2 دہائیوں تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب 80 سال کی عمر میں سبکدوش
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
ویب ڈیسک : اقوام متحدہ میں طویل عرصے تک پاکستان کے مستقل مندوب رہنے والے منیر اکرم 80 سال کی عمر میں سبکدوش ہوگئے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سے کم و بیش 2 دہائیوں تک فرائض انجام دینے والے وزارت خارجہ کے سینئر ترین ڈپلومیٹ منیر اکرم 80 سال کی عمر میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگئے۔منیر اکرم کی جگہ فرانس میں پاکستان کے سفیر عاصم افتخار جنہیں حال ہی میں 22 ویں گریڈ میں ترقی ملی ہے آئندہ ماہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
ماڈل اور اداکارہ نادیہ حسین بھی ان لائن فراڈ کا نشانہ بن گئی
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس عرصے میں مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد منیر اکرم کو ایک سے زیادہ مرتبہ توسیع دی گئی اور طویل عرصہ بعد فارن سروس کے کوئی سرونگ افسر اقوام متحدہ میں مستقل مندوب ہوں گے۔
منیر اکرم نے اقوام متحدہ میں اعلیٰ ترین خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ طویل ترین دورانیے میں ایک ہی عہدے پر رہنے کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔
ان کا یہ حوالہ بھی منفرد اور یاد گار رہے گا کہ انہوں نے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کی حیثیت سے سابق صدور جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف، شوکت عزیز، میر ظفر اللہ خان جمالی، آصف علی زرداری، عمران خان اور وزیراعظم شہباز شریف کے ادوار میں فرائض انجام دیے۔
جائیداد کی لالچ میں بیٹے نے ماں کو قتل، بھائی شدید زخمی
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: پاکستان کے مستقل مندوب اقوام متحدہ میں میں پاکستان کے منیر اکرم
پڑھیں:
امریکی جرائم کے بارے میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کو یمن کا خط
یمنی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک کو ایک خط بھیج کر امریکی جرائم پر بین الاقوامی کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ اس ملک نے یمن پر ایک ہزار کے قریب وحشیانہ حملے کیے ہیں اور اس کا ہدف صیہونیوں اور ان کے جرائم کی حمایت کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایسے وقت جب امریکہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہریوں کے خلاف صیہونی رژیم کے جرائم کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور اس مقصد کے لیے یمن میں عام شہریوں اور شہری مراکز پر وحشیانہ جارحیت انجام دینے میں مصروف ہے اور حالیہ ہفتوں میں اس ملک کے سیکڑوں شہریوں کا قتل عام کر چکا ہے، یمنی وزیر خارجہ جمال عامر نے گذشتہ رات بین الاقوامی تنظیموں اور مختلف ممالک کے سربراہان مملکت کو ایک مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں یمن کے خلاف وحشیانہ امریکی جارحیت کی مذمت کی گئی ہے اور ان سے اس جارحیت کو ختم کرنے کے لیے واشنگٹن پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ خط انسانی حقوق کونسل کے صدر، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اور اس کونسل کے اراکین، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر، سلامتی کونسل کے صدر اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک اور بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کو بھیجا گیا ہے۔ ان خطوط میں یمنی وزیر خارجہ نے یمن کے عوام اور خودمختاری کے خلاف تمام امریکی جرائم کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد بین الاقوامی کمیٹی کے قیام پر زور دیا اور تاکید کی: "امریکہ نے اب تک یمن کے خلاف تقریباً ایک ہزار فضائی حملے کیے ہیں جن میں خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں بے گناہ افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔"
یمن کے وزیر خارجہ جمال عامر نے اپنے خط میں مزید لکھا: "امریکہ نے یمن میں درجنوں شہری بنیادی ڈھانچوں بشمول بندرگاہیں، ہوائی اڈے، فارمز، صحت کی سہولیات، پانی کے ذخائر اور تاریخی مقامات کو بھی فضائی جارحیت نشانہ بنایا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال راس عیسی کی بندرگاہ کو نشانہ بنانا تھا جس کے نتیجے میں 80 شہری شہید اور 150 زخمی ہوئے۔" اس یمنی عہدیدار نے مزید لکھا: "اس کے علاوہ، امریکہ جان بوجھ کر امدادی کارکنوں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے جن میں دارالحکومت صنعا کے شعوب محلے میں واقع فروہ فروٹ مارکیٹ بھی شامل ہے جو اتوار کی رات مجرمانہ امریکی جارحیت کا نشانہ بنا اور اس کے نتیجے میں 12 شہری شہید اور 30 دیگر زخمی ہو گئے۔" انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا: "یمن کے خلاف امریکی وحشیانہ جارحیت پر عالمی برادری کی خاموشی امریکیوں کو خونریزی جاری رکھنے اور یمنی قوم کے وسائل اور سہولیات کو تباہ کرنے میں مزید گستاخ بنا رہی ہے۔ یمن کے خلاف امریکی جارحیت کا مقصد بحیرہ احمر میں کشتی رانی کی حفاظت نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد غاصب صیہونی رژیم اور معصوم شہریوں کے خلاف اس کے مجرمانہ اقدامات کی حمایت کرنا ہے۔" یمنی وزیر خارجہ جمال عامر نے اپنے خط کے آخری حصے میں لکھا: "یمن کے خلاف امریکہ کی وحشیانہ جارحیت صیہونی رژیم کے خلاف یمن کے محاصرے کو توڑنے اور فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کے مجرمانہ اہداف کے حصول اور ان کے منصفانہ مقصد کو تباہ کرنے میں اس رژیم کی حمایت کی کوششوں کا حصہ ہے اور یمنی عوام کو غزہ میں فلسطین قوم کی حمایت پر مبنی دینی اور اخلاقی موقف سے ہٹانے کی مذبوحانہ کوشش ہے۔"