلم مذہبی شخصیات کو معنون کردیا ہے‘‘ انہیں کیا عرض کروں کہ سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے چالیس برس سے زیادہ عرصہ گزر گیا ،مجال ہے میرے یا مجھ ایسے دشت سیاست میں آبلہ پائی کرنے والے کسی ایک شخص کے بھی سیاست یااہل سیاست پر اثرات مرتب ہوئے ہوں ، ہم نے راہ سیاست کے کانٹے بہت چنے مگر کانٹے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی چلے گئے مگر ہم بھی وہ ٹھہرے کہ بقول شاعر۔
کانٹے کی رگ میں بھی ہے لہو سبزہ زار کا
پالا ہوا ہے یہ بھی نسیم بہار کا
مارشل لا ء یا نیم مارشل لا ء ادوار میں تو جو سہا سو سہا ،جمہوری ادوار میں تو سانس تک لینا دشوار رہا کہ کہیں سے عملی دبائو آیا یا نہیں اپنے ضمیر نے اس قدر کچوکے لگائے کہ الامان الحفیظ ۔اکثر شکیب جلالی کا یہ شعر پڑھ کر روپڑے یا ہنس دیئے کہ
جو بھی حساس ہے زمانے میں
اس سے کہہ دو گھٹ کے مرجائے
شکیب تو بہت ہی حساس نکلے کہ ریل گاڑی سے سر ٹکرا کر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے اورہم تو یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ کیا کریں ،حکمرانوں ہی کی مہربانیوں سے نہیں شہر کے دوست نما دشمنوں کے ہاتھوں بھی رسوا ہوئے مگر گلانہیں کیا کہ مروت بھی کوئی شے ہوتی ہے اور اب جوسیاسی حالات سے روگردانی کی ٹھانی ہے تو ابھی تک یکسر فیصلہ نہیں کرپائے ،کبھی پانی سر تلک پہنچ جاتا ہے تو ایک ذرا سی دیرکو سیاسی حالات پر لکھنا اندر کی مجبوری بن جاتا ہے ۔
یوں بھی بنیادی طور پر کہانی گر ہوں اور ملک کے مشہور سرجن (ماہر میل انفرٹیلیٹی) معروف مصور و مجسمہ ساز دوست ڈاکٹر خلیق الرحمان سال ہا سال سے ایک ہی شکوہ کرتے رہے ہیں کہ ’’اندر کا کہانی کار مارنے پر تلے ہو پروہ بھی اتنا سخت جان ہے کہ مرنے نہیں پارہا‘‘ اور اب تو میرے گھر میں اس تحریک کا زور ہے کہ اخبار سے رشتہ توڑدوں اور اپنی بچھڑی ہوئی کہانیوں کو پھر سے گلے لگالوں کہ اسی میں پناہ اور اسی میں عافیت ہے ۔جب سے بڑے بیٹے حسن سرمد کے سر میں کہانی گری کا سودا سمایا ہے اپنے ساتھ ساتھ اس پر بھی ترس آنے لگا ہے کہ یہ راستہ کا نٹوں بھرا ہے اب اسے بھی یہ چننے پڑیں گے پھر کسی دن کسی ’’ماہ نو‘‘ جیسے ادبی جریدے سے کوئی کہانی اس جملے کے ساتھ واپس آئے گی کہ ’’اپنے پاس رکھو یہ کہانی کہ ہم آئینہ دیکھنے کے موسم میں پیدا نہیں ہوئے تھے‘‘ ۔
(کشور ناہید) اظہاریئے کا آغاز مولانا کوثر نیازی کے ذکر سے ہوا تھا ،اتفاق سے ان کی وفات بھی اسی ماہ یعنی مارچ کی انیس تاریخ(1994) میں ہوئی تھی ،سیاسی زندگی کی ابتدا جماعت اسلامی سے ہوئی ،مولانا مودودی کی فکر کے متاثرین میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔جتنا عرصہ جماعت میں رہے سرگرم کارکن رہے ،پائے کے مقرر تھے اور بہت ہی عمدہ صحافی بھی مگر انہوں نے اپنا اندر کا صحافی پاکستان پیپلزپارٹی کی بھینٹ چڑھا دیا ،سیکولر مزاج اپنایا تو جماعت سے فاصلے بڑھتے چلے گئے آخر کار جماعت کی سخت گیر پالیسیز اور رجعت پسندانہ نظریات سے گریز پا ہوئے اور 1950 ء میں اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کرلیا اور پی پی پی میں شامل ہوگئے پھر بہت جلد ذوالفقار علی بھٹو سے قربت پیدا کر لی ۔ پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی تو وزارت اطلاعات کا قلمدان مولانا کوثر نیازی کے حصہ میں آیا ،تب خطابت سے سیاست چمکائی اور رواں نثر سے صحافت میں نام پیدا کیا ۔عملی سیاست میں جماعت اسلامی سے وابستگی کا مرثیہ ہی پڑھتے رہے اور جب پھر جب پیپلزپارٹی پر برا وقت آیا تو ایک بار پھر ان پر موقع پرستی کا الزام لگا کہ انہوں نے پارٹی کے ڈوبتے ہوئے سورج کے پیش نظرنئے آنے والے حکمرانوں کے ساتھ پینگیں بڑھانا شروع کردیں ۔
بہر حال جو کچھ بھی تھے ان کا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم کردار رہا ، جسے بھلایا نہیں جاسکتا اور رہے ہم تو چلتی پھرتی کہانیاں ہیں کبھی ہم بھی قصہ پارینہ ہوجائیں گے کہ۔
اجل کے ہاتھ کوئی آرہا ہے پروانہ
نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مولانا کوثر نیازی

پڑھیں:

سیاسی جماعت کو سائیڈ لائن کرنا ملک کیلئے اچھا شگون نہیں: بیرسٹر گوہر

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر—فائل فوٹو

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعت کو سائیڈ لائن کرنا ملک کے لیے اچھا شگون نہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے یہ بات لاہور میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی بالا دستی کے لیے سب کو کردار ادا کرنا ہو گا، 39 پارلیمنٹیرین ڈس کوالیفکیشن کے رسک پر ہیں۔

سینیٹ الیکشن خوش اسلوبی سے ہوئے: بیرسٹر گوہر

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن خوش اسلوبی سے ہوئے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ یہ اقدام جمہوریت کے لیے خوش آئند نہیں ہو گا، بدقسمتی سے مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔

ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی تشدد کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی، پی ٹی آئی کے تمام لوگوں نے برداشت کیا، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اب بہتری کی طرف جانا چاہیے۔

علاوہ ازیں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی میاں اظہر مرحوم کی رہائش گاہ پہنچے جہاں انہوں نے مرحوم کے بیٹے حماد اظہر سے ملاقات کی۔

اس موقع پر بیرسٹر گوہر علی نے حماد اظہر سے ان کے والد کی وفات پر تعزیت کی۔

متعلقہ مضامین

  • بانی پی ٹی آئی سیاست میں آنے سے پہلے چندے کیلئے میرے پاس آتے تھے: اسحاق ڈار
  • آصف زرداری کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا، مفاہمت کی سیاست کی مثال ہیں: شرجیل انعام میمن
  • علاقائی سیاست اور باہمی تعلقات
  • سیاسی جماعت کو سائیڈ لائن کرنا ملک کیلئے اچھا شگون نہیں: بیرسٹر گوہر
  • پی ٹی آئی تشدد کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی: بیرسٹر گوہر
  • غزہ میں شدید غذائی بحران: بچے بھوک سے مرنے لگے، لوگ چلتی پھرتی لاشیں بن گئے
  • بھوک سے غزہ کے مکین چلتی پھرتی لاشیں، لازارینی
  • سیاسی اختلافات کو نفرت میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے)حافظ نعیم (
  • اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی
  • میاں اظہر مرحوم وضع داری کی سیاست کرتے تھے: حافظ نعیم الرحمٰن