ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی ادارے مکمل طور پر فعال ہیں اوراپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانیں دے رہے ہیں مگر نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عمل نہیں ہو رہا۔
گزشتہ روز کوئٹہ میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا اور میڈیا کے سوالات کے جواب دیے۔
ترجمان پاک فوج نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ جعفر ایکسپریس ٹرین حملے میں 354 مسافروں کو بازیاب کرایا گیا ہے جب کہ 26 افراد شہید ہوئے ہیں، 37 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ دہشت گردوں کے پاس کوئی یرغمالی مسافر نہیں ہے اور نہ ہی آپریشن کے دوران کوئی مسافر مارا گیا جو لوگ شہید ہوئے، انھیں دہشت گردوں نے آپریشن سے پہلے شہید کیا ہے۔
انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ انتہائی دشوار گزار علاقے اور راستے میں ہوا۔ دہشت گردوں نے 11 مارچ کو ایک بجے کے قریب دھماکے سے پٹڑی تباہ کرکے ٹرین کو روکا۔ دہشت گرد ٹولیوں کی شکل میں مسافروں کو لے کر باہر موجود تھے۔ دہشت گردوں پر ہماری فائرنگ کے نتیجے میں مغوی مسافروں کو فرارکا موقع ملا۔ پاک فوج کے ترجمان نے بھی واضح کیا کہ یہ آپریشن احتیاط سے کیا گیا، ضرار گروپ نے مغویوں کو خودکش بمباروں سے نجات دلائی جو ٹولیوں کی شکل میں تھے۔
دہشت گردوں نے یہ سب بڑی منصوبہ بندی سے کیا تھا، انھیں اپنے سرپرستوں کی پوری مدد حاصل تھی اور وہ افغانستان میں موجود اپنے سرغنوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ پاک فوج کی بروقت کارروائی سے دہشت گرد اور ان کے ماسٹر مائنڈ جو چاہتے تھے، وہ اس میں ناکام رہے۔
ان کا یہ منصوبہ ہوسکتا ہے کہ وہ ٹرین کے تمام مسافروں کو کچھ دن تک یرغمال رکھیں گے اور اپنے سرپرستوں کے پراپیگنڈا کی مدد سے عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کریں گے لیکن مسافروں کی ہمت و دلیری اور فوج کی بروقت کارروائی کی وجہ سے ان کا منصوبہ ناکام ہوگیا اور انھیں بھاری جانی نقصان پہنچا ہے۔
میڈیا کی اطلاع میں بتایا گیا کہ دہشت گردوں کے ایک گروپ نے بچوں اور خواتین کو ٹرین کے اندر رکھا، دہشت گردوں نے چوکی پر حملہ کرکے تین ایف سی جوان شہید کیے، ان کے پاس غیرملکی اسلحہ تھا۔ پورے آپریشن میں کسی مغوی کی جان نہیں گئی، جو شہید ہوئے، وہ پہلے ہوئے۔ اس وقت بھی جائے وقوعہ کے اطراف میں پہاڑیوں اور غاروں کی سینی ٹائزیشن جاری ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا اس واقعے کا سرا افغانستان سے ملتا ہے، وہاں سے خودکش بمبار آتے ہیں۔ انھوں نے تین دہشت گردوں کی تصاویر دکھاتے ہوئے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل افغانستان کا ایک دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کے دوران مارا گیا تھا ، اس کا نام بدر الدین تھا اور وہ افغانستان کے صوبے باغدیس کے نائب گورنر کا بیٹا تھا۔
اسی طرح ایک اور خارجی مجیب الرحمان افغان آرمی میں بٹالین کمانڈر تھا ۔ بنوں واقعے میں بھی افغان دہشت گرد مارے گئے تھے۔ یوں پتہ چلتا ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے اور افغانستان کی حکومت کی ناک کے نیچے یہ سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔
انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عمل درآمد کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہم رواں سال اب تک 11 ہزار 654 آپریشن کر چکے، اوسط نکالیں تو یہ 180 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن یومیہ بنتے ہیں۔
2024 اور 2025کے دوران 1250 دہشت گرد مارے جاچکے ہیں، ہمارے563 جوان شہید ہوئے۔ دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی ادارے مکمل فعال ہیں، اپنی جانیں دے رہے ہیں مگر ان 14 نکات پر عمل نہیں ہو رہا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا کہ دہشت گردوں کو افغانستان سے مدد مل رہی ہے، وہاں دہشت گردی کے مراکز ہیں اور دہشت گردوں کی قیادت بھی وہاں مقیم ہے۔ دہشت گرد وہاں بھرتی کیے جاتے اور تیار ہوتے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے یہ بھی کہا کہ امریکا، افغانستان سے گیا تو اپنا اسلحہ چھوڑ گیا جو دہشت گردوں کے پاس ہے ۔ یہ تو اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ امریکی اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ چکا ہے، امریکی صد ڈونلڈ ٹرمپ بھی افغانستان کی طالبان حکومت سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہ امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ واپس کر دیں۔
اس کے علاوہ امریکا نے افغانستان کی حکومت کی امداد بھی بند کر دی ہے۔ بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان نے یہ بھی واضح کیا کہ ریاست اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کر رہی ہے، ڈالر، کرنسی، پٹرول، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور دیگر اسمگلنگ روکی جا رہی ہے جو اربوں ڈالرز میں ہے مگر مافیاز ایسا نہیں چاہتے۔
وہ عرصے سے ملک کھوکھلا کرنے میں لگے ہیں، انھیں روکا جارہا ہے تو مزاحمت کر رہے ہیں۔ ایک سوال پر سرفراز بگٹی نے کہا بی ایل اے اور افغان دہشت گرد دو الگ گروہ ہیں، ان کے نظریات بھی الگ ہیں مگر انھیں اکٹھا کون کر رہا ہے؟ انھیں تربیت اور پیسے دے کر پاکستان کے خلاف اکٹھا کیا جاتا ہے۔ ہینڈلر انھیں اکٹھا کرتے ہیں، افغانستان واحد ملک تھا، جس نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی مگر ہم نے ہمیشہ اس کی مدد کی، لاکھوں مہاجرین کو بسایا مگر انھوں نے ہمارے ہاں دہشت گردی کی۔
افغانستان وعدے پورے نہیں کر رہا۔ اے پی پی کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا جعفر ایکسپریس پر سفر کے لیے 428 ٹکٹ جاری ہوئے تاہم 100 فیصد ٹکٹ ہولڈرز نے سفر نہیں کیا۔ تعداد میں اس لیے فرق آرہا ہے کیونکہ 80فیصد ٹکٹنگ کمپوٹرائزڈ اور 20 فیصد مینوئل ہوتی ہے۔ کچھ لوگ سفرنہیں کرتے، کچھ پہلے اتر جاتے ہیں یا کسی کا سفر اگلے اسٹاپ سے شروع ہوتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کچھ لوگ جب بھاگے ہوں تو بھٹک گئے ہوں اور دہشت گردوں کے ہتھے دوبارہ چڑھ گئے ہوں۔ کل بھی ایف سی چیک پوسٹ پر دو لوگ آئے اور بتایا بھاگنے کے بعد راستہ بھول گئے تھے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں جمعہ کو جعفر ایکسپریس سانحے، دہشت گردی، بلوچستان کے مسائل اور حکومت کی معاشی پالیسیوں پر گرما گرم بحث ہوئی۔ ارکان اسمبلی نے بلوچستان میں بدامنی، بیروزگاری اور بنیادی حقوق کی عدم فراہمی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جب کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اپوزیشن نے حکومت پر معیشت اور سیکیورٹی پالیسیوں میں ناکامی کے الزامات لگائے، وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونے کا ذمے دار صوبائی حکومتوں کو ٹھہرایا۔
پاکستان کا محل وقوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں بلوچستان کی جغرافیائی حیثیت کلیدی ہے۔ بلوچستان کی یہی حیثیت مقامی شرپسند قوتوں اور ’’فارن ایکٹرز‘‘ کے اتحاد کا باعث ہے۔ بلوچستان میں حال ہی میں معدنیات کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں خصوصاً سونے کے ذخائر بہت بڑی مقدار میں ہیں۔
تیل کے ذخائر بھی بھاری تعداد میں موجود ہیں۔ سی پیک کی وجہ سے بھی بہت سی قوتوں کو بلوچستان کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ بلوچستان سینٹرل ایشیا کا دروازہ ہے۔ جیسے جیسے بلوچستان ترقی کرتا جائے گا، افغانستان کی حیثیت کم ہوتی چلی جائے گی۔
گوادر بندرگاہ نے بلوچستان میں معاشی اور سماجی ترقی کے عمل کو تیز کرنا ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے افغانستان اور غیرممالک میں بیٹھی افغان نژاد اشرافیہ پاکستان کے مقامی شرپسندوں سے مل کر منفی پروپیگنڈا کر رہی ہے۔
افعانستان کی ہر حکومت اس کام میں شامل رہی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کو اب اپنی سرحدوں کے میکنزم کو زیادہ سخت اور فول پروف بنانے کی ضرورت ہے۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ تجارت کو قانونی میکنزم کے ذریعے انجام پانا چاہیے۔
غیرقانونی تجارت اور اسمگلنگ کا مکمل خاتمہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قیام امن اور ان صوبوں میں معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ قانون کے مطابق تجارت ہو تو صوبائی حکومتوں کو بھی اچھا خاصا ریونیو ملے گا۔ وفاقی حکومت کو بھی ریونیو حاصل ہو گا۔
غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے بھی ماحول سازگار بن جائے گا جب کہ سیاحت کے لیے بھی ماحول بہتر ہوتا چلا جائے گا۔ دہشت گردوں کے سہولت کار اور ماسٹر مائنڈز بڑی چالاک گیم کھیل رہے ہیں۔ اس گیم کو ناکام بنانے کے لیے ملک کے اندر موجود شرپسندوں اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی بیخ کنی انتہائی ضروری ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھی واضح کیا کہ سرفراز بگٹی نے جعفر ایکسپریس دہشت گردوں کے افغانستان کی دہشت گردی کے مسافروں کو شہید ہوئے نے یہ بھی کے دوران انھوں نے رہے ہیں کے خلاف پاک فوج کہ دہشت نے کہا کے لیے رہی ہے
پڑھیں:
تعاون انسداد دہشت گردی اور پانی کا مسئلہ
پاکستان اور امریکا نے انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کو مزید گہرا کرنے کا عہد کیا ہے۔ اس پیش رفت کو پاکستان کے لیے ایک ایسے وقت میں بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جب بھارت بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے بی ایل اے سمیت دیگر دہشت گرد گروپوں کی کھلم کھلا حمایت کر رہا ہے۔
امریکا اور پاکستان کے درمیان انسدادِ دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کو مزید گہرا کرنے کا حالیہ فیصلہ ایک انتہائی موافق سفارتی سنگِ میل ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ خطے میں امن و سلامتی کے فروغ کے لیے ذمے دارانہ کردار ادا کیا ہے۔
چاہے یہ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں ہوں، سرحدی تحفظ ہوں یا عالمی سطح پر تعاون، پاکستان نے وقتاً فوقتاً اپنی سنجیدگی اور مؤثر اقدامات سے دنیا کو یہ باورکروایا ہے کہ وہ عالمی امن کی مطلوبہ ضمانت ہے، اگرچہ اس راہ میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن پاکستان نے ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کیا ہے۔
بھارت کے ان کھلم کھلا حمایتی بیانات اورکردار کے باوجود، پاکستان نے بی ایل اے جیسے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مؤثر اور مستقل کارروائیوں سے یہ واضح کیا ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف ملک میں انتشار پھیلانے کی ہرکوشش ناکام بنانے کے عزم پر قائم ہے۔
دہشت گردی کا مسئلہ صرف پاکستان کا داخلی معاملہ نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی خطرہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے۔ دہشت گردی کی نوعیت تبدیلی پذیر ہے، عالمی دہشت گرد نیٹ ورکس اور ان کے علاقائی شاخیں مسلسل اپنے حربے بدلتی رہتی ہیں۔
ایسے میں اگر پاکستان کو تازہ ترین انٹیلی جنس، جدید تربیت اور وسائل تک رسائی ملے تو وہ نہ صرف مؤثر ردِ عمل دے سکتا ہے بلکہ دہشت گردی کے نئے رجحانات کا بروقت ازالہ بھی کرسکتا ہے۔ امریکا کے ساتھ اس تعاون کے نتیجے میں پاکستان کی انٹیلی جنس شیئرنگ، ڈیٹا اینالیسس اور ملٹری پراکٹیکل آپریشنز مزید مضبوط ہوں گے، جس سے پاکستان خود نہ صرف اپنی سرحدوں، بلکہ بڑھتے ہوئے بیرونی خطرات کے پیش نظر بہتر مزاحمتی صلاحیت تشکیل دینے میں کامیاب ہوگا۔
عالمی سطح پر پاکستان کی اس کامیابی کا مفہوم بھی بڑا ہے۔ ایک طرف بھارت عالمی فورمز پر پاکستان کے خلاف ناپسندیدہ باتیں کرتا رہا ہے، بھارت کے بلوچستان سے متعلق بیانات، پروپیگنڈا اور حمایتیں صرف مقامی امن کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش نہیں بلکہ ایک منظم سفارتی محاذ ہیں۔
بی ایل اے کی کھلم کھلا حمایت بھارت کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے جو عالمی اصولوں کے خلاف ہے۔ ایسے حالات میں اگر پاکستان نے مؤثر کارروائی کی ہیں اور امریکا جیسے شریکِ کار نے اسے تسلیم کیا، تو یہ نہ صرف پاکستان کی ساکھ کے لیے مثبت ہے بلکہ خطے میں توازن کی بحالی میں بھی ایک مضبوط پیغام ہے۔
اس دوطرفہ تعاون کا اثر معاشی اور معاشرتی شعبوں میں بھی قابلِ غور ہے۔ امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے آثار ہوتے ہیں تو غیر ملکی سرمایہ کاری، سیاحت اور ترقیاتی منصوبے تیزی سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
بالخصوص بلوچستان جیسے علاقے میں جہاں دیرینہ محرومیوں اور اجتماعی نظریاتی بحرانوں کا شکار عوام آباد ہیں، وہاں اگر امن کی فضا برقرار رہے اور تحفظ کا احساس مضبوط ہو، تو لوگ اپنے گھروں اورکاروباروں میں سرمایہ لگانے میں حائل خطرات سے بے نیاز ہو سکتے ہیں۔
اس سے مقامی سطح پر خوشحالی کی روایت پروان چڑھے گی، خالی رہ جانے والی زمینیں آباد ہوں گی، نوجوانوں کو روزگارکے نئے مواقع ملیں گے اور دہشت گردی کے خول خود بہ خود تحلیل ہونے لگیں گے، یہ سب کچھ ممکن ہو پائے گا اگر انسدادِ دہشت گردی میں ایک حقیقی، مضبوط اور متوازن اقدامات کا تسلسل ہو۔
ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس طرح کا تعاون پاکستان کو خود کفیل بنا سکتا ہے۔ امریکا کے تعاون سے نہ صرف فوری حل ملے گا بلکہ پاکستان کی اپنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا کہ مستقبل میں وہ خود اپنی زمین، ہواؤں اور سمندروں پر جاری خطرات کا مؤثر مقابلہ کر سکے، اگرچہ بیرونی تعاون اہم ہے، لیکن اس تعاون کا صحیح ڈھانچہ، مشترکہ اہداف اور واضح افقی منصوبہ بندی ہی اس تعاون کو پائیداری عطا کرے گی۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس تعاون کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے کے لیے شفاف انداز سے اپنی ضروریات، ترجیحات اور اہداف امریکی شراکت داروں کے سامنے رکھے، تاکہ طویل المدتی تعاون کا توازن اور استحکام برقرار رہ سکے۔ امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی پوزیشن کو مضبوط بنا سکتے ہیں، خاص طور پر اقتصادی محاذ پر جہاں عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات میں امریکا کا اثر و رسوخ کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت پاکستان کے حصے کا پانی نہیں روک سکتا۔ پڑوسی ملک نے ہمارا پانی بند کرنے کی دھمکی دی ہے لیکن وہ پاکستان سے ایک بوند پانی بھی نہیں چھین سکتا، اگر دوبارہ کوئی ایسی حرکت کی تو وہ حشر کریں گے کہ کانوں کو ہاتھ لگائے گا۔ بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ بیان نے قومی وقار، سلامتی اور پانی جیسے بنیادی حق سے جڑی حساسیت کو بھی ایک بار پھر نمایاں کردیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کا پانی نہیں روک سکتا اور اگر ایسی کوئی کوشش کی گئی تو اس کا ایسا انجام ہوگا کہ دشمن کو خود اپنی حرکت پر شرمندگی ہوگی۔ یہ الفاظ محض ایک سیاسی رد عمل نہیں بلکہ ایک قوم کی طرف سے اپنے قدرتی وسائل اور قومی مفادات کے دفاع کا اعلان ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960میں طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جس پر عالمی بینک کی گواہی بھی موجود ہے۔ اس کے تحت تین مشرقی دریا بھارت کے سپرد کیے گئے اور تین مغربی دریا پاکستان کے حصے میں آئے۔
برسوں سے یہ معاہدہ خطے میں پانی کی تقسیم کے سلسلے میں ایک مستند حوالہ رہا ہے، مگر وقتاً فوقتاً بھارت کی طرف سے ایسے اقدامات سامنے آتے رہے ہیں جنھیں پاکستان نے معاہدے کی روح کے منافی قرار دیا۔ حالیہ بھارتی رویہ بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، جہاں دشمن ملک کی طرف سے مبینہ طور پر پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی دی گئی ہے۔
پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں، یہ ہماری زراعت، صنعت، معیشت اور روزمرہ زندگی کا بنیادی ستون ہے۔ پاکستان کا زیادہ تر انحصار ان ہی مغربی دریاؤں پر ہے جن کا بہاؤ معاہدے کے تحت پاکستان کے لیے مخصوص کیا گیا ہے، اگر دشمن ملک ان دریاؤں پر بند باندھنے یا ان کا رخ موڑنے کی کوشش کرے تو یہ نہ صرف ایک بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ پاکستان کے کروڑوں عوام کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔
یہ معاملہ صرف سفارتی یا سیاسی نوعیت کا نہیں بلکہ انسانی حقوق، ماحولیاتی توازن اور علاقائی سلامتی کا بھی ہے۔ پاکستان کو نہ صرف عالمی سطح پر اس مسئلے کو مؤثر انداز میں اٹھانا چاہیے بلکہ اندرونی طور پر بھی آبی وسائل کے تحفظ اور منصفانہ تقسیم کے لیے فوری اور مستقل بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں صرف دشمن کی سازشوں سے باخبر رہنا نہیں، بلکہ اپنے نظام کو اس قابل بھی بنانا ہوگا کہ وہ کسی ممکنہ خطرے کا بروقت اور مؤثر انداز میں جواب دے سکے۔یہ امر بھی خوش آیند ہے کہ حکومت نے بین الاقوامی سطح پر مؤثر سفارت کاری کے ذریعے اپنے مؤقف کو اجاگرکرنے کا عندیہ دیا ہے۔
اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف اور عالمی آبی اداروں کو متحرک کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ بھارت کو یہ باورکرانا ہوگا کہ وہ عالمی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی کرکے خود اپنی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ پاکستان، ایک ذمے دار ریاست ہونے کے ناتے، ہمیشہ سے پرامن مذاکرات اور قانونی چارہ جوئی پر یقین رکھتا ہے، اگر اس کے بنیادی حقوق پر حملہ کیا جائے گا تو وہ اپنے دفاع میں کسی حد تک جانے سے گریز نہیں کرے گا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم محض ردعمل دینے کے بجائے ایک طویل المدت آبی پالیسی مرتب کریں، جس میں پانی کی ذخیرہ اندوزی، منصفانہ تقسیم، بارش کے پانی کا استعمال اور زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جیسے اقدامات شامل ہوں۔ ہمیں اپنے دریاؤں کی حفاظت کے لیے صرف سیاسی بیانات پر نہیں، عملی اقدامات پر انحصارکرنا ہوگا۔
ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ پانی کا مسئلہ آنے والے برسوں میں مزید شدت اختیارکرے گا۔ اقوام عالم اس وقت ایک ماحولیاتی بحران کی لپیٹ میں ہیں، اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ بحران دوگنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہم اب بھی اگر بیدار نہ ہوئے تو کل ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہ بچے گا۔
وزیراعظم نے ایک قومی مؤقف پیش کیا ہے۔ اب یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ اس مؤقف کو مضبوطی، حکمت اور تدبر کے ساتھ آگے بڑھائیں، اگر ہم نے متحد ہو کر، درست سمت میں اقدامات کیے، تو کوئی طاقت ہمارے دریاؤں کا رخ موڑ نہیں سکتی اور اگر ہم نے غفلت کی، تو شاید ہمارا کل، آج سے بھی زیادہ پیاسا ہو۔
قوم کو چاہیے کہ وہ اس موقع پر اپنے اداروں پر بھروسا رکھے اور حکومت کو اس نازک مسئلے پر بھرپور حمایت فراہم کرے۔ یہ وقت قومی یکجہتی، بصیرت اور عمل کا ہے۔ پانی ہماری زندگی ہے، اور زندگی پر سودے بازی کی کوئی گنجائش نہیں۔