نیو اورلینز ، لوزیانا — 

امریکی ریاست لوئزیانا میں ہر سال جیلوں سے 54 ہزار خواتین کو رہا کیا جاتا ہے لیکن انہیں زندگی میں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا رہتا ہے۔ ان کی تکالیف کو کم کرنے اور معاشرے میں انہیں فعال رکن بنانےکے لیے ایک تنظیم نے ایسے پروگرام ترتیب دیے ہیں جن کے تحت ان کی اسیری کے دوران ان کی پیشہ وارانہ تربیت کے علاوہ ان کے خاندانوں کی بہتری کےلیے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔

بہت سی خواتین کے لیے زندگی پھر سے شروع کرنا کٹھن ثابت ہوتا ہے۔ حتی کہ 30 فیصد کو پانچ سال کے اندراندر پھر جیل جانا پڑتا ہے۔

غیر منافع بخش تنظیم "آپریشن ریسٹوریشن” کی بانی اور صدر سریٹا اسٹیب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جیل کاٹنے کے بعد رہا ہونی والی خواتین کو ناقابل تصور رکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں جن میں خوراک اور رہائش کے مسائل بھی شامل ہیں۔

ان کے بقول مشکلات پید ا کرنے والے عوامل میں ایک یہ ہے کہ ضمانت پر رہائی پانے والی خواتین کی نگرانی کی جاتی ہے اور انہیں اپنی اس نگرانی کےلیے ریاست کو خود ہی خرچ ادا کرنا ہوتا ہے۔ – "سب سے پہلے تو یہ کہ آپ یہ پیسہ کہاں سے لائیں گے۔”

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نےکہا، "جب آپ نے جیل میں کئی سال یا دہائیاں گزاری ہوں تو آپ کا کوئی نیٹ ورک یا رابطے نہیں ہوتے نہ ہی آپ (اس) ٹیکنالوجی سے واقف ہوتے ہیں جس سے لوگ ملازمت حاصل کرتےہیں۔”







No media source now available

ایسی ہی ایک خاتون 43 سالہ شنیکا جیکسن نے 13 سال کی جیل کے بعد اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس بات کا بہت پچھتاوا تھا کہ "میں نے کسی کی زندگی لے لی اور اپنی بیٹی کو بن ماں کے رہنے کے لیے چھوڑ دیا اور یہ کہ میں نے اپنے آپ پر مستقبل کے دروازے بند کردیے۔”

انہوں نے بتایا کہ وہ سمجھیں کہ ان کے لیے زندگی کی راہیں بند ہوگئ تھیں۔

لیکن ان کے خیالات اس وقت بدلنے لگے جب انہوں نے دیکھا کہ آپریشن ریسٹوریشن تنظیم خواتین قیدیوں کو جیل میں لیبارٹری اسسٹنٹ بننے کی تربیت دے رہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت اب تک اسیر رہنے والی خواتین کو ٹریننگ دی جا چکی ہیں۔ شنیکا جیکسن بھی اس پروگرام سے مستفید ہونے والے افراد میں شامل ہیں۔

"مجھے لگتا ہےکہ میرے پاس کچھ ایسا ہے جس پر میں فخر کر سکتی ہوں۔ یہ ایک اچھا احساس ہے کہ آپ اپنی بہتری کے لیے کچھ نیا سیکھتے ہیں۔”

دوسرا موقعہ کیسے ممکن ہوتا ہے

آپریشن ریسٹوریشن نے ایک درجن سے زیادہ پروگرام شروع کر رکھے ہیں جن میں رہائش کا بندو بست، معاشی مواقعوں کے لیے تربیت دینا، تعلیم، خوراک، لباس اور قانونی وکالت شامل ہیں۔

زندگی کے ان شعبوں میں مدد فراہم کرنے کا خیال تنظیم کی بانی سریٹا اسٹیب کے اپنے تجربے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے چوری اور آتش زنی کی واردات میں ملوث ہونے پر تقریباً دس سال جیل میں گزارے۔ جب سال 2009 میں انہوں نے قید سے رہائی پائی تو وہ اس سزا کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھیں اور ان کی سوچ انتشار کا شکار تھی۔

اسٹیب نے کہا،”دنیا آپ کے بغیر آگے بڑھ رہی ہوتی ہے۔ اور ایسا تیزی سے ہورہا ہوتا ہے۔ آپ جب جیل سے باہر آتے ہیں تو ہر طرف رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔”

اسٹیب جن رکاوٹوں کی طرف اشارہ کر رہی تھیں ان میں رہائش اور کالج میں داخلے کی درخواستیں بھی شامل ہی۔ کالج میں داخلے کی درخواست میں ہر ایک کو یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ ان پر کبھی کوئی جرم ثابت تو نہیں ہوا تھا۔




اسٹیب خود بھی ان لوگوں میں شامل تھیں جن کی داخلے کی درخواستیں ایمان دارا نہ جواب کے باعث مسترد کردی گئں۔

اسی طرح انہیں ملازمت کے مواقع تلاش کرنے میں ای میل کے استعمال سے دوری کا سامنا تھا، سوشل میڈیا کا استعمال کرنانہیں جانتی تھیں۔ حتی کہ انہیں انٹرویوز کےمواقع پر مناسب لباس کے انتخاب میں مشکل پیش اتی تھی۔

آخر کار انہیں ایک کالج میں داخلہ ملا ۔ تاہم گریجوایشن کرنے پر انہیں معلوم ہوا کہ انہیں اپنی بحالی کرتے ہوئے ریاست کو پہلے سے زیادہ رقم ادا کرنا ہوگی۔

اسٹیب کے مطابق بہت سی خواتین کو ایسے چلینجز کا سامنا تھا لیکن انہیں کسی قسم کی حمایت میسر نہیں تھی۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے لوئزیانا میں جیل کے مسائل پر ایک پریزینٹیشن دیکھی اور سلائیڈز میں صرف ایک میں خواتین کا ذکر آیا۔

"”یہ مضحکہ خیز تھا۔ میں نے سوچا کہ مجھے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔”

قانون میں تبدیلی

سال 2017 میں ان کی تنظیم نےلوئزیانا ایکٹ 276 میں ایک تبدیلی متعارف کرانے میں کردار ادا کیا جس کے مطابق کالجوں کو داخلے کے وقت یہ سوال پوچھنے پر ممانعت ہے کہ درخواست دہندگان کی جرائم میں ملوث ہونے کی کوئی تاریخ ہے۔

اس وقت لوئزیانا ایسا قانون پاس کرنے والی پہلی ریاست تھی۔ اس کے بعد اب سات امریکی ریاستوں نے اس سے ملتے جلتے قوانین منظور کیے ہیں۔




اسٹیب اور ان کی ٹیم نے جیل میں کالج نامی پروگرام کا آغاز کیا جس کے ذریعہ ٹولین یونیورسٹی کے ساتھ اشتراک کے ذریعہ لوئزیانا کوریکشنل انسٹی ٹیوٹ فار ویمن سے فنون لطیفہ میں بی اے کی ڈگری دی جاتی تھی۔

گزشتہ سال 2024 اس پروگرام کے تحت 34 قید خواتین نے اس پروگرام میں حصہ لیا۔

جامع حل کی کوشش

گزشتہ سال آپریشن ریسٹوریشن پروگرام کی مدد سے 200 خاندانون کے لیے محفوظ رہائش گاہوں کا انتظام کیا گیا۔ تنظیم نے 350 خواتین اور لڑکیوں میں لباس اور حفظان صحت کی اشیا فراہم کیں۔ تنظیم نے ایسے افراد کے لیے بچوں کی نگہداشت، نقل و حمل، خوراک، اور رہائش پر امپیکٹ رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ گیارہ ہزار ڈالر خرچ کے۔

کیونکہ لوئزیانامیں 80 فیصد خواتین قیدی مائیں ہوتی ہیں، تنظیم آپریشن ریسٹوریشن نے ان کی بیٹیوں کے لیے بھی پروگرم ترتیب دیے ہیں۔ ان پروگراموں کے ذریعہ ٹینس کے کھیل کی تریبیت، رقص کی تریبیت اور تعلیم مہیا کرنا شامل ہیں۔

ایک پروگرام” گرل ٹاک” کے زیر اہتمام نوجوانوں کو مالی تعلیم، مثبت شناخت، نشہ آور ادویات کے بارے میں آگاہی، بالیدگی کی صحت اور کیریئر کے لیے تیار کرنا شامل ہیں۔

آپریشن رسٹوریشن کو "یونائیٹڈ وے آف ساوتھ ایسٹ لوئزیانا” سمیت 40 مقامی اور قومی خیراتی اداروں کی مدد حاصل ہے۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: آپریشن ریسٹوریشن والی خواتین اس پروگرام خواتین کو شامل ہیں انہوں نے جیل میں ہوتا ہے شامل ہی کے لیے

پڑھیں:

شنگھائی تعاون تنظیم کا نمائشی علاقہ پاک چین اقتصادی تعاون کا مرکز بن کر ابھرا

چھنگ ڈاؤ(شِنہوا)چین کے مشرقی ساحلی شہر چھنگ ڈاؤ میں واقع چائنہ- ایس سی او مقامی اقتصادی اور تجارتی تعاون کا نمائشی علاقہ (ایس سی او ڈی اے) چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے میں تیزی سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ وسیع تر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے حصے کے طور پر ایس سی او ڈی اے زراعت، بنیادی شہری سہولتوں، نقل وحمل اور تجارت میں تعاون کے لئے ایک اہم پل بن گیا ہے۔ پاکستان کو اپنی مضبوط زرعی بنیاد کے ساتھ چین میں ایک معاون شراکت دار مل گیا ہے جو زرعی ٹیکنالوجی اور آلات میں بہترین ہے۔ چھنگ ڈاؤ میں ایس سی او بین الاقوامی ماحول دوست زرعی پیداوار نمائش اور تجارتی مرکز کے جنرل منیجر لی بائی ان نے کہا کہ یہ مرکز اہم پاکستانی مصنوعات جیسے تل اور مرچ کی درآمدات کو مضبوط بنا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی فرموں کے ساتھ شراکت داری میں مرچ پروسیسنگ کی اعلیٰ سہولیات قائم کرنے کے منصوبے جاری ہیں، جس کا مقصد کیپسیسن نکالنا اور دیگر تیارمصنوعات حاصل کرنا ہے۔ بی آر آئی کا اہم منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پہلے ہی خاطر خواہ نتائج دے چکا ہے۔ پاکستان کی وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات میں سی پیک کے سابق ایگزیکٹو سیکرٹری عدنان شاہ کے مطابق سی پیک نے گزشتہ دہائی کے دوران قابل ذکر پیشرفت کی ہے، جس نے پاکستان کے معاشی منظر نامے کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہراہوں، ریلوے اور گوادر بندرگاہ کی ترقی سمیت بنیادی شہری سہولتوں کے بڑے منصوبوں نے تجارتی راستوں میں اضافہ کیا ہے اور علاقائی اقتصادی مرکز کے طور پر پاکستان کی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔ اس پیشرفت سے نہ صرف ملکی معاشی سرگرمیوں میں سہولت ملی ہے بلکہ عالمی منڈیوں کے ساتھ پاکستان کے انضمام میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایس سی او ڈی اے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے نفاذ میں بھی قابل ذکر کردار ادا کر رہا ہے۔ ایس سی او ڈی اے کا قیام 2018 میں شنگھائی تعاون تنظیم کے چھنگ ڈاؤ سربراہ اجلاس کے بعد عمل میں آیا تھا۔ یہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کے درمیان تجارت، نقل وحمل، سرمایہ کاری اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے ایک کلیدی پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے۔ ایس سی او ڈی اے کے مرکز میں چھنگ ڈاؤ ایس سی او ڈی اے پرل بین الاقوامی نمائشی مرکز واقع ہے اور پاکستان کا قومی پویلین، جو چین۔ ایشیا اقتصادی ترقیاتی ایسوسی ایشن کی سرحد پار تجارتی کمیٹی کا حصہ ہے، اسی مرکز میں واقع ہے۔ یہ پویلین چین اور پاکستان کے مابین اقتصادی اور تجارتی شراکت داری کو اجاگر کرنے کے لئے ایک اہم “کھڑکی” بن گیا ہے۔ پویلین کی نگرانی کرنے والے چھن لونگ نے کہا کہ سرحد پار تجارتی کمیٹی کی رہنمائی میں یہ پلیٹ فارم دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور ثقافتی تبادلوں کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ پویلین نہ صرف پاکستان کے شاندار ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اس کی منفرد مصنوعات بھی پیش کرتا ہے جو چینی صارفین کی ایک بڑی تعداد کو راغب کرتا ہے۔ ایسے میں جب چین اس موسم خزاں میں تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کی میزبانی کرنے کی تیاری کر رہا ہے، مضبوط علاقائی تعاون کی توقعات بہت زیادہ ہیں۔ چین اور پاکستان ابھرتے ہوئے شعبوں جیسے سمارٹ زراعت، ڈیجیٹل معیشت اور ماحول دوست توانائی میں تعاون بڑھانے کے لئے تیار ہیں۔ عدنان شاہ نے کہا کہ اپنے قیام کے بعد سے شنگھائی تعاون تنظیم سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی تعاون کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر ابھری ہے جو استحکام، ترقی اور رابطے میں مشترکہ مفادات والے ممالک کو اکٹھا کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اپنی قابل کاشت زرخیز زمین کی وجہ سے مشرقی ایشیا کے لئے خوراک کا مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور بی آر آئی کے لائحہ عمل کے تحت پاکستان اور چین کے درمیان زرعی تعاون مزید مستحکم ہونے کی توقع ہے۔ چین ایشیا اقتصادی ترقیاتی ایسوسی ایشن کے نائب صدر ژو چھیان چھیو نے شِنہوا کو بتایا کہ ماہی گیری اور زرعی مصنوعات میں چین اور پاکستان کی تجارت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی مصنوعات زیادہ مسابقتی طور پر چینی مارکیٹ میں داخل ہو رہی ہیں، بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کر رہی ہیں جبکہ پاکستانی برآمد کنندگان کے لئے زیادہ آمدنی پیدا کررہی ہیں۔ ژو نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرکے چینی کمپنیاں سمندری خوراک کی قابل اعتماد رسد حاصل کرسکتی ہیں جبکہ پاکستان کی ماہی گیری پروسیسنگ ٹیکنالوجی کو بڑھانے اور مقامی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے میں بھی مدد کرسکتی ہیں

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • پہلگام واقعہ، واہگہ بارڈر پر پرچم کشائی کی تقریب محدود کر دی گئی
  • شنگھائی تعاون تنظیم کا نمائشی علاقہ پاک چین اقتصادی تعاون کا مرکز بن کر ابھرا
  •   وفاقی وزیر عمران  شاہ کابی آئی ایس پی ہیڈ کوارٹرز کا دورہ،مستحق افراد کی بروقت مالی امداد پر زور
  • پہلگام واقعہ: واگہ بارڈر پر روایتی پریڈ محدود کرنے کا فیصلہ
  • امریکی وزیر خارجہ کے تازہ ریمارکس پر ایرانی اہلکار کا دوٹوک "انکار"
  • مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی جھڑپ میں بھارتی فوج کا اہلکار ہلاک
  • تحقیقاتی ادارے کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونی والی کرپشن پر خاموش کیوں ہیں؟ نعیم الدین
  • شدید گرمی سے ہونے والی اموات، سندھ حکومت اور نجی اداروں کے اعدادوشمار میں بڑا تضاد
  • امریکی ریاست نیو جرسی کے جنگل میں بھڑکنے والی آگ ساڑھے آٹھ ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے پر پھیل گئی
  • کراچی میں اغوا کے بعد قتل ہونے والی 5سالہ بچی سے متعلق ویڈیوز سامنے آگئی