آفتاب احمد خانزادہ
ہر انسا ن کے اندر ایک کامیاب ، دانش مند اورعقل مند انسان قید ہوتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی انسان اپنے اندر قید اس انسان کو کیسے آزادی دلواسکتاہے۔
آئیں پہلے سقراط کاایک قصہ پڑھتے ہیں سقراط کاباپ سو فرونس کس ایک نامور سنگ تراش تھا ۔گھر کے صحن میں جب بھی اس کا باپ کا م کرتا تھا تو وہ اس کا ہاتھ بٹا تا تھا ۔خاصے عرصے تک سقراط صرف تراش خراش کے ابتدائی کام کرتا رہا۔ ابتدائی مشق کے لیے سنگ مرمر جیسی قیمتی چیز کو ضائع نہیں کیاجاسکتا تھا ۔اس لیے سطح کے ہموار ہوجانے کے بعد جب اصل کام شروع ہوجاتا تو سقراط کابا پ خود کام کرنے لگتا اور سقراط ایک ایک کرکے اسے اوزار دیتا رہتا اورکام کو غور سے دیکھتا رہتا ۔ایک مرتبہ ایک فوارے کے منہ کے لیے ایک شیر کا سر بناناتھا۔ سو فر ونس کس نے سنگ مر مر کا ایک ٹکڑا لیااورا س پر کا م شروع کردیا۔ سقراط نے اپنے باپ سے پوچھا کہ آپ کو یہ اندازہ کس طرح ہوتا ہے کہ تیشہ کہاں کہاں رکھیں اور اس پر کتنی سخت چوٹ لگا ئیں تو وہ انتہائی کو شش کے باوجود صحیح جواب نہیں دے سکا ۔اس نے کہا ” یوں سمجھو کہ سب سے پہلے تمہیں شیر پتھر میں دیکھنا پڑتا ہے پھر یوں محسو س کرو کہ شیر سطح کے نیچے قید ہے وہ تمہارا منتظر ہے اور تمہیں اسے آزاد کرنا ہے ،اب جتنی اچھی طرح تم شیر کو دیکھ سکو اتنے ہی یقین کے ساتھ تمہیں یہ بات معلوم ہوگی کہ تمہیںتیشہ کہاں رکھنا چاہیے اور کتنی سخت چوٹ لگانی چاہیے۔ سقراط نے اپنے باپ کی اس بات پر بہت غور کیا اور اس موقع پر اسے اپنی ماں کی کہی ہوئی ایک بات یادآئی ۔وہ دائی کے کام میں بہت ماہر سمجھی جاتی تھی ۔سقراط نے اس سے پوچھا تھا ماں تم یہ کام کس طرح کر لیتی ہو ” اس نے جواب دیا تھا ”میں ،خود کچھ بھی نہیں کرتی میں تو بچے کے آزاد ہونے میں معاون ہوتی ہوں ”۔
یادرکھیں !اگر آپ اپنے آپ کو اپنے آپ سے آزاد نہیں کریں گے اور اپنے آپ کو دریافت نہیں کریں گے تو پھر آپ اپنے آپ کو تھوڑا تھوڑا کرکے کھاتے رہیں گے اور پھر ایک دن آپ کے اندر قید کامیاب ، خوشخال ،دانش مند اورعقل مند انسان آپ کے ساتھ ہی مرجائے گا ، وہ انسان اپنے جنم لینے سے پہلے ہی مرجائے گا۔ ” ہر چیز ممکن ہے یقین ہی ان چیزوں کی اصل حقیقت ہے جن کی ہم امید کرتے ہیں ان چیزوں کا ثبوت ہے جو دکھائی نہیں دیتیں ” ۔ہنری فورڈ کی سوانح عمری اس مختصر اور انتہائی رجائیت پسندانہ فارمو لے پر ختم ہوتی ہے ۔یہ آخری الفاظ ایک قسم کاروحانی ترکہ ہیں اور اس نے یقین کے بارے میں جو کہا ہے وہ قطعاً کوئی اتفاقیہ کہی گئی بات نہیں ہے۔ اس کی تمام زندگی اور کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ غیر متزلزل یقین کے حامل شخص کے لیے سب کچھ کرنا ممکن ہے۔ کیا آپ نے حال ہی میں کوئی یخ بستہ جمی ہوئی مچھلی دیکھی ہے کیا آپ نے کبھی اس مچھلی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے باتیں کرنے کی کوشش کی ہے ۔اگر نہیں تو پھر آپ اپنے نزدیکی مچھلی بازار میں دوڑتے ہوئے جائیے اور اس یخ بستہ مچھلی کا انتخاب کیجئے جو آپ کوبہت اچھی معلوم ہوتی ہے اور اسے خرید کر گھر لے آئیے اس یخ بستہ مچھلی کو پھر اپنے ہاتھ میں تھا م لیجیے اس کی آنکھوں میں دیکھئے اور جہاں تک ممکن ہو اس سے باتیں کرنے کی کو شش کیجئے اپنے آپ اور اس یخ بستہ مچھلی کے درمیان آنکھوں ہی آنکھوں کے ذریعے تعلق قائم کرنے کی کو شش کیجئے تاکہ آپ کے اندر موجود آپ کی ذات کا یخ بستہ مچھلی کے ساتھ بامقصد ذاتی تعلق استوار ہوجائے اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو آپ کو اس کی جانب سے یہ پیغام ملے گا کہ ” ایک یخ بستہ مچھلی کی مانند نہ بنیے ” آپ پیدا ہی اس لیے ہوئے تھے کہ آپ کو کامیابی و کامرانی نصیب ہولیکن پھر بھی لوگ ناکام ہوجاتے ہیں کیوں ؟ ان کی ناکامی میں یقینا فطرت کا کوئی قصور نہیں کیونکہ فطرت ہر حال میں انسان کے لیے کامیابی چاہتی ہے اور جب انسان اپنی مرضی اور خو اہش کے مطابق کامیابی اور کامرانی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی تمنا فطری قانو ن و اصول کے عین مطابق ہے ،لوگ صرف اس لیے ناکام ہوجاتے ہیں اورکامیابی و کامرانی حاصل نہیں کر پاتے کیونکہ وہ اپنے آپ کے اندرکے انسان کو ساری عمر قید رکھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ سے ملاقات ہی نہیں کرپاتے ہیں۔ اپنے آپ کو پہچان ہی نہیں پاتے ہیں۔ ایک مشہور کہاوت کے مطابق ” جب ایک طالب علم حصول تعلیم کے لیے آمادہ اور تیار ہوجاتا ہے تو استاد بھی فوراً آن موجود ہوتا ہے ”۔ اس لیے آپ فوراً رونا دھونا بند کردیجئے اپنے نصیبوں کو برابھلا کہنا فوراً روک دیجئے اور ساتھ ہی ساتھ ساری دنیا کی برائیاں کر نا فوراً چھوڑ دیجئے کیونکہ آپ کی ناکامی ، بدحالی ، غربت افلاس ، بے اختیاری کا سار اقصور نہ تو آپ کے نصیبوں کا ہے اور نہ ہی آپ کی قسمت خراب ہے ،ان تمام ناکامیوں کے آپ ہی اکلوتے ذمہ دار ہیں۔ اس لیے یہ رونا دھونا ، چیخنا چلانا ، دہائیاں دینا اور کوسنا آخرکیوں ، کیا آپ معذور ہیں، محتاج ہیں، بیمار ہیں، اپاہج ہیں، کیاآپ ہی صرف بغیر صلاحیتوں اور قابلیتوں کے پیدا کیے گئے ہیں ۔کیا آپ کو کسی نے زنجیروں میں جکڑرکھا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اپنے آپ کو لعنت ملامت کیجئے۔ اپنے آپ کو شرمندہ کیجیے، امریکہ ، روس ، فرانس اور دیگر ممالک کے لوگوں کی حالت تو ہم سے کہیں زیادہ بد ترین تھی لیکن انہیں اس بات پر یقین تھا کہ فطرت ہر حال میں ان کی کامیابی و کامرانی چاہتی ہے ۔
بہت عرصے پہلے ایک بہت ہی کمزور ، معذور بچہ ایلیس ہوتا تھا، وہ اس قدر غریب تھا کہ وہ اور اس کے اہل خانہ اکثر بھوک کا شکار رہتے تھے اور انہیں کھانے کے لیے کوئی چیز بھی میسر نہ ہوتی تھی اس نے سینے کی مشین ایجاد کی لیکن کوئی شخص بھی اسے خریدنے کے لیے تیار نہ تھا ،اس کی تجربہ گاہ میں آگ لگ گئی، اس کی بیوی فوت ہوگئی لیکن وہ پھر بھی مسلسل کو شش کرتا رہا اور بالا آخر اپنی یہ مشین بیچنے میں کامیاب ہوگیااور پھر ایلیس محض بارہ سال کے اندر کروڑ پتی بن گیا۔ عظیم سائنس دان اور برقی سائنس کاموجد ایک غریب لوہار کا بیٹاتھا ۔اس عظیم سائنس دان کا نام مائیکل فراڈے تھا۔ ایلس فوٹی میک ڈوگال خاتون نیو یارک کے ریلو ے اسٹیشن پر کافی اور بسکٹ فروخت کیاکرتی تھی پھر ایک دن اس نے پچاس لاکھ ڈالر مالیت پر مشتمل بے شمار ریسٹوران قائم کیے۔ سٹیوارٹ نیویارک آیا تو اس کی جیب میں صرف ڈیڑھ ڈالرتھے اور محنت کے بعد جلد ہی کروڑوں پتی بن گیا۔ اینڈر یو جیکسن اور اور ابراہم لنکن دونوں امریکہ کے عظیم صدور تھے۔ ابتدائی زندگیوں میں یہ دونوں اشخاص انتہائی غریب تھے۔ اولیسس ایس گرانٹ ابتدا ء میں ایک کاروباری فرد کی حیثیت سے ناکام ہوگیا۔ 39سال کی عمر میں وہ ایندھن کے لیے استعمال کر نے کے لیے لکڑیاں کاٹتاتھا اور پھر صرف 9سال بعد ہی وہ امریکہ کا صدر بن گیا۔ مصطفی کمال ترکی فوج میں ایک عام سپاہی تھا جو ترکی کا حکمران بن گیا ۔رضاشاہ ایرانی فوج میں ایک ادنیٰ رنگروٹ تھا جو بعد میں ایران کا شہنشاہ بنا ۔جو لیس سیزر مرگی کا مریض تھا جس نے معلوم دنیا فتح کر ڈالی تھی۔ دیماس تھینز ہکلا کر بولتا تھا لیکن وہ قدیم یونان کا ایک عظیم خطیب اور مقرر بنا ۔فرینکلن دی روز ویلٹ بچپن میں فالج کا شکار ہوگیا تھا لیکن سخت محنت کے باعث امریکہ کا صدر بنا ۔
اگر آپ اب بھی اپنے اندر قید کامیاب ، خوشحال، دانشمند اورعقل مند انسان کو رہائی دلوانے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر آپ کے لیے دعائیں بھی بے اثر رہیں گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ہوجاتے ہیں اپنے آپ کو نہیں کر ہوتا ہے کے اندر کیا آپ ہے اور بن گیا اور اس کے لیے اس لیے تو پھر
پڑھیں:
جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟
عطاء اللہ ذکی ابڑو
آپ شرابی کے ساتھ چند منٹ گزاریں آپ محسوس کریں گے کہ زندگی بہت آسان ہے ، فقیروں، سادھوؤں یا سنیاسی بابوں کے پاس چلے جائیں ،آپ کو اپنا سب کچھ کسی کو تحفے میں دینے کی خواہش جاگے گی؟ کسی لیڈر سے مل لیں آپ محسوس کریں گے کہ آپ نے اتنا کچھ پڑھ کرابتک جھک ہی ماری ہے ؟ لائف انشورنس ایجنٹ کے سامنے چند منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ مرنا کتنا سود مند ہے ؟ تاجروں کی سنیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کی کمائی آٹے میں نمک کے برابر ہے ؟ سائنسدانوں کی تحقیق دیکھیں گے تو آپ کو اپنی لاعلمی کا احساس ہوگا؟ ایک اچھے استاد سے ملیں گے تو آپ کو دوبارہ طالب علمی کا شوق جاگے گا ؟ غرض کہ آپ جیسی عینک پہنیں گے ویسا ہی آپ کو دکھائی دینے لگے گا ؟ وقت کا یہی تقاضا جو اس واقعے پر بھی پورا اترتا ہے ؟جسے آج آپ کے سامنے پیش کرنے جارہا ہوں ۔یہ واقعہ کوئٹہ کے نواحی گاوں ڈیگاری میں جون کے مہینہ میں پیش آیا، 37 سالہ خانو بی بی اور احسان اللہ نامی لڑکے کی سوشل میڈیا پر ایک جرگہ کے ہاتھوں قتل کی وڈیو وائرل ہوتے ہی ٹی وی پرچند ٹکرز چلے ، خبر گرم ہوئی اورہم نے اسے حقیقت مان کر بنا کچھ سوچے ،سمجھے اس واقعہ کو اپنے اپنے نظریہ سے پرکھنا شروع کردیا کسی نے اس ادھوری کہانی کا پورا سچ جاننے کی جستجو ہی نہیں کی؟ کہتے ہیں آدھا سچ پورے وجود کو برباد کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح اس واقعے کا بھی پورا سچ سامنے آنا ابھی باقی ہے ؟ تن تنہا بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں کے بیچ کھڑی نہتی لڑکی اورصرف اس کا آشنا ہی جرگے والوں کی بندوقوں کا نشانہ نہیں تھے دونوں کے قتل کی خبرسننے کے لیے اس کے پیچھے دو قبائل بانو اوراحسان اللہ کی موت کے منتظرتھے۔ اب یہ صرف ایک اکیلی خانو بی بی کی زندگی کا سوال نہیں تھا۔ اس کے پیچھے دونوں قبائل کے لوگوں کی زندگی داؤ پرلگی تھی اس لیے خانو نے ہنسی خوشی بندوق کی گولی سینے سے لگانے کو اپنے لیے تمغہ سمجھا اوراسے گلے لگاکر اپنے قبیلے کے کئی پیاروں کی زندگی بچالی ۔جی ہاں اس کڑی دھوپ تلے تپتے صحرا میں اکیلی خانو بی بی نہیں کھڑی تھی اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچوں،بھائی، بہن،ماں اورباپ سمیت خاندان کے ایک ایک فرد کا چہرہ سامنے تھا جن کا قرض چکانے اپنے گھر کی دہلیز سے اس صحرا تک آئی تھی ؟ اورہاں شاید یہ اس کے عشق کا امتحان تھا ؟ وہ پہلے سے اپنے عقد میں ایک شوہراورکئی بچوں کو گھر میں اکیلا چھوڑ کراحسان کے ساتھ آئی تھی ؟ خانو پریہ بھی الزام تھا کہ وہ تین ماہ سے اپنے عاشق احسان اللہ کے ساتھ بغیر کسی نکاح کے یعنی کسی بھی ازدواجی تعلق کے بغیر شریعت کے حکم کی نفی کرتے ہوئے دن، رات بسرکررہی تھی ۔خانو اپنے اس عشق کے امتحان میں تو پوری اتر گئی مگر اپنے پیچھے اپنے مجازی خدا،پھول سے کھیلتے پانچ بچوں،ماں، باپ، بہن ،بھائی اوراپنے عاشق کی پہلی بیوی جس سے چار بچے بھی ہیں ۔اس کے قبیلے والوں کو بھی ساری زندگی کے لیے کڑے امتحان میں ڈال گئی؟
خانو نے جرگہ کا فیصلہ تو سنا تھا مگر لگتا ہے وہ آج بھی اپنے دل کے فیصلے پراٹل تھی؟ کیونکہ خانو نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بندوق اٹھائے جرگہ کے کارندوں کو للکارا اورانہیں اپنی زبان میں کہا کہ ( صرسم ائنا اجازت اے نمے ) تمہیں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ؟ یعنی وہ کہہ رہی تھی کہ خبردار یہ جسم اب اس کے محبوب کی امانت ہے بعد مرنے کے اس کی بے حرمتی نہ کرنا؟ ڈیگاری کے صحرا میں خانو پر بندوقیں تانے کھڑے جرگہ کے کارندے 37سالہ خانو کو موت کے گھاٹ اتارنے کا یہ اقدام نہ اٹھاتے تو پیچھے احسان اللہ کا قبیلہ خانو بی بی کے پورے قبیلے کو موت کی گھاٹ اتارنے کے لیے گھات لگائے بیٹھا تھا؟ یہی وجہ تھی کہ خانوکے کنبے والوں نے ایک اکیلی لڑکی کو قبیلے کی بھینٹ چڑھاکر پہ در پہ سات گولیاں چلاکرکا اسے مٹی کا ڈھیر بنادیا؟ لاش کیلئے گڑھا کھودا اورخانو کو اسی صحرا کی مٹی کے سپرد کرکے چلتے بنے؟ دونوں قبائل کے سرکش لوگ شاید یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ بات منوں مٹی تلے دفن ہوگئی؟اوردونوں قبائل نے اپنا اٹل فیصلہ سناکراپنی اپنی زندگیاں بچالیں؟ یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی؟ ان کا اصل امتحان توتب شروع ہوا جب ٹھیک ایک ماہ بعد سوشل میڈیا پران کے اپنے ہی کسی گروہ کے کارندے نے اس سبق آموزواقعے کی وڈیو کو سوشل میڈیا پراپ لوڈ کردی آناً فاناً ناک پر رومال رکھ غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں کا دم بھرنے والی فلاحی تنظیمیں باہر نکل آئیں؟حکومت سمیت پورا ملک حرکت میں آگیا ۔یہ واقعہ ایک ہولناک خبربن کر سوشل میڈیا کی زینت بن چکا تھا۔ پوری دنیا میں ہمارے سماجی رویوں کی عکاسی کر رہا تھا ؟فوٹیج نے دنیا میں پاکستان کے امیج اورانسانی رویوں کوخاک میں ملادیا تھا ؟ ادھرجوڈیشری بھی حرکت میں آچکی تھی اورمجسٹریٹ نے کوئٹہ واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے مارے جانے والے دونوں لڑکے اور لڑکی کی قبر کشائی کا حکم دیا ۔جرگہ میں قتل کا حکم دینے والا سردار شیر ستکزئی سمیت 13 افراد آج ریمانڈ پر ہیں اور ان پر اے ٹی سی ایکٹ کے تحت ایس ایچ او ہنہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان جرگہ میں کیا جانے والا یہ پہلا فیصلہ تھا یا پھر حکومت پہلی بار اس فیصلے سے آشنا ہوئی ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
آج بھی کئی قبائلی جرگے ہوتے ہیں اور ان جرگہ کے فیصلوں کا حکومت کو بھی انتظار رہتا ہے کیونکہ یہ اس ملک کے کئی قبیلوں کا رسم رواج ہے، کسی قبیلے میں یہ عورت ونی کے نام پر بھیڑیوں کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہے تو کہیں کارو اور کاری غیرت کے سوال پر ابدی نیند سلادیا جاتا ہے تو کہیں اس حوا کی بیٹی کو زمینوں کا بٹوارہ بچانے کے لیے قرآن سے شادی کرنا پڑتی ہے ؟ اور جب بات پگدار کا سربچانے کی ہو تو وہ اپنی جان بخشی کے لیے اپنی جان سے پیاری کمسن بیٹی کو کسی کے باپ پر نچھاور کرتے دیر نہیں کرتے ؟ یہی پگدار سامنے والے کواپنی بیٹیاں بطور بیوی کے پیش کرکے اپنا سر بچاتے ہیں تب ان کی عزت ؟ غیرت کہاں چلی جاتی ہے ؟ یہ وہی قبائلی نظام ہے جو فاٹا میں بھی نافذالعمل تھا ،بلوچستان کے قبائل بھی اسی پر چلتے ہیں ؟ پنجاب اور سندھ میں بھی ان قبائلی سرداروں اور بھوتاروں کے آگے کسی کی ایک نہیں چلتی؟ ہمارے ملک کے حکمراں اگر ان سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداوں کی نہیں سنیں گے تو پھر یہ تخت نشیں کیسے بنیں گے ؟آج بھی اس مملکت خداد میں تین الگ الگ قانون نافذ ہیں جہاں جرگہ کے فیصلے ہوتے ہیں ،وہاں حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی ؟ اور جہاں حکومت اپنی رٹ قائم کرنا چاہتی ہے وہاں شریعت کورٹ کا قانون ہے ؟ الغرض کوئی شخص ملکی قوانین پر عمل نہیں کرتا ؟ جب ایک ریاست کے ہوتے ہوئے ایک ہی ملک میں تین الگ الگ قانون ہوں گے تو پھر اس طرح کی لاقانونیت کو کون روک سکتا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔