ایک امریکی تنظیم جیل سےرہا ہونے والی خواتین کومعاشرے کا حصہ بنانےکے لیے کیا کر رہی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
نیو اورلینز ، لوزیانا —
امریکی ریاست لوئزیانا میں ہر سال جیلوں سے 54 ہزار خواتین کو رہا کیا جاتا ہے لیکن انہیں زندگی میں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا رہتا ہے۔ ان کی تکالیف کو کم کرنے اور معاشرے میں انہیں فعال رکن بنانےکے لیے ایک تنظیم نے ایسے پروگرام ترتیب دیے ہیں جن کے تحت ان کی اسیری کے دوران ان کی پیشہ وارانہ تربیت کے علاوہ ان کے خاندانوں کی بہتری کےلیے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔
بہت سی خواتین کے لیے زندگی پھر سے شروع کرنا کٹھن ثابت ہوتا ہے۔ حتی کہ 30 فیصد کو پانچ سال کے اندراندر پھر جیل جانا پڑتا ہے۔
غیر منافع بخش تنظیم "آپریشن ریسٹوریشن” کی بانی اور صدر سریٹا اسٹیب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جیل کاٹنے کے بعد رہا ہونی والی خواتین کو ناقابل تصور رکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں جن میں خوراک اور رہائش کے مسائل بھی شامل ہیں۔
ان کے بقول مشکلات پید ا کرنے والے عوامل میں ایک یہ ہے کہ ضمانت پر رہائی پانے والی خواتین کی نگرانی کی جاتی ہے اور انہیں اپنی اس نگرانی کےلیے ریاست کو خود ہی خرچ ادا کرنا ہوتا ہے۔ – "سب سے پہلے تو یہ کہ آپ یہ پیسہ کہاں سے لائیں گے۔”
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نےکہا، "جب آپ نے جیل میں کئی سال یا دہائیاں گزاری ہوں تو آپ کا کوئی نیٹ ورک یا رابطے نہیں ہوتے نہ ہی آپ (اس) ٹیکنالوجی سے واقف ہوتے ہیں جس سے لوگ ملازمت حاصل کرتےہیں۔”
No media source now available
ایسی ہی ایک خاتون 43 سالہ شنیکا جیکسن نے 13 سال کی جیل کے بعد اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس بات کا بہت پچھتاوا تھا کہ "میں نے کسی کی زندگی لے لی اور اپنی بیٹی کو بن ماں کے رہنے کے لیے چھوڑ دیا اور یہ کہ میں نے اپنے آپ پر مستقبل کے دروازے بند کردیے۔”
انہوں نے بتایا کہ وہ سمجھیں کہ ان کے لیے زندگی کی راہیں بند ہوگئ تھیں۔
لیکن ان کے خیالات اس وقت بدلنے لگے جب انہوں نے دیکھا کہ آپریشن ریسٹوریشن تنظیم خواتین قیدیوں کو جیل میں لیبارٹری اسسٹنٹ بننے کی تربیت دے رہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت اب تک اسیر رہنے والی خواتین کو ٹریننگ دی جا چکی ہیں۔ شنیکا جیکسن بھی اس پروگرام سے مستفید ہونے والے افراد میں شامل ہیں۔
"مجھے لگتا ہےکہ میرے پاس کچھ ایسا ہے جس پر میں فخر کر سکتی ہوں۔ یہ ایک اچھا احساس ہے کہ آپ اپنی بہتری کے لیے کچھ نیا سیکھتے ہیں۔”
دوسرا موقعہ کیسے ممکن ہوتا ہےآپریشن ریسٹوریشن نے ایک درجن سے زیادہ پروگرام شروع کر رکھے ہیں جن میں رہائش کا بندو بست، معاشی مواقعوں کے لیے تربیت دینا، تعلیم، خوراک، لباس اور قانونی وکالت شامل ہیں۔
زندگی کے ان شعبوں میں مدد فراہم کرنے کا خیال تنظیم کی بانی سریٹا اسٹیب کے اپنے تجربے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے چوری اور آتش زنی کی واردات میں ملوث ہونے پر تقریباً دس سال جیل میں گزارے۔ جب سال 2009 میں انہوں نے قید سے رہائی پائی تو وہ اس سزا کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھیں اور ان کی سوچ انتشار کا شکار تھی۔
اسٹیب نے کہا،”دنیا آپ کے بغیر آگے بڑھ رہی ہوتی ہے۔ اور ایسا تیزی سے ہورہا ہوتا ہے۔ آپ جب جیل سے باہر آتے ہیں تو ہر طرف رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔”
اسٹیب جن رکاوٹوں کی طرف اشارہ کر رہی تھیں ان میں رہائش اور کالج میں داخلے کی درخواستیں بھی شامل ہی۔ کالج میں داخلے کی درخواست میں ہر ایک کو یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ ان پر کبھی کوئی جرم ثابت تو نہیں ہوا تھا۔
اسٹیب خود بھی ان لوگوں میں شامل تھیں جن کی داخلے کی درخواستیں ایمان دارا نہ جواب کے باعث مسترد کردی گئں۔
اسی طرح انہیں ملازمت کے مواقع تلاش کرنے میں ای میل کے استعمال سے دوری کا سامنا تھا، سوشل میڈیا کا استعمال کرنانہیں جانتی تھیں۔ حتی کہ انہیں انٹرویوز کےمواقع پر مناسب لباس کے انتخاب میں مشکل پیش اتی تھی۔
آخر کار انہیں ایک کالج میں داخلہ ملا ۔ تاہم گریجوایشن کرنے پر انہیں معلوم ہوا کہ انہیں اپنی بحالی کرتے ہوئے ریاست کو پہلے سے زیادہ رقم ادا کرنا ہوگی۔
اسٹیب کے مطابق بہت سی خواتین کو ایسے چلینجز کا سامنا تھا لیکن انہیں کسی قسم کی حمایت میسر نہیں تھی۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے لوئزیانا میں جیل کے مسائل پر ایک پریزینٹیشن دیکھی اور سلائیڈز میں صرف ایک میں خواتین کا ذکر آیا۔
"”یہ مضحکہ خیز تھا۔ میں نے سوچا کہ مجھے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔”
قانون میں تبدیلیسال 2017 میں ان کی تنظیم نےلوئزیانا ایکٹ 276 میں ایک تبدیلی متعارف کرانے میں کردار ادا کیا جس کے مطابق کالجوں کو داخلے کے وقت یہ سوال پوچھنے پر ممانعت ہے کہ درخواست دہندگان کی جرائم میں ملوث ہونے کی کوئی تاریخ ہے۔
اس وقت لوئزیانا ایسا قانون پاس کرنے والی پہلی ریاست تھی۔ اس کے بعد اب سات امریکی ریاستوں نے اس سے ملتے جلتے قوانین منظور کیے ہیں۔
اسٹیب اور ان کی ٹیم نے جیل میں کالج نامی پروگرام کا آغاز کیا جس کے ذریعہ ٹولین یونیورسٹی کے ساتھ اشتراک کے ذریعہ لوئزیانا کوریکشنل انسٹی ٹیوٹ فار ویمن سے فنون لطیفہ میں بی اے کی ڈگری دی جاتی تھی۔
گزشتہ سال 2024 اس پروگرام کے تحت 34 قید خواتین نے اس پروگرام میں حصہ لیا۔
جامع حل کی کوششگزشتہ سال آپریشن ریسٹوریشن پروگرام کی مدد سے 200 خاندانون کے لیے محفوظ رہائش گاہوں کا انتظام کیا گیا۔ تنظیم نے 350 خواتین اور لڑکیوں میں لباس اور حفظان صحت کی اشیا فراہم کیں۔ تنظیم نے ایسے افراد کے لیے بچوں کی نگہداشت، نقل و حمل، خوراک، اور رہائش پر امپیکٹ رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ گیارہ ہزار ڈالر خرچ کے۔
کیونکہ لوئزیانامیں 80 فیصد خواتین قیدی مائیں ہوتی ہیں، تنظیم آپریشن ریسٹوریشن نے ان کی بیٹیوں کے لیے بھی پروگرم ترتیب دیے ہیں۔ ان پروگراموں کے ذریعہ ٹینس کے کھیل کی تریبیت، رقص کی تریبیت اور تعلیم مہیا کرنا شامل ہیں۔
ایک پروگرام” گرل ٹاک” کے زیر اہتمام نوجوانوں کو مالی تعلیم، مثبت شناخت، نشہ آور ادویات کے بارے میں آگاہی، بالیدگی کی صحت اور کیریئر کے لیے تیار کرنا شامل ہیں۔
آپریشن رسٹوریشن کو "یونائیٹڈ وے آف ساوتھ ایسٹ لوئزیانا” سمیت 40 مقامی اور قومی خیراتی اداروں کی مدد حاصل ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: آپریشن ریسٹوریشن والی خواتین اس پروگرام خواتین کو شامل ہیں انہوں نے جیل میں ہوتا ہے شامل ہی کے لیے
پڑھیں:
پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جانے والا وراثتی بل کیا ہے؟
پاکستان میں خواتین کو وراثت میں ان کے جائز شرعی اور قانونی حق سے محروم رکھنا بہت بڑا سماجی مسئلہ ہے اور ایسے ہزاروں مقدمات ملک بھر کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جہاں پر خواتین وراثت میں اپنے جائز حصے کے حصول کے لیے عدالتوں کے چکر کھانے پر مجبور ہیں۔
2021 میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہو گا، بینچ کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اگر خواتین اپنی زندگی میں اپنا حق نہ لیں تو ان کی اولاد دعویٰ نہیں کر سکتی۔‘
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں “ڈیجیٹل وراثتی سرٹیفیکیٹ” کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟
پنجاب حکومت نے وراثتی جائیداد میں خواتین کے حصے کی ادائیگی ہر صورت لازم قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ خواتین کے وراثتی حقوق کے نفاذ کا بل 2025 مسلم لیگ ن کی خاتون ایم پی اے اسما احتشام کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے۔
پنجاب اسمبلی میں پیش کردہ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ خواتین کو وراثتی جائیداد سے محروم کرنا قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے۔
بل کے متن کے مطابق کسی بھی خاتون کو شریعت کے مطابق وراثتی جائیداد سے محروم نہیں کیا جا سکتا، خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت کو محتسب مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جہاں متاثرہ خواتین اپنی شکایات درج کروا سکیں گی۔
مزید پڑھیں: وفاقی شرعی عدالت کا بڑا فیصلہ، خواتین کو وراثت سے محروم کرنا غیراسلامی قرار
محتسب کو بل کے تحت نہ صرف زمینوں کا ریکارڈ درست کرنے کا اختیار حاصل ہو گا بلکہ وہ قانونی کارروائی سمیت ضرورت پڑنے پر ثالثی کا کردار بھی ادا کرسکےگا۔
مزید برآں، بل کے مطابق فاسٹ ٹریک وراثتی ٹربیونل قائم کیے جائیں گے، جن میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج یا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج فرائض انجام دیں گے۔
بل میں سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں، کسی خاتون شہری کے حقِ وراثت تلف کرنے پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ اگر یہی جرم دوبارہ کیا جائے تو سزا 5 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ تک بڑھائی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں 90فیصد سے زائد خواتین وراثتی حصے سے محروم
خواتین کو ان کے وراثتی حقوق سے متعلق آگاہی مہم بھی بل کا حصہ ہو گی، جس کے تحت اسکولوں، مدارس اور خطبات میں وراثت سے متعلق شریعت کے مطابق تعلیم دی جائے گی۔
بل کی منظوری کے بعد حکومت کو 90 دن کے اندر متعلقہ قانون سازی کرنا ہوگی، فی الحال بل کو قائمہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے، جو 2 ماہ میں رپورٹ پیش کرے گی، رپورٹ کی منظوری کے بعد بل کو رائے شماری کے ذریعے ایوان سے منظور کرایا جائے گا، جس کے بعد گورنر پنجاب اس کی حتمی منظوری دیں گے۔
ماہرین کے مطابق یہ قانون خواتین کے لیے ایک مضبوط قانونی تحفظ فراہم کرے گا اور ان کے وراثتی حقوق کی بحالی کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسما احتشام خواتین سپریم کورٹ فاسٹ ٹریک وراثتی ٹربیونل وراثت وراثتی حقوق