افغانستان میں جیلوں سے دہشت گرد کمانڈرز کو چھوڑا گیا، وزیر اعلیٰ بلوچستان
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جیلوں سے دہشت گرد کمانڈرز کو چھوڑا گیا، خوارج اور بی ایل اے کے لوگ مل کر آپریٹ کررہے ہیں۔
اسلام آباد میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ خوارج اور بی ایل اے نظریاتی طور پر نہیں ملتے لیکن ان کو اکٹھا کیا گیا، ان کے ہینڈلرز اور اسپانسر ایک ہی ہیں، ہم نے افغانوں کو پناہ دی، بی ایل اے افغان سرپرستی میں پل رہی ہے، افغانستان اپنی زبان پوری نہیں کررہا اور کسی دوسرے کی پراکسی بنے ہوئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ دہشت گردوں کا ہماری روایات اور حقوق سے کوئی تعلق نہیں، یہ نہیں ہوسکتا کہ روزگار اور بجلی نہیں ہوگی تو پہاڑوں پر چڑھ جائیں گے۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ ان دہشت گرد گروپوں کا اتحاد بھارتی خفیہ ایجنسی را نے کر وایا ہے، بلوچ گروپوں کے آپس میں بھی اختلافات ہیں، ان کا اتحاد کس نے کروایا؟ ہمارے پاس ثبوت ہیں، دہشت گردی کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی جاتی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز میں وہ صلاحیت ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کو ختم کردے، ان سب دہشت گردوں کی نانی بھارتی خفیہ ایجنسی را ہے۔
یہ بھی پڑھیے جعفر ایکسپریس حملے کا مین اسپانسر مشرقی پڑوسی ملک ہے: ڈی جی آئی ایس پی آر وزیراعظم اور آرمی چیف کی کوئٹہ میں جعفر ایکسپریس حملے میں زخمی ہونے والوں کی عیادت جعفر ایکسپریس حملہ، شہداء کی میتیں اور زخمی مچھ ریلوے اسٹیشن پہنچا دیے گئےسرفراز بگٹی نے کہا کہ کیا صرف پاکستان میں مسنگ پرسنز ہیں؟امریکا، برطانیہ سمیت خطے کے دیگر ممالک میں بھی مسنگ پرسنز ہیں، خیبر پختونخوا اور دیگر علاقوں میں بھی لاپتا افراد کا معاملہ ہے، بلوچستان کے لاپتا افراد کے مسئلے کو اجاگر کرنے کا مقصد پروپیگنڈا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی پامالی دہشت گرد کر رہے ہیں، یہ ناراض بلوچ نہیں دہشت گرد ہیں، ایک خاص قسم کے بیانیے کی وجہ سے لوگ کنفیوز ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ سیکیورٹی فورسز بلوچستان کے کل کو محفوظ کرنے کے لیے اپنا آج قربان کر رہی ہیں، سیکیورٹی فورسز بلوچستان میں قربانیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: وزیر اعلی نے کہا کہ
پڑھیں:
وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو آبادکاری میں عالمی توجہ کی ضرورت
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 09 اگست 2025ء) افغانستان میں ہمسایہ ممالک سے واپس آنے والے لاکھوں لوگوں کو سرحد پر انسانی امداد دی جا رہی ہے لیکن انہیں زندہ رہنے کے لیے عالمی برادری سے بڑے پیمانے پر مزید مدد کی ضرورت ہے۔
پائیدار آبادیوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ہیبیٹٹ' کی افغانستان میں پروگرام مینیجر سٹیفنی لوس نے جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اور پاکستان سے واپسی اختیار کرنے والے افغانوں کو معاشرے میں دوبارہ ضم ہونے کے لیے عملی تعاون درکار ہے جو اپنے گھر، اثاثے اور امید کھو چکے ہیں۔
ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس افغانستان میں رہائش کے لیے کوئی جگہ نہیں کیونکہ وہ کبھی اس ملک میں نہیں رہے۔ واپس آنے والوں میں 60 فیصد کی عمر 18 سال سے کم ہے۔
(جاری ہے)
ان لوگوں کے افغانستان میں کوئی سماجی تعلقات یا رابطے نہیں ہیں جس کی وجہ سے انہیں زندگی دوبارہ شروع کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
افغانستان کو مہاجرین اور پناہ گزینوں کی واپسی کے غیرمعمولی بحران کا سامنا ہے۔
ستمبر 2023 کے بعد پاکستان اور افغانستان میں رہنے والے 30 لاکھ افغان ملک بدر کر دیے گئے یا انہوں نے رضاکارانہ واپسی اختیار کی ہے۔ ان میں 20 لاکھ سے زیادہ لوگ رواں سال ملک میں آ رہے ہیں جن میں بعض لوگوں کے لیے یہ واپسی نہیں بلکہ نیا آغاز ہو گا۔افغانستان کو معاشی، موسمیاتی اور انسانی حقوق کے بحرانوں کا سامنا ہے جہاں دو کروڑ 29 لاکھ لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
سٹیفنی لوس نے بتایا کہ طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم، نوکریوں اور حقوق پر پابندیوں کے باعث واپس آنے والوں کو سنگین مسائل درپیش ہیں۔ یہ خواتین اور لڑکیاں ایسے ملک میں واپس جا رہی ہیں جہاں 12 سال سے زیادہ عمر کی کوئی لڑکی تعلیم حاصل نہیں کر سکتی۔ ان کے لیے نہ تو کوئی سماجی مواقع ہیں اور نہ ہی وہ معاشی ترقی کر سکتی ہیں۔
واپس آنے والوں میں بہت سے گھرانوں کی کفالت خواتین کے ذمے ہے۔ تاہم افغانستان میں خواتین کو محرم کے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں اور طبی مقاصد کے لیے بھی انہیں اپنے مرد سرپرست کی ضرورت رہتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا ہے کہ افغانستان میں نازک سیاسی، معاشی اور سماجی صورتحال کے باعث ان لوگوں کی مقامی معاشرے سے جڑت مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔
ملک کا شمار موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثرہ 10 ممالک میں ہوتا ہے۔ خشک سالی، سیلاب اور شدید گرمی کی لہروں کے باعث دیہی گھرانوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ ان قدرتی حوادث کے باعث شہروں کی غیررسمی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں کو بھی خطرہ ہے جبکہ 80 فیصد شہری آبادی انہی لوگوں پر مشتمل ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ زندگیوں کی بحالی کے لیے انسانی امداد سے بڑھ کر وسائل درکار ہیں۔
لوگوں کو پانی سے لے کر صحت و صفائی کی سہولیات تک بہت سی بنیادی خدمات درکار ہیں۔ انہیں روزگار کے مواقع اور باوقار انداز میں اپنے گھرانوں کی کفالت کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔عالمی برادری سے اپیلسٹیفنی لوس نے کہا ہے کہ بڑی تعداد میں ملک واپس آنے والے ان لوگوں کو مقامی معاشرے کا حصہ بنانے کے لیے عالمی برادری اور افغان حکام کی جانب سے بڑے پیمانے پر اقدامات درکار ہیں،
یہ افراد کے لیے انسانی بحران ہے لیکن یہ منظم، مقامی سطح پر اختیار کردہ طریقہ ہائے کار اور خدمات، بنیادی ڈھانچے، رہائش اور روزگار کے مواقع کا تقاضا کرتا ہے۔
انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان اور اس کے لوگوں بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کو نظرانداز نہ کرے اور ان کے لیے حسب ضرورت وسائل کی فراہمی یقینی بنائے تاکہ وہ باوقار زندگی گزار سکیں۔