یوم پاکستان پر ایوان صدر میں اعلیٰ ترین سول اعزازات دینے کی تقریب
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
یوم پاکستان کے موقع پر ایوان صدر میں اعلیٰ ترین سول اعزازات دینے کی تقریب منعقد کی گئی جس میں صدرمملکت نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی شخصیات کو قومی اعزازات سے نوازا۔ تقریب میں چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، خاتون اول آصفہ بھٹو اور دیگر شخصیات نے شرکت کی۔صدر مملکت نے سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو شاندار خدمات کے اعتراف میں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ نشان پاکستان عطا کیا، ذوالفقار علی بھٹو کا اعلیٰ ترین سول اعزاز ان کی صاحبزادی صنم بھٹو نے وصول کیا۔تقریب میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی و قومی خدمات بیان کیے جانے کے دوران صنم بھٹو جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور آبدیدہ ہوگئیں، اس موقع پر ایوان صدر جیے بھٹو اور زندہ ہے بھٹو کے نعروں سے گونج اٹھا۔ صدر مملکت نے ایئرمارشل ریٹائرڈ راجا شاہد حامد مرحوم کو گراں قدرخدمات پر نشان امتیاز عطاکیا، سلطان علی اکبر الانا کو مالیاتی شعبے میں گراں قدر خدمات پر نشان خدمت عطا کیاگیا۔ایس پی محمد اعجاز خان شہید، ڈی ایس پی علامہ اقبال شہید، ڈی ایس پی سردار حسین شہید کو غیرمعمولی بہادری پر ہلال شجاعت سے نوازا گیا۔صدر مملکت نے کانسٹیبل جہانزیب شہید،کانسٹیبل ارشاد علی شہید،ایڈیشنل ایس ایچ او عدنان آفریدی شہید اور سب انسپکٹر تیمور شہزاد شہید کو بھی غیرمعمولی بہادری کے اعتراف میں ہلال شجاعت عطاکیا۔صدر نے ایل ایچ سی محمد فاروق شہید اور سپاہی محمد آصف شہید کو غیرمعمولی بہادری کے اعتراف میں ہلال شجاعت عطاکیا۔تقریب میں اللہ رکھیو شہید کو شعبہ تعلیم میں شاندار خدمات کے اعتراف میں ہلال شجاعت عطاکیاگیا، ڈاکٹر سید توقیر شاہ کو سول سروس اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد خرم آغا اور سید علی حیدر گیلانی کو خدمات عامہ کے شعبے میں گرانقدر خدمات پر ہلال امتیاز عطاکیاگیا۔صدر مملکت نے حسین داؤد کو انسان دوستی اور مفاد عامہ کے شعبے میں شاندار خدمات پر ہلال امتیاز سے نوازا جبکہ خواجہ انور مجید کو سماجی شعبے میں گرانقدر خدمات پر ہلال امتیاز عطا کیا جبکہ پروفیسر ڈاکٹر شہریار اور ڈاکٹر زریاب کو بھی شعبہ طب میں نمایاں خدمات پر ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کے اعتراف میں صدر مملکت نے ہلال شجاعت سے نوازا ترین سول شہید کو
پڑھیں:
امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و سماجی خدمات
اسلام ٹائمز: آپکے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے امام ابو حنیفہ نے کہا ہے: ” میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔” ایک اور مقام پر امام ابو حنیفہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے میں کہا: "اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہو جاتا۔" بہرحال علمی میدان میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمات ناقابل انکار ہیں، فقہ، کلام اور دیگر علوم میں سب سے زیادہ احادیث امام صادقؑ سے نقل ہونے کیوجہ سے مکتب اہلبیت کو مذہب جعفری بھی کہا جاتا ہے، یعنی موجودہ دور میں امام صادق علیہ السلام مذہب جعفری کے بانی اور مؤسس کے طور پر مشہور ہیں۔ تحریر: محمد ثقلین واحدی
جب رئیس مذہب جعفری امام صادق علیہ السلام منصب امامت پر فائز ہوئے تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی، جس کی بنا پر اموی حکمرانوں کی توجہ خاندان رسالت سے کسی حد تک ہٹ گئی اور خاندان رسالت کے افراد نے امویوں کے ظلم و ستم سے کسی حد تک سکون کا سانس لیا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دین مبین اسلام کا حقیقی چہرہ روشناس کرانے کیلئے علمی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ اس دوران تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ اور عقائد کے شعبوں میں اسلام کی حقیقی تعلیمات بیان کرکے آپ نے اسلامی معاشرے کو بے شمار گمراہیوں اور فکری انحرافات سے نجات دلائی۔
ان کاوشوں کے نتیجے میں صحیح اسلامی سوچ اور عقائد مسلمانوں تک پہنچے اور مسلمان محققین خاص طور پر مکتب تشیع کے ماہرین نے ان علوم کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اس میں مزید وسعت ایجاد کی اور مدینے میں مسجد نبوی اور کوفہ شہر میں مسجد کوفہ کو یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا، جہاں انہوں نے ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی اور ایک عظیم علمی و فکری تحریک کی بنیاد ڈالی، اس تحریک کو خوب پھلنے پھولنے کے مواقع ملے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ علوم و فنون کی توسیع اور دوسری ملتوں کے عقائد و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ اسلامی افکار و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے تقابل اور علمی بحث و مناظرے کے اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اسی زمانے میں ترجمے کے فن کو بڑی تیزی سے ترقی حاصل ہوئی اور عقائد و فلسفے دوسری زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہوئے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ تاریخ اسلام کا حساس ترین دور کہا جاسکتا ہے۔ اس زمانے میں ایک طرف تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی اور دوسری علویوں کی بھی مسلح تحریکیں جاری تھیں۔ آپ نے ہمیشہ عوام کو حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور غلط حرکتوں نیز غیر اخلاقی و اسلامی سرگرمیوں سے آگاہ کیا۔ آپ نے عوام کے عقائد و افکار کی اصلاح اور فکری شکوک و شبہات دور کرکے اسلام اور مسلمانوں کی فکری بنیادوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اور اہل بیت علیہم السلام کی فقہ و دانش کو اس قدر فروغ دیا اور اسلامی احکام و شیعہ مذہب کی تعلیمات کو دنیا میں اتنا پھیلایا کہ مذہب شیعہ نے جعفری مذہب کے نام سے شہرت اختیار کرلی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے جتنی احادیث راویوں نے نقل کی ہیں، اتنی کسی اور امام سے نقل نہیں کیں۔
امام علیہ السلام کے شاگردوں نے مختلف علوم و فنون جیسے فزکس، کیمیا، الجبرا اور جیومیٹری وغیرہ کے موضوعات پر مختلف کتابیں لکھیں۔ جیسے جابر بن حیان کی ’’المیزان‘‘، ’’الرحمۃ‘‘ اور ’’مختار رسائل جابر‘‘ وغیرہ۔ علم کلام میں مفضل بن عمر جعفی نے ’’توحید مفضل‘‘ پیش کی ہے، جو اپنے موضوع میں بے نظیر کتاب ہے۔ حدیث شناسی اور فقہ میں زرارہ بن اعین، ابان بن تغلب، جابر جعفی، برید عجلی، ابن ابی یعفور، محمد بن مسلم، ان ابی عمیر، ابو بصیر اسدی، فضیل بن سیارہ معلیٰ بن خنیس، جمیل بن دراج، حمار بن عثمان اور ہشام بن سالم وغیرہ جیسے نامور افراد کی تربیت فرمائی۔ مذہب جعفری سے دفاع کے لئے، فن مناظرہ میں حمران بن اعین شیبانی جیسے مناظر کی تربیت فرمائی۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب فیض کرنے والے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جن میں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ آپ کے ممتاز شاگردوں میں ہشام بن حکم، محمد بن مسلم، ابان بن تفلب، ہشام بن سالم، مفصل بن عمر اور جابر بن حیان کا نام بطور خاص لیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے بڑا نام پیدا کیا۔ مثال کے طور پر ہشام بن حکم نے اکتیس کتابیں اور جابر بن حیان نے دو سو سے زائد کتابیں مختلف علوم و فنون میں تحریر کی ہیں۔ جابر بن حیان کو علم کیمیا میں بڑی شہرت حاصل ہوئی اور وہ بابائے علم کیمیا کے نام سے مشہور ہیں۔ اہل سنت کے درمیان مشہور چاروں مکاتب فکر کے امام بلاواسطہ یا بالواسطہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں، خاص طور پر امام ابو حنیفہ نے تقریبا” دو سال تک براہ راست آپ سے کسب فیض کیا۔
آپ کے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے امام ابو حنیفہ نے کہا ہے: ” میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔” ایک اور مقام پر امام ابو حنیفہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے میں کہا: "اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہو جاتا۔" بہرحال علمی میدان میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمات ناقابل انکار ہیں، فقہ، کلام اور دیگر علوم میں سب سے زیادہ احادیث امام صادقؑ سے نقل ہونے کی وجہ سے مکتب اہل بیت کو مذہب جعفری بھی کہا جاتا ہے، یعنی موجودہ دور میں امام صادق علیہ السلام مذہب جعفری کے بانی اور مؤسس کے طور پر مشہور ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مکتب اہل بیت سے متعلق معصومین علیہم السلام سے منسوب احادیث کا ایک بڑا حصہ امام عالی مقام سے نقل ہوا، کیونکہ آپ کو اپنے علمی فیوضات سے دنیا کو مستفید کرنے کا تھوڑا سا موقع میسر آیا۔ بہر کیف امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی خدمات کا مکمل احاطہ ناممکن ہے، ویسے بھی آپ کا اسم گرامی جعفر ہے، جس کے معنی نہر کے ہیں، گویا قدرت کی طرف سے اشارہ ہے کہ آپ کے علم و کمالات سے دنیا سیراب ہو جائیگی۔