پاک بحریہ کے جہاز اصلت ریجنل کا مالدیپ کا دورہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
پاک بحریہ کے جہاز اصلت ریجنل نے میری ٹائم سیکیورٹی پٹرول پر تعیناتی کے دوران مالدیپ کا دورہ کیا۔
مالے بندرگاہ پہنچنے پر مالدیپ نیشنل ڈیفنس فورس اور کوسٹ گارڈ کے حکام نے جہاز کا پرتپاک استقبال کیا۔ پی این ایس اصلت کے کمانڈنگ افسر نے چیف آف ڈیفنس فورس میجر ابراہیم ہلمی اور کمانڈنٹ کوسٹ گارڈ بریگیڈئیر جنرل محمد سلیم سے ملاقاتیں کیں۔ ملاقاتوں کے دوران باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
کمانڈنگ افسر نے چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل نوید اشرف کی طرف سے مالدیپ کے عوام کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ بندرگاہ پر قیام کے دوران ڈیفنس فورس کے سربراہ، حکومتی حکام، سفارت کاروں، پاکستان کے ہائی کمشنر اور مختلف ممالک کے سفیروں نے جہاز کا دورہ کیا۔
پاک بحریہ کے جہاز ریجنل میری ٹائم سیکورٹی پٹرول ہرقاعدگی سے تعینات کیے جاتے ہیں۔ پی این ایس اصلت نے مالدیپ کوسٹ گارڈ کے جہاز شہید علی کے ساتھ بحری مشق میں حصہ لیا۔ مشق کا مقصد دونوں بحری افواج کے درمیان باہمی تعاون کو بہتر بنانا اور مشترکہ آپریشنز کی صلاحیت کو فروغ دینا تھا۔
پی این ایس اصلت کے دورہ مالدیپ سے دونوں ممالک کے درمیان موجودہ برادرانہ تعلقات اور دفاعی تعاون مزید مستحکم ہوں گے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے جہاز
پڑھیں:
خاموش سمندر کی گواہی: دوسری جنگِ عظیم کا گمشدہ جاپانی جنگی جہاز کتنے سال بعد دریافت کرلیاگیا
ٹوکیو(انٹرنیشنل ڈیسک) جب تاریخ سمندر کی گہرائیوں میں دفن ہو جائے تو اسے دوبارہ دریافت کرنا صرف ایک سائنسی کارنامہ نہیں بلکہ انسانیت کے اجتماعی شعور اور ورثے کی بازیابی بھی ہوتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم، جو انسانی تاریخ کے سب سے ہولناک اور فیصلہ کن ادوار میں سے ایک تھی، اپنے پیچھے ایسی بے شمار کہانیاں، قربانیاں اور راز چھوڑ گئی جو وقت کے سمندر میں کھو گئیں۔ انہی رازوں میں ایک جاپانی جنگی جہاز ”Teruzuki“ بھی تھا، جو 1942 میں بحرالکاہل کی وسعتوں میں غرق ہو گیا۔
بلاشبہ یہ دریافت نہ صرف بحری تاریخ کی ایک اہم کڑی ہے، بلکہ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم ماضی سے کتنا کچھ سیکھ سکتے ہیں، اگر ہم سننے کا حوصلہ اور دیکھنے کی جستجو رکھتے ہوں۔
دوسری جنگِ عظیم میں غرق ہونے والا یہ جاپانی جنگی بحری جہاز ’ٹیروزوکی‘ بالآخر 83 سال بعد دریافت کر لیا گیا ہے۔ یہ دریافت ایک اہم بین الاقوامی تحقیقی مہم کے دوران عمل میں آئی، جس کا مقصد بحرالکاہل میں غرق ہونے والے تاریخی جنگی جہازوں کا سراغ لگانا تھا۔
تاریخی پس منظر
’ٹیروزوکی‘ ایک اکیزوکی ڈسٹرائر تھا جسے 1942 میں جاپانی بحریہ نے کمیشن کیا۔ اس کا مطلب ہے ’چمکتا ہوا چاند‘۔ یہ جہاز دوسری جنگِ عظیم کے دوران گواڈال کنال مہم میں استعمال ہوا اور ریئر ایڈمرل رائزو تاناکا کا فلیگ شپ بھی رہا۔
تباہی کا دن
12 دسمبر 1942 کو امریکی نیوی کے دو ٹارپیڈو حملوں کے نتیجے میں ٹیروزوکی غرق ہو گیا، جس کے نتیجے میں 9 فوجی اہلکار شہید ہوئے۔ اس کا ملبہ سمندر کی تہہ میں چلا گیا اور اس کے بعد اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔
نیو ہیمپشائر یونیورسٹی کے بغیر انسان کے زیرِ کنٹرول ڈرکس نامی جہاز نے ملبے کی ابتدائی نشاندہی کی۔ تاہم اُس وقت یہ معلوم نہ تھا کہ یہ ملبہ کس ملک کا ہے۔
بعد ازاں، 12 جولائی 2025 کو ناٹیلس نامی تحقیقاتی بحری جہاز سے دو جدید ریموٹلی آپریٹڈ وہیکلز ’ہرکولس‘ اور ’ایٹلانٹا‘ کو سمندر کی تہہ میں بھیجا گیا، جنہوں نے 2,600 فٹ کی گہرائی میں موجود ملبے کی ہائی ڈیفینیشن تصاویر حاصل کیں۔
کُورے میری ٹائم میوزیم، ہیروشیما کے ڈائریکٹر کازوشیگے توداکا کے مطابق، ’یہ جہاز خاص طور پر اینٹی ایئرکرافٹ جنگ کے لیے بنایا گیا تھا، اور اس کی توپوں کی پوزیشن اس کی شناخت کی تصدیق کرتی ہے۔‘
جاپان کی فوج نے اس وقت اپنی جنگی مشینری کی معلومات کو خفیہ رکھا تھا، اسی لیے ٹیروزوکی کی کوئی اصل تصویریں دستیاب نہیں تھیں۔ تاہم، ماہرین نے اس کی ’شناخت‘ تاریخی حوالہ جات اور ڈیزائن کی مدد سے کر لی۔
کیوٹو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہرِ سمندری آثار قدیمہ ہیروشی اشیئی نے کہا، ’83 سال بعد اس جہاز کو دیکھنا ایک اعزاز کی بات ہے۔ اس دریافت سے بحری ورثے کو محفوظ رکھنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔‘
ٹیروزوکی کی دریافت نہ صرف تاریخی طور پر اہم ہے بلکہ یہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک پیغام بھی ہے کہ، ’تاریخ کو محفوظ رکھنا انسانیت کے شعور کی علامت ہے۔‘
Post Views: 3