Express News:
2025-04-25@02:38:27 GMT

چینی کی قیمت، پیداوار اور برآمدات

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

بات دراصل یہ ہے کہ چینی کے بغیر ہمارا گزارا نہیں اور رمضان المبارک اور عیدالفطر کے موقعے پر چینی کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ چینی کے طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیں اور ہمارے ملک میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کا ایک اہم ترین اور سدا بہار ذریعہ مٹھائی کی دکانیں ہیں اور اگر جس ماہ ملک بھر کی مٹھائی کی دکانوں کی سیل بڑھ جاتی ہے تو سمجھیں کہ ملک میں خوشحالی نے آنا شروع کردیا ہے اور اگر فروخت میں کمی ہو جائے، مٹھائیوں کی طلب میں کمی ہونی شروع ہو جائے تو سمجھ لیں کہ لوگوں کی جیب سے پیسے اِدھر اُدھر سرک گئے ہیں۔

چینی سے بنی ہوئی سوغات کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں مشہور ہے۔ مثلاً ملتان کا حلوہ اور چکوال کی پہلوان ریوڑی اور دیگر مٹھائیاں وغیرہ۔ چکوال کی پہلوان ریوڑی نے تو بہت جلد دنیا میں اپنا نام کما لیا ہے۔ چھپڑ بازار سے آم کے جوس کی دکان سے شروع ہو کر ایک کارخانہ ریوڑی بنانے کا اور پھر یہ کاروبار چکوال کی ریوڑیاں کے حوالے سے دنیا بھر میں پھیل گیا۔ اسی طرح تلہ گنگ کا صبونی حلوہ اور خوشاب کا ڈھوڈہ پتیسہ اور کراچی کا سوہن حلوہ، گوجرانوالہ کی برفی، حیدرآبادی ربڑی وغیرہ وغیرہ۔

پاکستان بننے کے بعد کئی عشروں تک چینی کی راشن بندی کی جاتی تھی اور غالباً 1968 تک 10 آنے فی سیر چینی مل جایا کرتی تھی۔ پھر اس کی راشن بندی ہونے لگی۔ 1975 میں 2 روپے60 پیسے فی کلو چینی راشن کی دکانوں سے مل جایا کرتی تھی وہ بھی راشن کارڈ دیکھ کر فی گھرانے کو 3 ،4 یا پانچ کلو چینی فراہم کرتے تھے۔ 1980 کی دہائی سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر چینی کے کارخانے لگتے چلے گئے، اب بتایا جاتا ہے کہ ان کی تعداد 84 ہے۔ پاکستان میں گنے کی وافر مقدار میں پیداوار بھی ہوتی ہے۔ چند سالوں سے اوسطاً 8 کروڑ ٹن تک ہے۔

اللہ رب العالمین نے پاکستانیوں کو ان کی من پسند خوراک چائے، مٹھائی، حلوہ جات، شیر خورمہ اور دیگر بہت سی میٹھی اشیا بنانے کے لیے اس ملک کو گنے اور چینی کی پیداوار میں خودکفیل بنایا ہے۔ البتہ بعض اوقات حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کی ناکامی، غیر مناسب منصوبہ بندی اور غلط اندازے اور موسمی حالات کے باعث گنے کی پیداوار میں کبھی کمی بھی ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود چینی کی پیداوار اتنی ہو جاتی ہے کہ اگر ذخیرہ اندوزی نہ کی جائے، اسمگل نہ کردی جائے تو چینی کی پیداوار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ملکی کھپت پوری ہو جاتی ہے۔ ایسے میں چینی ریٹ کنٹرول کرنے کی حکومت کو ضرورت ہی نہ رہے۔

 پاکستان گنے کی پیداوار کے لحاظ سے اکثر دنیا میں پانچویں نمبر پر براجمان رہا ہے۔ اس کی فی ایکڑ گنے کی پیداوار اوسطاً 500 من ہے کہیں 1000 اور 12 سو من بھی ہے جب کہ دنیا کی اوسطاً پیداوار فی ایکڑ 600 من سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ پاکستانی پنجاب سے جڑے بھارتی پنجاب میں فی ایکڑ گنے کے علاوہ بھی ہر پیداوار پاکستان سے کہیں بہت زیادہ ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں کسان کو فی من گنے کی ادائیگی 6 سو سے 7 سو روپے کی جا رہی ہے اور ہندوستان میں ریٹ زیادہ دیے جاتے ہیں۔

اب پیداوار پر نظر ڈالتے ہیں 2021-22 میں سب سے زیادہ پیداوار حاصل ہوئی یعنی 8 کروڑ86 لاکھ 51 ہزار ٹن، 2018-19 میں پیداوار 5 سال میں سب سے کم تھی 6 کروڑ10 لاکھ ٹن۔2020-21 میں 8 کروڑ10 لاکھ ٹن۔ اب تسلسل اس بات پر ہے کہ تقریباً 8 کروڑ ٹن کے لگ بھگ گنے کی پیداوار اور چینی کی پیداوار اس سیزن میں جوکہ فروری تک اختتام کو پہنچا ہے 58 لاکھ ٹن چینی کی پیداوار ہوئی ہے۔ گنے کی فی ایکڑ پیداوار کے حساب سے سندھ اول نمبر پر ہے پھر پنجاب۔ پاکستان اپنی گنے کی پیداوار کا 75 فی صد چینی پیدا کرتا ہے۔ اس مرتبہ کہا جا رہا ہے کہ گنے کی پیداوار میں 15 فی صد کمی ہوئی ہے۔

اگرچہ چینی کی پیداوار تو کم نہیں ہے لیکن کارخانے دار چینی فروخت کرنے کے بجائے اس کو اسٹورکرنے میں دلچسپی بھی لے رہے ہیں۔ اب اس کا کیا فائدہ ہوگا۔ بات یہ ہے کہ نئے کرشنگ کے آغاز میں 8 ماہ درمیان میں حائل ہیں، اگر اسٹاک کو روک لیتے ہیں تو ایک طرح کی غیر حقیقی قلت پیدا ہو جائے گی۔ مارکیٹ میں چینی کی کمی سے اس کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا، گزشتہ کئی مہینوں سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔پاکستان کو چینی کا ایک بڑا خریدار ملک بنگلہ دیش حال ہی میں ملا ہے اور گزشتہ دنوں وہاں کی بندرگاہ چٹاگانگ میں 26 ہزار میٹرک ٹن چینی لے کر 53 سال بعد پہلا پاکستانی بحری جہاز لنگرانداز ہو چکا تھا۔

گنے کے علاوہ پاکستان میں چقندر سے بھی چینی بنائی جاتی ہے اور اس سال ایک لاکھ ٹن چینی بنائی گئی۔ کل چینی کی پیداوار 59 لاکھ ٹن پاکستانی صارفین کی ضرورت کے لیے ناکافی نہیں ہے، اس کے ساتھ کچھ مقدار برآمد کرکے چینی کے برآمدی ممالک میں اپنا نام لکھوائے رکھ سکتے ہیں۔ ان تمام کے باوجود اگر اس کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے، مارکیٹ میں چینی کی کمی یا شارٹیج ہو رہی ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ گنے کی پیداوار کم ہوئی ہے یا چینی کی۔ اصل وجہ کچھ اور ہے اور وہ ہے ناجائز منافع کمانا، ذخیرہ اندوزی کرنا، مصنوعی قلت پیدا کر کے فی کلو قیمت میں مسلسل اضافہ کیے جانا۔ لہٰذا حکومت چینی کی قیمت کو پچھلی سطح پر لے جانے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: چینی کی پیداوار گنے کی پیداوار پاکستان میں فی ایکڑ لاکھ ٹن جاتی ہے کی قیمت ہو جائے چینی کے رہا ہے ہے اور

پڑھیں:

سلیکٹڈ حکومتیں قوم پر مسلط کی جاتی ہیں، مولانا فضل الرحمان

ریاست سے وفاداری اسٹیبلشمنٹ کی ذمہ داری ہے ، اسے پسند وناپسند کا اختیار نہیں
اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ نہیں ، قوم کو شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کی ضرورت ہے

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت مکمل ناکام ہو چکی ہے اور عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔ ہماری شکایت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مداخلت کیوں کرتی ہے اور وہ نتائج کیوں تبدیل کرتی ہے ، حالانکہ فوج یا اسٹیبلشمنٹ ریاست کے تحفظ کے لیے ہے اور ریاست سے وفاداری اسٹیبلشمنٹ کی ذمہ داری ہے ، اسے پسند وناپسند کا اختیار نہیں ہے ۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ملک ہے اور حیثیت ایک قابض ملک کی ہے ، جمعیت علمائے اسلام فلسطین کی جدوجہد آزادی کی حمایت جاری رکھے گی۔انہوں نے کہا کہ کیا کوئی ملک بے گناہ عورتوں اور بچوں کو شہید کرتا ہے ، کیا کبھی ملک دفاعی طور پر بے گناہ شہریوں کو شہید کرتا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ 27؍اپریل کو لاہور میں بہت بڑا ملین مارچ ہوگا، پنجاب کے عوام فلسطینی بھائیوں کے حق میں آواز بلند کریں گے اور ایک قوت بن کر سامنے آئیں جو امت مسلم کی آواز ہوگی، 11؍مئی کو پشاور اور 15 ؍مئی کو کوئٹہ میں غزہ کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ملین مارچ ہوگا۔سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ پاکستانی عوام خاص طور پر تاجر برادری مالی طور پر جہاد میں شریک ہوں، سیاسی طور اس جہاد میں عوام کی پشت پر کھڑا ہوں گا، ہم ان کی آزادی کے لیے اپنی جنگ اور جدوجہد جاری رکھیں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں خاص طور پر بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں بدامنی کی صورتحال ناقابل بیان ہے ، کہیں پر بھی حکومتی رٹ نہیں ہے اور مسلح گروہ دنداتے پھر رہے ہیں اور عام لوگ نہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکتے ہیں اور نہ مزدوری کرسکتے ہیں جب کہ کارباری طبقہ بھی پریشان ہے کہ ان سے منہ مانگے بھتے مانگے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کی کارکردگی اب تک زیرو ہے ، وہ کسی قسم کا ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ، ہماری جماعت اس مسئلے کو بھی اجاگر کررہی ہے ، ہمارا یہ موقف ہے کہ حکومتی اور ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکے ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ دھاندلی کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتیں چاہے وفاق میں ہو یا صوبے میں، وہ عوام کے مسائل کے حل اور امن وامان کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر مسترد کردیا تھا اور 2024 کے الیکشن پر بھی ہمارا وہی موقف ہے ، ہم ان اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے ، اس بات پر زور دے رہے ہیں، قوم کو شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کی ضرورت ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر مسلسل عوام کی رائے کو مسترد کیا جاتا ہے اور من مانے نتائج سامنے آتے ہیں اور سلیکٹڈ حکومتیں قوم پر مسلط کی جاتی ہیں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ اگر صوبوں کا حق چھینا جاتا ہے تو ہم صوبوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور اپنے پلیٹ فارم سے میدان میں رہے گی، البتہ آئے روز کے معاملات میں کچھ مشترکہ امور سامنے آتے ہیں اس حوالے سے مذہبی جماعتوں یا پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سے ملکر اشتراق عمل کی ضرورت ہو، اس کے لیے جمعیت کی شوریٰ حکمت عملی طے کرے گی۔ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا اب تک کوئی باضابطہ کوئی موثر اتحاد موجود نہیں لیکن ہم باہمی رابطے کو برقرار رکھیں گے تاکہ کہیں پر بھی جوائنٹ ایکشن کی ضرورت پڑے تو اس کے لیے راستے کھلے ہیں اور فضا ہموار ہے ۔انہوں نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل خیبرپختونخوا میں پیش کیا جانا ہے اور بلوچستان میں پیش کیا جاچکا ہے اور شاید پاس بھی ہوچکا ہے ، جمعیت علمائے اسلام کی جنرل کونسل نے اس کو مسترد کردیا ہے ، بلوچستان اسمبلی میں ہمارے کچھ پارلیمانی ممبران نے بل کے حق میں ووٹ دیا، ان سے وضاحت طلب کرلی گئی ہے اور ان کو شوکاز نوٹس بھی جاری کردیا گیا ہے اگر ان کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے تو ان کی رکنیت ختم کردی جائے گی۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اصول تو یہی ہے کہ الیکشن آزاد اور شفاف اور الیکشن کمیشن کے انتظام کے تحت ہونے چاہیے لیکن شکایت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیوں مداخلت کرتی ہے ، وہ کیوں نتائج تبدیل کرتی ہے ، وہ انتخابی عملے کی تبدیلیاں اپنی مرضی سے کیوں کرتی ہے ، الیکشن کمیشن کو کیوں لسٹ مہیا کرتی ہے کہ فلاں کو

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں سالانہ 200 انڈے دینے والی مرغیوں کی نئی نسل تیار
  • نواز شریف طبی معائنے کے بعد لندن سے پاکستان کے لیے روانہ
  • اوپیک پلس ممالک کا پیداوار بڑھانے کے پیش نظر تیل کی قیمتوں میں 2 فیصد کمی
  • سلیکٹڈ حکومتیں قوم پر مسلط کی جاتی ہیں، مولانا فضل الرحمان
  • احتجاج کے باعث ہائی ویز کی بندش سے ملکی برآمدات کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے؛ ایس ایم تنویر
  • پاکستان کو 2030ء تک برآمدات کو 100 ارب ڈالرز تک لے جانے کا ہدف ہے: احسن اقبال
  • ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ 34.37 فیصد بڑھ کر 8.467 ارب ڈالر ہو گیا
  • آئی ایم ایف نے پاکستان کی خام ملکی پیداوار کی شرح نمو کے تخمینے میں کمی کردی
  • جولائی 2024سے 2025: ٹیکسٹائل برآمدات میں 9.38فیصد : درست معاشی پالیسیوں کا ثبوت ‘ وزیراعظم 
  • پاکستان میں عطیہ چشم کا فقدان، سری لنکا کی فیاضی