جے یو آئی کا دو صوبائی حکومتوں سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
جے یو آئی نے علماء کرام، سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور کارکنوں کی شہادتوں پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو ڈاکوؤں، چوروں اور رہزنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتوں سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔ جمیعت علمائے اسلام کی صوبائی مجلس عاملہ کا اجلاس پشاور میں منعقد ہوا جس میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ جے یو آئی نے علماء کرام، سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور کارکنوں کی شہادتوں پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو ڈاکوؤں، چوروں اور رہزنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اجلاس میں عید کے بعد تین روزہ تربیتی کنونشن کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا، جس سے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، وفاق المدارس کے سربراہ مفتی تقی عثمانی، دیگر جید علماء کرام، اسکالرز اور دانشور خطاب کریں گے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جے یو آئی
پڑھیں:
خیبر پختونخوا بجٹ 2025: افسران کے الاؤنسز میں کٹوتی اور نچلے ملازمین کے لیے ریلیف کی تیاریس
خیبر پختونخوا حکومت آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ایک اہم اور دور رس فیصلہ کرنے جا رہی ہے، جس کا مقصد سرکاری ملازمین کے درمیان مالی مراعات کے غیر متوازن نظام کو درست کرنا ہے۔ اس ضمن میں محکمہ خزانہ نے افسران کے بلند الاؤنسز میں کمی اور نچلے درجے کے ملازمین کے لیے الاؤنسز میں اضافے کی تجویز تیار کر لی ہے، جو بجٹ اجلاس میں پیش کی جائے گی۔
الاؤنسز میں طبقاتی فرق کا بحرانسرکاری ذرائع کے مطابق اس وقت خیبر پختونخوا میں اعلیٰ افسران اور نچلے درجے کے ملازمین کو دی جانے والی مراعات میں نمایاں فرق موجود ہے۔ ذرائع کے مطابق سی ایس ایس، سیکریٹریٹ اور پولیس افسران کو ان کی بنیادی تنخواہ کے 150 فیصد تک الاؤنس دیا جا رہا ہے۔ سیکریٹریٹ میں کام کرنے والے مینجمنٹ افسران کو “ایگزیکٹو الاؤنس” کی صورت میں یہی فائدہ حاصل ہے، جبکہ اسی سیکریٹریٹ کے دیگر ملازمین کو محض 20 فیصد الاؤنس دیا جاتا ہے۔
اسی طرح پولیس میں ایس پی رینک سے اوپر کے افسران کو “رسک الاؤنس” دیا جاتا ہے، مگر کانسٹیبل اور سپاہی جیسے اہلکار، جو میدان میں براہِ راست خطرات کا سامنا کرتے ہیں، اس الاؤنس سے محروم یا بہت کم حصہ پاتے ہیں۔ سب سے تشویشناک صورتحال مختلف محکموں کے ڈائریکٹوریٹس میں کام کرنے والے ملازمین کی ہے، جو کسی بھی قسم کے اضافی الاؤنس سے یکسر محروم ہیں، حالانکہ ان کا کام بھی حساس اور اہم نوعیت کا ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: وفاقی بجٹ 26-2025؛ گاڑیوں اور موٹر بائیکس کی قیمتوں میں کمی ممکن ہے؟
مایوسی، احتجاج اور دیرینہ مطالباتذرائع کے مطابق اس امتیازی نظام نے نچلے اور درمیانے درجے کے ملازمین میں شدید مایوسی پیدا کی ہے۔ خاص طور پر ڈائریکٹوریٹس کے ملازمین نے الاؤنسز میں مساوات کے مطالبے پر کئی ماہ تک کام کا بائیکاٹ کیا اور احتجاج ریکارڈ کروایا۔ ان کا موقف تھا کہ اگر سیکریٹریٹ اور پولیس افسران کو اضافی مراعات دی جا سکتی ہیں تو دیگر محکموں کے اہلکار کیوں نظرانداز کیے جا رہے ہیں؟
حکومت کی مجوزہ پالیسیمحکمہ خزانہ کے مطابق حکومت اس وقت ایسی پالیسی پر کام کر رہی ہے جس کے تحت اُن افسران کے الاؤنسز میں کٹوتی کی جائے گی جو پہلے ہی اپنی بنیادی تنخواہ سے کہیں زیادہ مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس میدانی عملے اور نچلے درجے کے ملازمین کے لیے اضافی الاؤنسز تجویز کیے جا رہے ہیں، تاکہ ان کی خدمات کا مناسب صلہ دیا جا سکے۔ پالیسی کے مطابق ہر محکمے میں الاؤنسز کی تقسیم خطرے کی نوعیت اور ذمہ داریوں کی بنیاد پر کی جائے گی۔
محکمہ خزانہ کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پالیسی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو ملازم جتنا رسک اور محنت کرتا ہے، اسے اتنا ہی فائدہ ملنا چاہیے۔ صرف کرسی پر بیٹھے افسر کو میدان میں کام کرنے والے اہلکار سے زیادہ الاؤنس دینا ناانصافی ہے۔
ممکنہ اثرات اور ردِعملماہرین کے مطابق اگر حکومت یہ پالیسی بجٹ میں نافذ کر دیتی ہے تو یہ قدم پورے ملک کے لیے ایک قابل تقلید مثال بن سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف سرکاری ملازمین کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ کارکردگی اور سروس ڈیلیوری میں بھی بہتری آئے گی۔ تاہم، اس بات کا امکان بھی ہے کہ اعلیٰ افسران مجوزہ کٹوتیوں کی مخالفت کریں، خاص طور پر وہ جنہیں کئی برسوں سے ان مراعات کا فائدہ حاصل رہا ہے۔ حکومت کو اس پالیسی کے نفاذ کے لیے جرأت مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے اور شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الاونس بجٹ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور