وقف ترمیمی بل: بھارت میں مسلمانوں کو ایک اور امتحان درپیش
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مارچ 2025ء) انتہائی متنازعہ وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ کے رواں اجلاس میں کسی بھی دن پیش کیا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں منظوری کے بعد اسے صدر دروپدی مرمو کے پاس توثیق کے لیے بھیجا جائے گا اور ان کے دستخط کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔ لیکن اس پیش رفت کے مدنظر بھارت میں ایک بار پھر سیاسی، سماجی، مذہبی طوفان کے آثار نظر آرہے ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششیں جاری ہیں، دھریندر جھا
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان اور وقف ترمیمی بل پر جوائنٹ پارلیمنٹ کمیٹی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے واضح لفظوں میں کہا کہ کسی بھی "خطرات" سے قطع نظر بل کو منظور ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔
(جاری ہے)
اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ بہار کی جنتا دل یونائٹیڈ اور آندھرا پردیس کی تیلگو دیسم پارٹی، جن کی بیساکھی کے سہارے مرکزی حکومت قائم ہے، کے رہنما بھی اس بل کو منظور نہیں ہونے دینے کے متعلق مسلمانوں سے کیے گئے وعدوں کو بھول گئے ہیں۔
وقف جائیدادوں کے انتظام کے لیے سکھ مت سے سبق سیکھیں
مسلمانوں کی تقریباﹰ تمام اہم جماعتیں اس بل کے خلاف ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے قریب جنتر منتر پر 17 مارچ کو دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح کے مظاہرے بہار اور آندھرا پردیس کی ریاستی دارالحکومتوں کے ساتھ ہی ملک کے بیشتر علاقوں میں بھی کیے جائیں گے۔
مسلم تنظیموں کا الزام ہے کہ بی جے پی ایسے قوانین لا کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے جو'غیر آئینی‘ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت مسلمانوں کو سڑکوں پر اترنے پر مجبور کر رہی ہے۔ دوسری طرف جگدمبیکا پال نے کہا کہ مسلم تنظیموں کی طرف سے کی جانے والی کسی مزاحمت سے یہ بل نہیں رکے گا۔ مسلمان اس بل کے خلاف کیوں ہیں؟مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وقف ترمیمی بل مسلمانوں کے مذہبی اور آئینی حقوق کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر انجینیئر محمد سلیم نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وقف املاک حکومت کی جائیداد نہیں بلکہ مذہبی امانتیں ہیں اور یہ بل وقف کی خودمختاری پر ایک سنگین حملہ ہے۔
انجینیئر محمد سلیم کا کہنا تھا، "یہ بل مسلمانوں کے اوقاف اور ان کے اداروں کی منظم طریقے سے کمزور کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ اس بل میں 1995 کے موجودہ وقف ایکٹ میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کے ذریعے حکومت کو وقف املاک کے انتظام میں زیادہ مداخلت کا اختیار دے دیا گیا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا،"ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت سمجھداری سے کام لے گی اور بل کو واپس لے لے گی لیکن اگر وہ ضد پر اڑی رہی تو مسلم جماعتیں اس بل کے خلاف تمام قانونی، آئینی، اخلاقی اور پرامن طریقے اختیار کریں گی۔
"تاہم وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے بل میں جو تبدیلیاں تجویز کی ہیں وہ ان جائیدادوں کے انتظام میں بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور مسلم کمیونٹی کے اصلاحات کے مطالبات کو حل کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
وقف کیا ہے؟اسلامی روایت میں، وقف ایک خیراتی یا مذہبی عطیہ ہے جو مسلمانوں کی طرف سے کمیونٹی کے فائدے کے لیے دیا جاتا ہے۔
ایسی جائیدادیں کسی دوسرے مقصد کے لیے فروخت یا استعمال نہیں کی جا سکتی ہیں نہ ہی وراثت میں منتقل کی جا سکتی ہے، بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی راہ میں وقف رہتی ہے۔بھارت میں ان املاک کی ایک بڑی تعداد مساجد، مدارس، قبرستانوں اور یتیم خانوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، اور بہت سی دوسری خالی پڑی ہیں یا ان پر تجاوزات ہو چکی ہیں۔
وقف جائیدادیں ابھی وقف ایکٹ 1995 کے تحت ہیں، جن کے انتظام و انصرام کے لیے ریاستی سطح کے بورڈز کی تشکیل لازمی ہے۔
ان بورڈز میں ریاستی حکومت کے نامزد افراد، مسلم قانون ساز، ریاستی بار کونسل کے اراکین، اسلامی اسکالرز اور وقف املاک کے منتظمین شامل ہیں۔حکومت کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ بھارت کے سب سے بڑے زمین مالکان میں سے ہیں۔ ملک بھر میں کم از کم 872,351 وقف جائیدادیں ہیں، جو 940,000 ایکڑ سے زیادہ پر پھیلی ہوئی ہیں، جن کی مالیت کا تخمینہ 1.
مودی حکومت کا کہنا ہے کہ وقف املاک اور وقف بورڈ میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیاں پائی جاتی ہیں اور وقف ترمیمی بل ان میں اصلاحات کے لیے لایا گیا ہے۔
کیا اصلاح کی ضرورت ہے؟مسلم تنظیمیں اس بات پر متفق ہیں کہ وقف بورڈ میں بدعنوانی ایک سنگین مسئلہ ہے- اس کے اراکین پر متعدد بار الزام لگایا گیا ہے کہ وہ تجاوزات کرنے والوں کے ساتھ ملی بھگت کر کے وقف اراضی کو بیچ رہے ہیں۔
لیکن ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان وقف املاک کی ایک بڑی تعداد افراد، کاروباری اداروں اور سرکاری اداروں کی طرف سے تجاوزات کا شکار ہو چکی ہے،جس پر بھی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کے سماجی معاشی حالات کا جائزہ لینے کے لیے سابقہ کانگریس پارٹی کی قیادت والی حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی جسٹس سچر کمیٹی کی 2006 میں پیش کی گئی ایک رپورٹ نے وقف اصلاحات کی سفارش کی تھی۔
اس نے پایا تھا کہ بورڈز سے حاصل ہونے والی آمدن ان جائیدادوں کی بڑی تعداد کے مقابلے میں کم تھی۔کمیٹی نے اندازہ لگایا کہ اوقاف کی جایئدادوں کے موثر استعمال سے تقریباﹰایک سو بیس بلین روپے سالانہ آمدن حاصل کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ موجودہ سالانہ آمدن تقریباً دو بلین روپے ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت کم از کم 58,889 وقف املاک پر تجاوزات ہیں، جب کہ 13,000 سے زیادہ قانونی چارہ جوئی میں ہیں۔
435,000 سے زیادہ جائیدادوں کی حیثیت نامعلوم ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا مین اسٹریم میڈیا "فرقہ پرستوں کے اس بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈے کو پھیلا رہا ہے کہ ملک میں ملٹری اور ریلوے کے بعد سب سے زیادہ املاک وقف کی ہیں، حالانکہ آندھرا پردیش اور تمل ناڈو کی مشترکہ ہندو وقف املاک اور اوڈیسہ میں مندروں کی املاک وقف کی مجموعی املاک سے کہیں زیادہ ہیں۔
" تنازعہ کیوں؟بل کے سب سے متنازعہ پہلوؤں میں سے ایک ملکیت کے قوانین میں تبدیلی ہے، جس سے بورڈ کی ملکیت تاریخی مساجد، درگاہوں اور قبرستانوں پر اثر پڑے گا۔
مجوزہ قانون میں'استعمال کے ذریعہ وقف‘ (وقف بائی یوز) کے طریقے کو بھی مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وقف بائی یوز کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی جائیداد وقف کے استعمال میں ہے تو کاغذات مشتبہ ہونے کی صورت میں بھی وہ زمین وقف کی ملکیت میں ہی رہے گی۔
لیکن مجوزہ قانون میں جائیدادوں کی ایک بڑی تعداد کی قسمت غیر یقینی ہو گئی ہے۔بہت سی جائیدادیں، جو نسل درنسل مسلمانوں کے زیر استعمال ہیں، کے پاس رسمی دستاویزات نہیں ہیں کیونکہ وہ دہائیوں یا صدیوں پہلے زبانی طور پر یا قانونی ریکارڈ کے بغیر عطیہ کی گئی تھیں۔
ماہر سماجیات جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر مجیب الرحمان کا کہنا تھا کہ ایسی قدیم کمیونٹی جائیدادوں کی ملکیت کا سراغ لگانا کافی مشکل ہے، کیونکہ ان کا انتظام اور ملکیت کا نظام صدیوں سے مغلیہ نظام سے برطانوی نوآبادیاتی نظام اور اب موجودہ نظام میں منتقل ہو چکا ہے۔
پروفیسر رحمان کا کہنا تھا، "آپ چند نسلوں تک ذاتی جائیدادوں کا سراغ لگا سکتے ہیں، لیکن کمیونٹی جائیدادوں کا سراغ لگانا زیادہ مشکل ہے، کیونکہ ان کا انتظام وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔"
پروفیسر رحمان کے مطابق حکومت کے موجودہ اقدام سے"ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کی جائیدادوں پر ریاست کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
"رکن پارلیمان بیرسٹر اسد الدین اویسی نے الزام لگایا کہ ان قوانین کا مقصد مسلمانوں سے ان کی زمین چھیننا ہے۔ اویسی کا کہنا تھا "بہت سے لوگوں نے غیر قانونی طور پر وقف پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نئے قانون میں انہیں یہ دعویٰ کرنے کا موقع مل جائے گا کہ یہ جائیداد ان کی ہے۔"
اویسی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ملک کے سب سے دولت مند شخص مکیش امبانی کا گھر 'انٹیلا' وقف کی زمین پر بنا ہوا ہے، جس کے خلاف عدالت میں ایک کیس زیر التوا ہے۔
آخر یہ کیسا قانون ہو گا؟وقف ترمیمی بل کے ناقدین نے کہا کہ بل میں بعض باتیں تو مضحکہ خیز لگتی ہیں، مثلاﹰ اگر کوئی مسلمان اپنی جائیداد کو وقف للہ کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پچھلے کم از کم پانچ سال سے "عملاﹰ مسلمان" رہا ہے۔
مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قانون بہت سی تاریخی درگاہوں اور مساجد کو خطرے میں ڈال دے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ اصلاح کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے کمیونٹی کی حساسیت اور مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔وقف املاک سے متعلق تنازعات اب تک وقف ٹریبونل میں طئے کیے جاتے تھے، مجوزہ قانون میں یہ اختیار حکومت کے نامزد کردہ افسر کو دینے کی بات کہی گئی ہے۔
بل کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ میں اب غیر مسلم افسران کو شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس کے علاوہ وقف کا غیر مسلم سی ای او مقرر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جو وقف اداروں کے مذہبی تشخص کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔قاسم رسول الیاس نے کہا کہ 17 مارچ کا مظاہرہ "حکومت کے اڑیل رویے کے خلاف" ہے۔ جو کروڑوں مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کو یکسر نظر انداز کرکے ایک ایسا قانون تھوپنے کی کوشش ہے جو کہ وقف کے تصور کے یکسر خلاف اور وقف املاک کو تباہ و برباد کرنے والا ہے۔ انہوں نے بتایا کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اور غیر مسلم تنظیموں کی ایک بڑی تعداد بھی اس مظاہرے میں شامل ہو گی۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا ہے کہ وقف کی ایک بڑی تعداد کرنے کی کوشش کی جائیدادوں کی مسلمانوں کی مسلمانوں کے مسلمانوں کو کا کہنا تھا ان کا کہنا کے انتظام بھارت میں وقف املاک کی طرف سے انہوں نے سے زیادہ حکومت کے کے خلاف اور وقف وقف کی کی گئی گیا ہے کہا کہ رہی ہے کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
فلسطین پر بھارت کی نمایاں مسلم تنظیموں اور سول سوسائٹی کا مشترکہ اعلامیہ جاری
اسلام ٹائمز: مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ہم حکومتِ ہند، عالمی رہنماؤں اور دنیا بھر کے باضمیر انسانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کریں۔ رپورٹ: جاوید عباس رضوی
بھارت کی بڑی اور نمایاں مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد نے قضیہ فلسطین پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے، جس میں بھارتی حکومت اور عالمی طاقتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ غزہ میں جاری ظلم و بربریت کو روکنے کے لئے فوری مداخلت کریں۔ انہوں نے کہا "ہم بھارت کی مسلم تنظیموں کے رہنماء، مذہبی علماء اور ملک کے امن پسند شہری، غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانیت سوز بحران کی شدید مذمت کرتے ہیں۔" انہوں نے کہا "ہم 20 کروڑ سے زائد بھارتی مسلمانوں اور وطن عزیز کے تمام امن پسند شہریوں کی جانب سے فلسطینی عوام کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔" انہوں نے کہا کہ ہم حکومتِ ہند، عالمی رہنماؤں اور دنیا بھر کے باضمیر انسانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لئے فوری اقدامات کریں۔
غزہ میں سنگین بحرانی کیفیت
فلسطینی عوام پر جاری جارحانہ اسرائیلی حملے منظم نسل کشی کی صورت اختیار کرچکے ہیں، ان حملوں میں گھروں، اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزیں کیمپوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اکتوبر 2023ء سے اب تک تقریباً ایک لاکھ معصوم فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق جارحانہ اسرائیلی بمباری کے سبب غزہ کے 90 فیصد طبی مراکز یا تو پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں یا ناکارہ ہوچکے ہیں، اس وقت پورے غزہ میں گنتی کے چند غذائی مراکز بچے ہیں، جو 20 لاکھ سے زائد افراد کی ضرورتوں کی تکمیل کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ 17,000 سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں جبکہ اس جنگ نے پانچ لاکھ سے زائد بچوں کو تعلیم سے محروم کر دیا ہے۔ ایک جانب غزہ میں اتنی سنگین بحرانی کیفیت ہے اور دوسری جانب ہزاروں ٹن خوراک اور طبی امداد سرحدوں پر روک دی گئی ہے، پانی و صفائی کے نظام کی تباہی کے سبب غزہ میں مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اگر فوری طور پر ناکہ بندی ختم نہ کی گئی تو غزہ میں مکمل طور پر قحط سالی کا خطرہ ہے۔
عالمی طاقتوں سے کیا گیا یہ بڑا مطالبہ
مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد نے کہا کہ ایسی صورت میں عالمی برادری کی خاموشی ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عالمی طاقتوں اور تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ عسکری و اقتصادی تعلقات منقطع کریں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کے خاتمہ کے مطالبے کی حمایت کریں۔ ہم تمام مسلم ممالک سے بھی پُرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل اور امریکہ پر دباؤ بنائیں، تاکہ غزہ میں جاری نسل کشی کو روکا جاسکے۔ تاریخی اعتبار سے ہمارا ملک ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا ہے، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پوری قوت سے اس تاریخی روایت کی پاسداری کریں۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ہم اپنی حکومتِ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک کی اخلاقی اور سفارتی روایت کا احترام کرے، کھل کر اسرائیل کی سفاکانہ کارروائیوں کی مذمت کرے، اس کے ساتھ عسکری اور اسٹریٹجک تعلقات کو معطل کرے۔ فلسطینی عوام کی جائز جدوجہد میں ان کا ساتھ دے اور عالمی سطح پر خطہ میں امن و استحکام کی کوششوں میں بھرپور حصہ لے۔ ہم اپنی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انسانی بنیادوں پر غزہ کے مظلومین کے لئے فوری امداد کا انتظام کرے اور غزہ میں خوراک، پانی، ایندھن اور طبی سامان کی ترسیل کے لئے کی جا رہی سفارتی کوششوں میں بھرپور حصہ لے۔
مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کی عام شہریوں اور اداروں سے اپیل
مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد نے کہا کہ ہم عام شہریوں اور اداروں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی مصنوعات اور ان کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں، جو کسی بھی طریقے سے اس نسل کشی میں شریک ہیں۔ سول سوسائٹیز، تعلیمی ادارے اور مذہبی تنظیمیں ملک میں مظلوموں کی آواز بنیں اور فلسطینی جدوجہد کے خلاف پھیلائے جا رہے پروپیگنڈے اور جھوٹے بیانیے کو بے نقاب کریں۔ ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فلسطین کے لئے جاری پُرامن اور قانونی مزاحمت میں پُرجوش شرکت کریں۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ غزہ کے لئے یکجہتی مارچ، بیداری مہمات، علمی مذاکروں اور بین المذاہب تقاریب کا اہتمام کیا جائے، تاکہ یہ پیغام جائے کہ ہندوستانی ضمیر خاموش نہیں ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کو ریاستی ہراسانی یا دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ہر شہری کو اظہارِ رائے کی آزادی حاصل رہے۔ مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد نے کہا کہ یہ بات بے حد اہم ہے کہ اس تنازعہ کے سلسلے میں ہمارا موقف وقتی سیاسی مفادات کے بجائے آئین میں درج اصولوں اور ہماری تہذیبی اور اخلاقی قدروں پر مبنی ہو۔ بے گناہ انسانوں کی نسل کشی کے وقت خاموشی یا غیر جانبدار رہنا سفارت کاری نہیں بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ اب وقت ہے کہ ہم غزہ کے عوام کے ساتھ کھل کر یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں، ہمارے اقدامات انصاف کے تقاضوں اور انسانی ہمدردی کی ہماری روایت سے ہم آہنگ ہوں۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، ہمیں ایک ہوکر اس نسل کشی کو روکنے کے لئے آواز اٹھانا ہوگی۔ مسئلہ فلسطین پر اس مشترکہ اعلامیہ کو جاری کرنے والوں میں مولانا ارشد مدنی (صدر جمیعۃ علماء ہند)، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ)، سید سعادت اللہ حسینی (امیر جماعت اسلامی ہند)، مولانا علی اصغر امام مہدی (امیر مرکزی جمیعت اہلحدیث)، مولانا حکیم الدین قاسمی (جنرل سیکریٹری جمیعۃ علماء ہند)، مولانا احمد ولی فیصل رحمانی (امیر شریعت امارت شریعہ بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ، مغربی بنگال)، مفتی مکرم احمد (امام شاہی جامع مسجد فتحپوری)، مولانا عبیداللہ خان اعظمی (سابق رکن پارلیمنٹ)، ملک معتصم خان (نائب امیر جماعت اسلامی ہند)، ڈاکٹر محمد منظور عالم (جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل)، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان (سابق چیئرمین دہلی مائنریٹی کمیشن)، عبد الحفیظ (صدر ایس آئی او آف انڈیا)، مولانا محسن تقوی (معروف شیعہ عالم دین)، پروفیسر اختر الواسع (سابق وائس چانسلر، مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور) شامل ہیں۔
درایں اثناء انڈین نیشنل کانگریس نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی مظالم پر مودی حکومت کی خاموشی شرمناک ہے اور ایسی اخلاقی بزدلی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ہے۔ کانگریس نے غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں اور فلسطینیوں پر ڈھائے جا رہے مظالم پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مودی حکومت کی خاموشی کو شرمناک اور اخلاقی بزدلی کی انتہاء قرار دیا ہے۔ کانگریس کے سینیئر لیڈر اور پارٹی کے مواصلاتی انچارج جے رام رمیش نے الزام لگایا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کو ناراض کرنے سے بچنے کے لئے جان بوجھ کر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جے رام رمیش نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ غزہ میں فلسطینی عوام پر اسرائیلی حکومت کے ذریعے مسلسل خوفناک مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ جن لوگوں کو بنیادی انسانی ضرورت یعنی خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں دیکھا جاتا ہے، انہیں نہایت بے رحمی سے قتل کیا جا رہا ہے یا پھر دانستہ طور پر بھوکا رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی حادثاتی سانحہ نہیں بلکہ ایک منظم اور سوچا سمجھا نسل کشی کا منصوبہ ہے، جس کا مقصد پورے فلسطینی معاشرے کو ختم کرنا ہے۔
کانگریس کمیٹی کے لیڈر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حالات میں جب دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والی خبریں فلسطین سے سامنے آ رہی ہیں، مودی حکومت کی خاموشی انتہائی تکلیف دہ اور شرمناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم اس لئے خاموش ہیں، تاکہ ان کے قریبی دوست نیتن یاہو ناراض نہ ہو جائیں۔ ہندوستانی حکومت نے آج تک ایسی اخلاقی بزدلی کبھی نہیں دکھائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ رویہ نہ صرف سیاسی طور پر قابل اعتراض ہے بلکہ انسانیت کے خلاف جرم پر آنکھ بند کرنا ہے، جو کہ ہندوستان کی دیرینہ خارجہ پالیسی اور اخلاقی اصولوں کے خلاف ہے۔ دوسری طرف غزہ کی صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اس درمیان کانگریس نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنا مؤقف واضح کرے اور غزہ میں انسانیت سوز مظالم کی مذمت کرے۔ کانگریس نے یاد دلایا کہ بھارت ہمیشہ عالمی سطح پر مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا ہے، لیکن موجودہ حکومت کا رویہ اس روایت سے انحراف ہے، جو ملکی شبیہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔