اسرائیل نے فلسطینی حاملہ خواتین کو نشانہ کیوں بنایا؟ اقوام متحدہ نے بتا دیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے اسرائیل کا ایک اور گھناؤنا کام بے نقاب ہوگیا ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے غزہ میں خواتین کی صحت کے مراکز کو نشانہ بنایا اور صنفی تشدد کو جنگی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ کی تعمیر نو: اہم یورپی ممالک نے ٹرمپ پلان کیخلاف عرب منصوبے کی حمایت کردی
اقوام متحدہ کے آزادانہ بین الاقوامی انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی کارروائیاں کیں، اسرائیلی حملوں سے غزہ میں طبی سامان کی قلت کے نتیجے میں حاملہ خواتین کی اموات میں اضافہ ہوا۔
اس رپورٹ میں جنسی بدسلوکی اور ریپ کے کیسز کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات کو بھی دستاویزی شکل دی گئی ہے، جن میں لوگوں کو عوامی سطح پر کپڑے اتارنے پر مجبور کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے جنگ بندی میں تعطل کے بڑھتے ہی غزہ کی امداد روک دی
کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کی یہ کارروائیاں فوجی اور سویلین قیادت کے براہ راست حکم پر یا خاموشی سے منظوری کے ساتھ کی گئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ پٹی میں اسرائیلی فورسز کی طرف سے صحت کے مراکز کو منظم طریقے سے تباہ کیا گیا اور حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کے لیے ادویات اور ضروری سامان کی درآمد کو روک دیا گیا، جس کے نتیجے میں خواتین اور بچے قابل علاج پیچیدگیوں سے مر گئے۔
اس کمیشن کا استدلال ہے کہ یہ کارروائیاں ‘انسانیت کے خلاف جرائم‘ ہیں اور انسانی پیدائش کی روک تھام اور ‘نسل کشی کے معیار‘ پر پورا اترتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی ہٹ دھرمی نے غزہ کے مزید 6 بچوں کو ٹھٹھرا کر ماردیا
یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی حملوں میں 48 ہزار 550 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 11 ہزار 741 افراد زخمی ہوچکے ہیں، غزہ میں حالیہ جنگ بندی کی خلاف ورزی بھی اسرائیل کی جانب سے مسلسل جاری ہے۔
جنوری 2025 کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ ہونے کے باوجود اسرائیل نے اس معاہدے کو 250 سے زیادہ مرتبہ توڑا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسرائیل حاملہ خواتین غزہ فلسطین مراکز صحت نسل کشی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل حاملہ خواتین فلسطین مراکز صحت حاملہ خواتین اسرائیل نے رپورٹ میں کے لیے
پڑھیں:
ڈراموں میں زبردستی اور جبر کو رومانس بنایا جا رہا ہے، صحیفہ جبار خٹک
صحیفہ جبار خٹک نے کہا ہے کہ ریٹنگز کی خاطر ڈرامے جبر اور ظلم جیسے موضوعات کو رومانوی انداز میں دکھا رہے ہیں۔حال ہی میں انسٹاگرام پر صحیفہ جبار نے ایک اسٹوری شیئر کی، جس میں انہوں نے پاکستانی ڈراموں میں خواتین کی غیر حقیقی نمائندگی اور جبر و ظلم جیسے موضوعات کو رومانوی انداز میں پیش کیے جانے پر شدید تنقید کی ہے۔صحیفہ جبار نے لکھا کہ کیا واقعی پاکستانی گھروں میں خواتین روزانہ ساڑھیاں پہنتی ہیں؟ کیا وہ ہر روز اتنا میک اپ کرتی ہیں؟ ہمارے ڈراموں میں یہ سب دکھانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کی اکثریتی آبادی کا تعلق نچلے یا متوسط طبقے سے ہے، جہاں روزمرہ زندگی میں مہنگے کپڑے پہننا عام بات نہیں ہے۔اداکارہ نے مزید کہا کہ ہمارے ڈراموں میں غلط طرزِ زندگی دکھایا جا رہا ہے اور ایسا پیش کیا جا رہا ہے جیسے ہر عورت اسی انداز میں زندگی گزارتی ہو۔اداکارہ نے ڈراما سیریلز کے بار بار دہرائے جانے والے مواد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جیسے کہ ساس بہو کی لڑائیاں، مظلوم عورت کا عزت بچانے کی جدوجہد اور ظلم کو رومانی انداز میں دکھانا۔انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ ڈراموں کی کہانیاں ایک جیسی کیوں ہو گئی ہیں؟ ہر کہانی میں ایک ہی بات کیوں ہوتی ہے؟ ہر لڑکی اپنی عزت کی وضاحت کیوں دیتی ہے؟ ہر ساس اپنی بہو پر ظلم کیوں کرتی ہے؟ ہر رشتہ زبردستی اور جبر پر کیوں مبنی دکھایا جا رہا ہے؟اداکارہ کے مطابق جبری شادی، ناپسندیدہ تعلق اور شوہر کا بیوی پر ظلم، یہ سب کچھ کئی ڈراموں میں اس طرح دکھایا جا رہا ہے جیسے یہ محبت کا حصہ ہو یا جیسے یہ سب عام اور قابلِ قبول بات ہو۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سب آخر کیوں ہو رہا ہے؟ صرف ریٹنگز کے لیے؟ یا ہم واقعی اپنے معاشرے کو مزید خراب کر رہے ہیں؟