ایشیائی ترقیاتی بینک کی امداد میں سے ترکیہ اور شام کو 55کروڑ کی امداد بھیجنے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
ایشیائی ترقیاتی بینک کی امداد میں سے ترکیہ اور شام کو 55کروڑ کی امداد بھیجنے کا انکشاف WhatsAppFacebookTwitter 0 11 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس )پاکستان نے ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی امداد کی رقم میں سے 55 کروڑ کی امداد ترکیہ اور شام بھیج دی۔
اس بات کا انکشاف پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس میں ہوا۔ آڈیٹرز نے بریفنگ میں بتایا کہ اے ڈی بی کی گرانٹ سے 55 کروڑ 26 لاکھ روپے کی فلڈ ریلیف آئٹمز بھیجی گئیں۔رکن کمیٹی عمر ایوب خان نے کہا کہ ہم حاتم طائی بنے پھر رہے ہیں یہ رقم ہمارے لیے گرانٹ تھی۔ ثنا اللہ مستی خیل نے کہا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک آپ کو گرانٹ دے رہا ہے اور آپ آگے خیرات کر رہے ہیں۔
چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ اے ڈی بی کی وہ گرانٹ سیلاب متاثرین کیلئے تھی، اس وقت جو سامان ہمارے پاس تھا ہم نے اس سے زیادہ سامان بھیجا، ہم پہلے بھی دوست ممالک کی مشکل وقت میں مدد کرتے آئے ہیں۔ شازیہ مری نے کہا کہ ہر مشکل وقت میں دوست ممالک کی مدد کرنے پر کوئی اعتراض نہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنے لیے آئی ہوئی امداد میں سے دوسروں کی مدد کر رہے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جو آپ کا اور حکومت کا پیسہ ہے وہ جیسے مرضی استعمال کریں لیکن جو پیسہ آپ کا ہے ہی نہیں اس سے مدد بھیجنا کیا درست تھا؟۔چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے کہا کہ گرانٹ کی یہ رقم واپس حاصل کر لی ہے۔پبلک اکاونٹس کمیٹی نے این ڈی ایم سے معاملے پر ایک ماہ میں مکمل رپورٹ طلب کرلی۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کی امداد
پڑھیں:
ٹرمپ کی آذربائیجان سمیت وسطی ایشیائی ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے قائل کرنے کی کوششیں
واشنگٹن:امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے آذربائیجان اور دیگر متعدد وسطی ایشیائی ممالک کو ابراہم ایکارڈ میں شامل کرنے کے لیے متحرک ہیں اور مذاکرات کر رہے ہیں۔
غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق اس حوالے سے باخبر 5 ذرائع نے بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ آذربائیجان کے ساتھ فعال انداز میں بات چیت کر رہی ہے اور انتظامیہ کو توقع ہے کہ ان کے سرائیل کے ساتھ تعلقات گہرے ہوں۔
ذرائع نے بتایا کہ آذربائیجان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی تعلقات طویل عرصے سے تعلقات ہیں اور اس معاہدے میں شامل کرنے کا مقصد نمائشی ہے تاکہ تجارت اور عسکری تعاون سمیت تعلقات مضبوط بنانے پر توجہ دی جائے گی۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ آذربائیجان کے حوالے سے ایک اور اہم نکتہ اس کا پڑوسی ملک آرمینیا کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان امن معاہدہ کروانے پر غور کر رہے ہیں تاہم اس کے لیے ابراہم ایکارڈ میں شامل ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس حوالے سے کئی ممالک کے نام لیے ہیں تاہم آذربائیجان کے ساتھ انتہائی منظم اور سنجیدہ مذاکرات ہو رہے ہیں اور دو ذرائع نے بتایا کہ ایک مہینے یا چند ہفتوں میں یہ معاہدہ ہوسکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے امن مشن کے نمائندے اسٹیو ویٹکوف نے مارچ میں آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کا دورہ کیا تھا اور صدر الہام علیوف سے ملاقات کی اور اس کے بعد ویٹکوف کے قریبی ساتھی آریہ لائٹسٹون نے بھی صدر علیوف سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں ابراہم ایکارڈ پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مذکورہ مذاکرات کے حصے کے طور پر آذربائیجان کے عہدیداروں نے قازقستان سمیت دیگر وسطی ایشیائی ممالک سے رابطہ کیا تاکہ ابراہم ایکارڈ کی توسیع کے لیے ان کو بھی شامل کیا جائے۔
تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ دیگر وسطی ایشیائی ممالک میں سے کس کے ساتھ رابطہ کیا گیا ہے جبکہ خطے میں قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور کرغیزستان جیسے ممالک شامل ہیں۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدیدار نے وسطی ایشیائی ممالک کے نام تو نہیں بتائے تاہم اتنا کہا کہ ابراہم ایکارڈ کی توسیع صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بنیادی اہداف میں سے ایک ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ وسطی ایشیائی مملاک کے ساتھ مذاکرات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں لیکن آذربائیجان کے ساتھ بات چیت ان کے مقابلے میں کافی آگے بڑھ گئی ہے۔
ذرائع نے واضح کیا کہ اس کے باوجود چیلنجز موجود ہیں اور معاہدہ حتمی شکل اختیار ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے کیونکہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔
خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں 2020 اور 2021 میں ابراہم ایکارڈ پر دستخط کیے گئے تھے اور اس معاہدے کے تحت 4 مسلم ممالک نے امریکی ثالثی میں سرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرمپ کی اس کوشش کے نتیجے میں ان کی انتظامیہ کو امید ہے کہ سعودی عرب کو بھی قائل کرلیا جائے گا۔
دوسری جانب سعودی عرب بارہا واضح کرچکا ہے کہ وہ اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا قدم نہیں اٹھائے گا جب تک فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور حالیہ جنگ کے نتیجے میں غزہ میں ہونے والی بربریت کے بعد سعودی عرب کے لیے اس طرح کا معاہدہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔
غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ اقدامات کی وجہ سے بھوک ہر سو پھیلی ہوئی ہے اور بچے غذائی قلت کی وجہ سے شہید ہو رہے ہیں جبکہ اسرائیل نے امداد بھیجنے کے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔
اسرائیل کی جنگی جنون میں اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی غزہ میں شہید ہوچکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہیں، شہید ہونے والے فلسطینیوں میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔