دریاؤں اور آبی ذخائر کی صورتحال سامنے آ گئی
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
—فائل فوٹو
واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے دریاؤں اور آبی ذخیروں میں پانی کی صورتِ حال بتا دی۔
واپڈا کے اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں تربیلا کے مقام پر پانی کی آمد 19 ہزار 600 کیوسک اور اخرج 20 ہزار کیوسک ہے جبکہ دریائے کابل میں نوشہرہ کے مقام پر پانی کی آمد 14 ہزار 400 کیوسک اور اخراج 14 ہزار 400 کیوسک ہے۔
خیرآباد پل پر پانی کی آمد 25 ہزار 500 کیوسک اور اخرج 25 ہزار 500 کیوسک ہے، دریائے جہلم میں منگلا کے مقام پر پانی کی آمد 12 ہزار 700 کیوسک اور اخراج 28 ہزار کیوسک ہے، اسی طرح دریائے چناب میں مرالہ کے مقام پر پانی کی آمد 7 ہزار 900 کیوسک اور اخراج 3 ہزار 200 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔
واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے پنجاب میں دریاؤں اور آبی ذخیروں میں پانی کی صورتحال بتادی۔
تربیلا ریزر وائر کا کم از کم آپریٹنگ لیول 1402 فٹ ہے، آبی ذخیرہ گاہ میں پانی کی موجودہ سطح 1404.
منگلا ڈیم کا کم از کم آپریٹنگ لیول 1050 فٹ ہے، اس کے ریزر وائر میں پانی کی موجودہ سطح 1069.50 فٹ ہے، ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی انتہائی سطح 1242 فٹ ہے اور آج قابلِ استعمال پانی کا ذخیرہ 0.111 ملین ایکڑ فٹ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
چشمہ بیراج کا کم از کم آپریٹنگ لیول 638.15 فٹ ہے، بیراج میں پانی کی موجودہ سطح 638.15 فٹ ہے جبکہ بیراج میں پانی ذخیرہ کرنے کی انتہائی سطح 649 فٹ ہے۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کے مقام پر پانی کی ا مد میں پانی کی کیوسک اور کیوسک ہے
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے، کیا بھارت پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟
سنہ1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم پر ایک بڑا تنازعہ سامنے آیا تھا۔ اس تنازعے کو مختلف اوقات میں حل کرنے کوشش کی گئی لیکن وہ حل نہ ہو سکا۔ بالآخر ورلڈ بینک کی ثالثی سے19 ستمبر 1960 کو یہ تنازعہ حل کیا گیا اور ایک معاہدہ طے پایا جسے سندھ طاس معاہدہ کہا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پانی روکنے کا فیصلہ اعلان جنگ تصور کیا جائے گا، قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ جاری
معاہدے پر بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے دستخط کیے جس کے بعد مشترکہ مفادات کے لیے ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا جو کہ بھارت اور پاکستان کے کمشنرز پر مشتمل تھا۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت 3 مغربی دریاؤں دریائے سندھ، دریائے جہلم اور دریائے چناب کے 80 فیصد پانی پر پاکستان اور 20 فیصد پر بھارت جبکہ 3 مشرقی دریاؤں دریائے راوی، دریائے ستلج اور دریائے بیاس کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگوں کے دوران بھی اس معاہدے کو قائم رکھا گیا تھا تاہم اب پہلگام میں حملے کے بعد بھارت میں اس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
مزید پڑھیے: بھارت کے خلاف حکومت کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں، منہ توڑ جواب دیں گے، پیپلز پارٹی
سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈس بیسن سے ہر سال آنے والے مجموعی طور پر 168 ملین ایکڑ فٹ پانی کو دونوں ملکوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا تھا۔ چوں کہ مغربی دریاؤں میں سے بیشتر کا منبع بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں تھا اس وجہ سے بھارت کو 3 اعشاریہ 6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے اور محدود حد تک آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کی اجازت بھی دی گئی تھی۔
گزشتہ 3 سال سے پاکستان اور بھارت کے انڈس واٹر کمشنرز کا اجلاس نہیں ہو سکا ہے۔ انڈس واٹر کمشنرز کا آخری اجلاس 30 اور 31 مئی 2022 کو نئی دہلی میں ہوا تھا جبکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت سال میں دونوں ملکوں کے کمشنرز کا اجلاس ایک بار ہونا ضروری ہے۔
سابق ایڈیشنل کمشنر سندھ طاس معاہدہ شیراز میمن کا بھارت کی جانب سے معاہدہ معطل کیے جانے کے اعلان پر کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ گزشتہ 4 سال سے رکا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نہ ہی سندھ طاس معاہدہ کے تحت سالانہ میٹنگ کررہا ہے اور نہ ہی دریائوں سے متعلق ڈیٹا پاکستان کے ساتھ شیئر کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان ترکی بہ ترکی جواب دے گا، اسحاق ڈار
شیراز میمن نے کہا کہ بھارت اس وقت پاکستان کا پانی روک ہی نہیں سکتا ہے کیوں کہ اس کے لیے بھارت کو بڑے ڈیم بنانے ہوں گے جس میں کئی سال کا وقت لگ سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب سے معاہدے کی معطلی کے اعلان کے خلاف پاکستان ورلڈ بینک سے بھی رجوع کر سکتا ہے جس سے پاکستان کو ریلیف مل ہی جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت بھارت کے انتہا پسند اقدامات پاکستان سندھ طاس معاہدہ شیراز میمن