لاپتا شہری کی اڈیالہ جیل میں موجودگی کی اطلاعات، سپرنٹنڈنٹ جیل سے رپورٹ طلب
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
راولپنڈی:
اکتوبر 2024ء سے لاپتا شہری کے اڈیالہ جیل میں موجودگی کی اطلاعات پر عدالت نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے رپورٹ طلب کرلی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ہائی کورٹ راولپنڈی میں شہری کے مبینہ لاپتا ہونے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جو کہ جسٹس طارق محمد باجوہ کے روبرو ہوئی۔ لاپتا شہری نور السلام کے بھائی محمد طارق عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزار نے کہا کہ سی ٹی ڈی نے میرے بھائی کو 16 اکتوبر 2024ء کو راجہ بازار سے اغواء کیا، میرے بھائی کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، اغواء کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کاروائی کی جائے۔
سی ٹی ڈی اور راولپنڈی پولیس نے اپنی رپورٹس عدالت میں پیش کیں، سی ٹی ڈی حکام نے کہا کہ کسی شہری کو تحویل میں نہیں لیا۔ پولیس نے کہا کہ مبینہ اغواء کار کا سراغ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہمارا بھائی اڈیالہ جیل میں نظر بند ہے، عدالت نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے کیس کی سماعت 20 مارچ تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اڈیالہ جیل نے کہا کہ
پڑھیں:
مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کیخلاف روزانہ درجنوں درخواستیں آرہی ہیں، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائیکورٹ میں کاؤنٹر کرائم ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کی جانب سے مبینہ جعلی پولیس مقابلے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزار فرحت بی بی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ فرحت بی بی کا بیٹا غضنفر حسن پولیس مقابلے میں مارا گیا اور اب وہ اپنے دوسرے بیٹے کے تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع کر رہی ہیں۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سی سی ڈی کے آنے کے بعد ایک ہی طرز کے پولیس مقابلے ہو رہے ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیے: جعلی پولیس مقابلہ: فیصل آباد پولیس کے 3 اہلکاروں کو سزائے موت کا حکم
چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں جذباتی باتیں نہ کریں، یہاں قانون اور شواہد کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ انہوں نے آئی جی پنجاب سے مکالمے میں کہا کہ ایس ایچ او عدالت کو مطمئن نہیں کر سکا، اس لیے آپ کو بلایا گیا۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے پولیس کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ کے مطابق ملزم کی ریکوری کے بعد جب اسے لے جایا جا رہا تھا تو گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوا اور ساتھیوں نے حملہ کر دیا۔ اگر واقعی گاڑی پر فائرنگ ہوئی تھی تو گولی سیدھی ملزم کو ہی کیوں لگی؟ گاڑی کو یا کانسٹیبل کو کیوں نقصان نہیں پہنچا؟
یہ بھی پڑھیے: سی سی ڈی کے خوف نے بڑے بڑے غنڈوں کو معافیاں مانگنے پر مجبور کردیا: مریم نواز
چیف جسٹس نے کہا کہ اب جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اس سے کیس کے حقائق بالکل مختلف نظر آتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ روزانہ درجنوں درخواستیں عدالت میں آ رہی ہیں، جن میں مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کی شکایت کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ سی سی ڈی کے تحت ہونے والے تمام پولیس مقابلوں کا تفصیلی جائزہ لیں اور متعلقہ پولیس افسران کے ساتھ بیٹھ کر پالیسی وضع کریں تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں