سابق لیجںڈری کرکٹر و سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم نے کھلاڑیوں کی جانب سے خود پر ہونیوالی تنقید پر انہیں تنازعات میں گھرنے کی اہم وجہ قرار دیدیا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سابق کرکٹر عامر سہیل اور اعجاز احمد کی ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں جس میں دونوں سابق کرکٹرز نے وسیم اکرم کی وجہ سے 1999 ورلڈکپ فائنل میں ہار کا الزام عائد کیا ہے۔

نجی ٹی وی کے انٹرویو دیتے ہوئے سابق کرکٹر عامر سہیل نے کہا کہ ورلڈکپ کے آغاز سے چند ماہ قبل بحث شروع ہوتی تھی کہ کپتان تبدیل کرکے وسیم اکرم کو کپتان بنایا جائے، جو ہوا بھی!۔ وسیم اکرم اگر پاکستان کیلئے کوئی سب سے بڑی شراکت تھی وہ یہی تھی کہ 1992 کے بعد ورلڈکپ نہ جیت سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم 1996، 1999 اور 2003 کے ورلڈ کپ آسانی سے جیت سکتے تھے، کیوں ہارے اسکی تحقیقات ہونی چاہیے تھیں، عمران خان کو وسیم اکرم کا شکر گزار ہونا چاہیے اور انہوں نے انہیں 2019 میں ہلال امتیاز سے بھی اسی لیے نوازا۔

ایک اور سابق کرکٹر و 1999 ورلڈکپ ٹیم کے بیٹر اعجاز احمد نے کہا کہ جب ہم نے ٹاس جیتا تو ایسا لگتا تھا کہ ہم نے فائنل جیت لیا ہے لیکن اس دن وسیم اکرم جو کیا وہ گلی کرکٹ کھیلنے والا بچہ بھی یہ غلطی نہیں کرتا، میں نے اس سے پہلے رات کو تیز بارش کو دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پہلے بیٹنگ نہ کرے، اگر وہ دباؤ میں تھے تو انہیں صبح ٹیم میٹنگ بلانی چاہئے تھی۔ لیکن ملاقات نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے عمران خان کو ٹاس سے پہلے دیکھا تو سلام کیا، اس وقت جب وسیم نے ٹاس جیتا اور کہا کہ پہلے بیٹنگ کرنا چاہتے ہیں، جب میں جا رہا تھا، عمران بھائی نے مجھے واپس بلایا اور کہا: ‘تم لوگ پہلے ہی میچ ہار چکے ہو،’۔

قبل ازیں رواں ماہ کے آغاز میں سابق کرکٹر محمد حفیظ کے نائنٹیز کی ٹیم کے آئی سی سی ایونٹ نہ جیتنے والے بیان کے بعد سابق کرکٹرز کے ایک دوسرے پر الزامات کا تانتا بندھ گیا۔

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی میں قومی ٹیم کی کارکردگی سے متعلق گفتگو کے دوران پینل میں شعیب اختر، محمد حفیظ، شعیب ملک اور ثنا میر موجود تھے۔

اس دوران محمد حفیظ کہا کہ نائنٹیز کی ٹیم نے پاکستان کئی میگا اسٹارز دیے تاہم انہوں نے ہمیں کوئی آئی سی سی ایونٹ نہیں جتوایا، 1996 میں پرفارمنس خاطر خواہ نہیں رہی جبکہ 1999 کے فائنل میں پہنچے اور شکست نے قوم کو جُھکا دیا۔

بعدازاں راشد لطیف نے اپنے بیان میں کسی کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ 90 کی دہائی کے کرکٹرز کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) منیجمنٹ کے معاملات سے دور رکھے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سابق کرکٹر وسیم اکرم انہوں نے کہا کہ

پڑھیں:

نواز شریف پہلے 70 ہزار جعلی ووٹوں کا جواب دیں، اگر اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف تھا تو اقتدار میں کیوں آئے؟ حافظ نعیم

جماعتِ اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو سب سے پہلے یہ بتانا ہوگا کہ وہ مبینہ طور پر 70 ہزار جعلی ووٹوں کی بنیاد پر کیسے جیتے اور انہیں اسمبلی تک کس نے پہنچایا۔
منصورہ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت فارم 47 پر کھڑی ہے، اس لیے نواز شریف کو حقائق پر مبنی گفتگو کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر واقعی اسٹیبلشمنٹ سے ان کے اختلافات تھے تو پھر وہ ایک بار پھر اقتدار میں کیوں آئے اور اسی کے ساتھ مل کر جمہوریت کو نقصان کیوں پہنچایا؟
حافظ نعیم نے مزید کہا کہ ن لیگ کی قیادت حالات کے مطابق کبھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرے لگاتی ہے اور مفاہمت ہو جائے تو اسی کے حق میں نعرے بلند کرتی ہے۔ لہٰذا یہ بھی واضح کیا جائے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کا آخر کیا بنا۔
انہوں نے اپنے تین روزہ اجتماع عام کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ’بدل دو نظام‘ تحریک کے سلسلے میں ملک کے تمام بڑے شہروں کے امیران کا اجلاس بلا کر آئندہ حکمتِ عملی طے کر لی گئی ہے۔ ان کے مطابق ستائیسویں آئینی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے پر حملہ ہے، جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
انتخابی نظام پر بات کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ کبھی آر ٹی ایس اور کبھی فارم 47 یا 47 کے ذریعے حکومتیں بنائی جاتی ہیں۔ بیوروکریسی آج بھی نوآبادیاتی دور کی طرح عوام پر حکمرانی کر رہی ہے، جبکہ انتظامی اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے سے مسلسل گریز کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ خاندانی سیاسی جماعتیں اپنے ہی کارکنوں سے خوفزدہ ہوتی ہیں، اسی لیے ایسے قوانین منظور کیے جاتے ہیں جو عوام دشمن ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق موجودہ فارم 47 والی پارلیمنٹ نے جو بلدیاتی قانون پاس کیا ہے وہ ’’کالا قانون‘‘ ہے، اور جماعت اسلامی اس کے خلاف عدالتوں اور سڑکوں دونوں پر جائے گی۔
حافظ نعیم نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے اختیارات بحال کرنے کا مکمل لائحہ عمل تیار ہے اور سات اور آٹھ دسمبر کو پنجاب بھر میں اس قانون کے خلاف احتجاج ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں تعلیم، پولیسنگ اور بنیادی سروسز مقامی حکومتوں کے پاس ہوتی ہیں، مگر پاکستان میں ان اختیارات پر قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پنجاب میں مبینہ ماورائے عدالت قتل اور منشیات کے بڑھتے ہوئے کاروبار پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈرگ مافیا کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے اور تعلیمی اداروں تک منشیات کھلے عام پہنچ رہی ہیں۔ خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک کو آزادانہ فیصلہ کرنا ہوگا، امریکی دباؤ یا کسی رہنما کی چاپلوسی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
تعلیمی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 88 فیصد آبادی اعلیٰ تعلیم سے محروم ہے جبکہ تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی بھی تشویش ناک حد تک خراب ہے۔
انہوں نے سندھ حکومت کو کراچی میں بدترین بدعنوانی کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ صوبے میں ڈاکو راج برقرار ہے۔ بلوچستان میں پانی اور بجلی کے بحران کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی وہاں بھی اپنی تحریک جاری رکھے ہوئے ہے۔
آخر میں حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ جماعت اسلامی امن، شہری سہولیات، بلدیاتی حقوق اور آئینی حکمرانی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی اور اگر ضرورت پڑی تو بڑے دھرنے اور اسمبلیوں کے گھیراؤ سمیت ہر جمہوری راستہ اختیار کیا جائے گا تاکہ ’بدل دو نظام‘ کی تحریک حقیقی تبدیلی لاسکے۔

 

متعلقہ مضامین

  • حکومت نے “ستھرا پنجاب پروگرام” کو قانونی شکل دیدی، اتھارٹی قائم
  • نواز شریف پہلے 70 ہزار جعلی ووٹوں کا جواب دیں، اگر اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف تھا تو اقتدار میں کیوں آئے؟ حافظ نعیم
  • آئی ایل ٹی20: شعیب ملک پہلی بار کمنٹری باکس میں،وسیم اکرم، وقار یونس بھی پینل کا حصہ
  • خواجہ آصف کا پی ٹی آئی قیادت پر سخت ردعمل: “ہمت ہے تو پاکستان آ کر لڑیں”
  • ابوظہبی ٹی10 میں لٹل وسیم اکرم نے دھوم مچا دی، اجمان ٹائٹنز نے رائل چیمپس کو سات وکٹوں سے شکست دے دی
  • وفاق صوبائی اخراجات مطالبے سے پہلے آئی ایم ایف رپورٹ کا جائزہ لے: رضا ربانی
  • امریکی قونصل جنرل کی نیشنل اسٹیڈیم آمد، اوور 40 ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میچ سے لطف اندوز
  • چین پاکستان میں “روف ٹاپ سولرانرجی” کے انقلاب کو آگے بڑھا رہا ہے، برطانوی میڈیا
  • قازقستان کے صدر کی جانب سے “سلک روڈ اسٹا ر” بین الاقوامی موسیقی کے مقابلے کے کامیاب انعقاد کے لیے چینی میڈیا گروپ کا شکریہ
  • عالمی اقتصادی گورننس میں مزید “جنوبی طاقت” کا اضافہ