پاکستان کے سول ایوارڈز کی ’بے توقیری‘
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 مارچ 2025ء) دنیا کے کسی بھی ملک میں قومی اعزازت کا عطا کیا جانا ایک معمول کی لیکن قابل فخر بات سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی ہر سال یوم پاکستان کے موقع پر متعدد شخصیات کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر اعلیٰ قومی اعزازات سے نوازے جانے کی روایت رہی ہے۔ تاہم گزشتہ کچھ سالوں سے یہ سالانہ تقریب مختلف تنازعات کا شکار رہی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی حکومتیں ان قومی اعزازات کو اپنے چہیتے اور نا اہل افراد کو نوازنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز صحافی اور لاہور پریس کلب کے سابق صدر سید ثقلین امام نے بتایا کہ یہ درست ہے کہ سائنس اور سماجی علوم وغیرہ کے شعبوں میں کسی حد تک میرٹ کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن صحافت کے میدان میں اپنے ہم نواوں کو نوازنا حکومتوں کی پرانی روایت ہے۔
(جاری ہے)
'' کوئی بیس برس پہلے تک ان شہری اعزازات کا کچھ نہ کچھ بھرم باقی تھا لیکن اب تو حال یہ ہو گیا ہے کہ لگتا ہے کہ میرٹ کی کھلم کھلا دھجیاں بکھیر کر ان ایوارڈز کی تذلیل کی جا رہی ہے۔‘‘اعزازات کے شعبے سے متعلقہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ایک سینئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ درست ہے کہ ان اعزازات کی تقسیم میں دباؤ اور سفارش چلتی ہے اور کئی مرتبہ کچھ با اثر لوگ بھی میرٹ سے ہٹ کر بھی یہ اعزازات لے جاتے ہیں لیکن یہ بات درست نہیں کہ سارے فیصلے میرٹ کے برعکس ہوتے ہیں۔
''ہاں یہ بات درست ہے کہ شعبہ صحافت، آرٹ ، ادب اور تعلیمی شعبے سمیت کئی میدانوں کے کچھ ناموں کا فیصلہ بعض اوقات ' آوٹ آف دی باکس‘ بھی ہو جاتا ہے۔پاکستان میں ہر سال 23 مارچ کو حکومت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان کی خدمات کے اعتراف میں شہری اعزاز دیتی ہے۔ اس سال صدر آصف علی زرداری نے ایوانِ صدر میں منعقدہ ایک تقریب میں صحت، تعلیم، ادب، صحافت، عوامی خدمت، تحقیق، سفارت کاری اور معیشت جیسے شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے پاکستانی اور غیر ملکی افراد کو اعزازات دیے ہیں۔
ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو بعد از وفات ملک کے اعلیٰ ترین سول اعزاز نشانِ پاکستان سے نوازا گیا ہے۔ جس کے بارے میں کہا گیا کہ ملک، جمہوریت اور عوام کے لیے ان کی خدمات کا اعتراف تھا۔ ثقلین امام سمجھتے ہیں کہ حکومتی حمایت میں اپوزیشن سیاست دانوں کو ٹی وی پر گالیاں دینے والے صحافیوں کی فہرست کے ہمراہ بھٹو کے ایوارڈ کا سن کر انہیں بہت دکھ ہوا ان کے بقول مارشل لا کی بنائی ہوئی عدالت سے غلط سزا پانے والا بھٹو ایسے ایوارڈز سے بہت بلند شخصیت کا حامل تھا۔
ایف سی کالج یونیورسٹی میں پروفیسر آف ماس کمیونیکیشن ڈاکٹر الطاف خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اچھی حکومتیں میڈیا کو آزادی دیتی ہیں اور میڈیا حکومتی خامیوں کی نشاندہی کرکے ان حکومتوں کو اچھا بناتا ہے۔ ان کے بقول اپنے آپ کو مشکل میں ڈال کر سچ کہنا اور حکومتوں کی خامیاں بے نقاب کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن ایوارڈ لینا بہت آسان کام ہے۔
''اب حکومتوں سے ایوارڈ لینے والے صحافیوں کو سوچنا چاہیے کہ ایسے ایوارڈز قبول کرکے وہ اپنی ساکھ کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔‘‘ثقلین امام سمجھتے ہیں کہ صحافی کا بنیادی کام حکومتی کارکردگی پر ناقدانہ نظر رکھنا اور اس کی خامیوں کو سامنے لانا ہوتا ہے لیکن سرکار کی تابعداری پر سرکار سے ایوارڈ لینا کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔
جس طرح ماضی میں حکومتیں صحافیوں کو پریس ،پلاٹ ،پیسے، پرمٹ اور ڈیکلیریشن دے کر نوازتی تھیں اب کنگال حکومتیں انہیں ایوارڈز دے کر اپنا ہمنوا بنائے رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ '' ایک کرائم رپورٹر کا کام پولیس کی کارکردگی پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اگر پولیس ہی کرائم رپورٹر کو ایوارڈ دے دے اور کرائم رپورٹر یہ ایوارڈ لے لے تو صحافی کی صحافت کیا رخ اختیار کرے گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ اچھے صحافی کے کام کو تاریخ یاد رکھتی ہے اور لوگوں کا اس کے کام کو تسلیم کرنا ہی اس کے لیے ایوارڈ ہے۔‘‘دنیا بھر میں عام طور پر یونیورسٹیوں ، صحافتی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں یا مختلف فاؤنڈیشنیں صحافیوں کو ایوارڈز دیتی ہیں۔ لیکن حکومت کی طرف سے من پسند صحافیوں کو بغیر میرٹ سے اس طرح نوازنا درست نہیں ہے۔ اصل میں پاکستان کے غیر سرکاری شعبے میں کسی ادارے میں حسین نقی، ایم اے نیازی اور سعید آسی جیسے لوگوں کا ایک پینل ہونا چاہیے، جو صحافیوں کی پیشہ وارانہ کارکردگی کی پروفیشنل جانچ کرے اور یہ بھی دیکھے کہ ان کی صحافت سے معاشرے میں کیا بہتری آئی۔
پھر وہ ان کو ایوارڈ دے۔ صحافیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی زندگی میں ایوارڈز سے بھی زیادہ ان کا کردار اہم ہوتا ہے۔پاکستان کے ایک کامیاب اور نوجوان کوہ پیما شہروز کاشف نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان کے ساتھ کئی برسوں سے سول ایوارڈز کے ضمن میں زیادتی ہو رہی ہے اب اگر حکومت انہیں ایوارڈ دے گی بھی تو وہ نہیں لیں گے۔
پاکستان کے کم عمر ترین کوہ پیما شہروز آٹھ ہزار میٹر سے بھی بلند چودہ چوٹیاں سر کر لینے کے باوجود سول ایوارڈز سے محروم ہیں جبکہ ان کے بقول جن لوگوں نے صرف پانچ اور آٹھ چوٹیاں سر کی تھیں انہیں سول ایوارڈز مل چکے ہیں۔ شہروز کا نام کئی مرتبہ اس کی تصویر کے ساتھ گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آ چکا ہے۔ ''میں نے اپنی گاڑی اور پلاٹ بیچ کر کوہ پیمائی کے اخراجات پورے کیے اور پاکستان کا نام روشن کیا لیکن مجھے ہر سال ایوارڈ کا وعدہ کرکے عین موقعے پر کسی اور کو دے دیا جاتا ہے۔‘‘یاد رہے اس مرتبہ جن لوگوں کو سول ایوارڈز ملے ہیں ان کی فہرست طویل ہے لیکن ان میں صدر آصف علی زرداری کے مبینہ دوست جو متعدد مقدمات میں زیر تفتیش رہے ہیں ان کے نام بھی شامل ہیں۔ ایک صارف نے ایکس پر لکھا اگر آج ڈبل شاہ ہوتا تو شاید اسے بھی سول ایوارڈ مل جاتا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سول ایوارڈز پاکستان کے صحافیوں کو سول ایوارڈ سے ایوارڈ ہے لیکن رہی ہے
پڑھیں:
گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250918-03-7
محسن باقری
۲۰۲۵ کا یوم آزادی بہت منفرد انداز میں آیا، ۱۴ اگست کی شب اسلام آباد سمیت ہر چھوٹا بڑا شہر سبز قمقموں سے مینارہ نور بنا رہا، سبز لباس سے مزین بچے بڑے ہوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر ہوا کی دوش پر اُڑنے والے پرچموں کی بہار ہو یا چوکوں چوراہوں اور عمارتوں پر سبز ہلالی پرچموں کی سجاوٹ سے بے تابانہ ساحرانہ مناظر، اس جشن میں سب ہی کا جذبہ دیدنی تھا، بھلا ان جذبوں کو کون شکست دے سکتا ہے۔ یوم آزادی پاکستان اور معرکہ حق و بنیان مرصوص کے پس منظر میں بالخصوص مرکزی تقریب بشمول سربراہان افوج پاکستان اسلام آباد ہو یا گورنر ہاؤس سندھ، فتح کا جشن مناتے ہوئے ہم ’’ٹریک‘‘ سے اترتے ہی رہے۔ بقول علامہ اقبال ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘‘ ذرا فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ کا انداز دیکھیے کہ ربّ کا شکر ادا کرنے کے لیے اونٹنی کے کجاوے پر آپؐ جھکے جارہے تھے، نبی کریمؐ نے فتح کے جشن کا طریقہ ہمیں اللہ سے دعا کرنے اور بذریعہ نماز (شکرانہ) بتایا، لیکن افسوس کہ ہماری یہ تقاریب ملی نغموں اور ثقافتی رنگوں کی آڑ میں مرد وخواتین کے بے حجابانہ رقص و موسیقی سے بچی نہ رہ سکیں، اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو ہم نے ہزیمت والی شکست سے دو چار ضرور کیا لیکن انجانے میں ہم دشمن ہی کی ناچ اور گانے کی ہندو ثقافت کو زندہ کرنے کے امین بھی بنے۔ تقریبات میں ’’فائر ورکس‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے پھونک دیے گئے، گلی محلوں میں بے ہنگم باجے، ملی نغموں کی آڑ میں کان پھاڑتی موسیقی، آتش بازی، دھماکے اور ہوائی فائرنگ علٰیحدہ۔ کہیں کہیں باوقار تقاریب کا بھی اہتمام ہوا لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے، بَھلا یہ اْس قوم کے جشن کا انداز ہے کہ جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ اِس قوم کے ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول جانے سے معذور ہیں، غور کریں کہ جس قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہو، قرض دینے والے دی ہوئی رقم کا تقریباً نصف حصہ قرض کی ادائیگی کی مد میں ہی وصول لیتے ہوں، پہلی نظر میں تو ایسی صورتحال میں اسے فضول خرچی سے ہی تعبیر کیا جائے گا جب کہ کئی اور پہلو بھی قابل غور ہیں۔
بلا شک وشبہ معرکہ حق کی دھاک ایک زمانے پر بیٹھ گئی، دنیا اب ہمارے بارے میں ایک اور زاویہ سے سوچنے پر مجبور ہوئی، لیکن کیا اب ہمارا سفر ختم ہوگیا، ۱۴ اگست تو دراصل تجدید عہد کا دن ہے، پاکستان کو نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن کرنے بلکہ اقوام عالم میں ہر شعبہ زندگی میں سبقت حاصل کرنے کا ایک عزم ہونا چاہیے، ۱۴ اگست کو اگر ہمارے جذبے جنوں بنے ہیں تو ان جذبوں کو ہمیں سلامت بھی رکھنا ہے اور ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا بھی ہے، لیکن ایک لمحے ٹھیر کر دیکھیں کیا ہمیں وہ ساز و سامان میسر ہے کہ جس کے بل پر ہمیں ترقی یافتہ اقوام کا صرف مسابقہ ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اپنا کھویا ہوا علمی اور سماجی مقام بھی واپس لینا ہے۔ آج ہم اس تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں جو کردار بناتی ہے، ہماری اخلاقی حالت ایسی ہے کہ کئی مرتبہ حکمران رہنے والی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما ایک سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ ’’وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے‘‘۔ اسی پیرائے میں ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کی باتوں اور وعدوں کو بے لاگ صداقت کی کسوٹی پر جانچ لیجیے، اسی کا پرتو ہمیں عوامی سطح پر نظر آتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اسی طرح تول میں ہمارے دینے کے پیمانے اور ہیں اور لینے کے اور۔
یہی معیار دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے بانٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
گرین پاسپورٹ کے حوالے سے ہی اقوام عالم میں اپنی ساکھ کا اندازہ کر لیں جو ’کمزور ترین‘ پاسپورٹوں میں شامل ہے، صرف 32 ممالک میں ویزا فری داخلے کی سہولت حاصل ہے۔ معاصر جریدہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان اس وقت صرف جنگ زدہ ممالک صومالیہ، یمن، عراق، شام اور افغانستان سے بہتر پوزیشن پر فہرست میں 96 ویں نمبر پر ہے۔
کرپشن کا معاملہ بھلا کس کی نظروں سے پوشیدہ ہو سکتا ہے، چند دن پیش تر ہی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان کس طرح میڈیا میں چرچے کا باعث رہا جب انہوں بیوروکریٹس پر پرتگال میں جائدادیں بنانے کا انکشاف کیا، اس پر ایک بڑا رد عمل سامنے آیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اب ان بیوروکریٹس کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔ اس ملک پر تین بار نواز شریف حکمران رہے اور اب شہباز شریف کا دور حکمرانی ہے، خواجہ آصف کا یہ بیان کیا اچھنبے کی بات نہیں، کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ گئے عشروں اور حالیہ دور حکمرانی میں کرپشن کے خلاف (ن) لیگ کی حکومت کی کیا کار کردگی رہی، کیا وزیروں کا کام عوامی سطح پر کرپشن کا اعتراف اور اعلان ہی رہ گیا ہے، کیبنٹ میٹنگ، پارٹی کی حکومت کیا صرف اپنوں کو نوازنے کا نام ہے جس کی جھلک ہم نے ۱۴ اگست کے قومی اعزازات کی بندر بانٹ میں دیکھی۔ تعلیمی لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں ہماری یونیورسٹیاں کتنی اور کس درجہ بندی میں آتی ہیں؟، یہ تو چند پیرائے ہیں، اگر ان کو ہی تھوڑا سا وسیع کر کے دیکھ لیں تو ہمیں از خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اقوام عالم کی صف میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) جو کسی ملک کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی پیمائش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی شامل ہیں، پاکستان درجہ بندی کی آخری درجے ’’لو ہیومن ڈیولپمنٹ‘‘ میں 193 ممالک میں سے 168 ویں نمبر پر فائز ہے۔
داخلی محاذ پر ہماری سیاسی چپقلش ذاتی دشمنیوں میں ڈھل چکی ہے، ہم آپس میں باہم دست و گریبان ہیں اور باہمی عناد پھوٹ پھوٹ کر ہمارے داخلی انتشار کی گواہیاں دے رہا ہے، ایک فریق اگر مشق ستم ہے تو دوسرا فریق اِن کی گرفتاریوں اور سزاؤں پر شاداں اور فرحاں ہے، کہیں کھل کر دلی بغض کا اظہار ہو رہا ہے تو کہیں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کھلا اور چھپا عِناد جس کی زد میں کوئی آئے یا نہ آئے لیکن نادانی میں اغیار کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں نتیجہ میں قومی اتحاد پارہ پارہ ہے۔ دوسری جانب ایسے لگتا ہے کہ اسی طرح اس نظام کو ان ہی گھسے پٹے بکاؤ عناصر کے ساتھ دھکا لگایا جاتا رہے گا جو کبھی ایک سیاسی پارٹی کبھی دوسری سیاسی پارٹی کے ساتھ، کبھی دبکا دیے جائیں تو چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں، کبھی چمکارے جائیں تو تھوڑا سا حوصلہ پکڑ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو ’’بْوٹ‘‘ کا طعنہ بھی دیتے ہیں، ایسے بے ضمیر سیاسی عناصر کے ساتھ ایک نا ختم ہونے والے مقتدر دورانیے کو منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کو ترقی کی سمت گامزن کرنا تو بہت دور کی بات ہے دور رس نتائج کی حامل ترقی کی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جا سکے گی۔ ہم تعلیم اور تحقیق میں کسی گنتی میں نہیں، کچھ کردار کے حوالے سے کچھ ہماری کرپشن کا اگر شْہرہ ہے تو کچھ زبردستی کا ہم پر دہشت گردی کا ٹھپا ہے، بد ترین معاشی صورتحال ایسی کہ ہم آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں، وہ باقاعدگی سے ہمیں ٹیکس اور دیگر معاملات میں ہدایات جاری کرتے ہیں اور ہم باقاعدہ مِن و عَن اْن کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا صفائیاں پیش کرتے اور اْن کے کہے کی مہلت عمل لیتے ہیں۔
جہاں گزشتہ مہینوں ملک کے طول و عرض بشمول راولپنڈی اور کراچی میں زلزلے کے متعدد جھٹکے آئے، کے پی اور پنجاب میں بارش اور سیلاب سے بڑی جاں لیوا ہولناک بربادی آئی، سندھ میں بارشوں سے تباہی ہوئی، سوچنے کا مقام ہے کہ کہیں یہ ربّ کائنات کی ناراضی کا مظہر تو نہیں اور ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہو، بہرحال کسی کو مورد الزام ٹھیرائے بغیر مقاصد قیامِ پاکستان سے تجدید عہد، انفرادی و اجتماعی توبہ، اپنے کیے پر پشیمانی، مہلت عمل اور ربّ کی رضا کے حصول کی تمنا اور توفیق کے ساتھ ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے منافقت اور تناقص کو خارج کریں۔
اگر مسلمان ہیں تو مخلص مسلمان اور پاکستانی بنیں، اسلام کے رنگ میں رنگ کر ظاہراً نہیں حقیقتاً یک رنگ ہو جائیں۔
اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اْن کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر اِنحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو مِلت بھی گئی