Juraat:
2025-04-25@02:20:13 GMT

کسانوں کے خلاف مودی سرکار کی بربریت

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

کسانوں کے خلاف مودی سرکار کی بربریت

ریاض احمدچودھری

فروری 2024 میں شروع ہونے والا کسان دھرنا اب ایک بڑی مزاحمتی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ مودی سرکار کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے خلاف کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات کی منظوری تک پیچھے نہیں ہٹیں گے۔پنجاب حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود، کسانوں کی بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحریک بھارتی حکومت کے جبر کے خلاف ایک بڑی مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔
بھارتی حکومت نے پنجاب میں کسانوں کے احتجاجی کیمپوں پر کریک ڈاؤن کرتے ہوئے سیکڑوں کسانوں کو حراست میں لے لیا اور ان کے کیمپوں کو بلڈوزر کے ذریعے مسمار کر دیا۔کسان گزشتہ سال فروری سے ہریانہ اور پنجاب کی سرحد پر دھرنا دیے ہوئے تھے اور نئی دہلی کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر پولیس نے انہیں روکا تھا۔ اس کارروائی میں کسانوں نے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی، اور وہ خود بسوں میں سوار ہو کر روانہ ہوئے۔بھارتی ریاست پنجاب اور ہریانہ میں کسانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، مگر کسان اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ حالیہ کارروائی میں پنجاب پولیس نے کسان رہنما جگجیت سنگھ دلیوال، سروان سنگھ اور دیگر کئی مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔
کسان رہنما چندی گڑھ میں حکومت سے مذاکرات کے بعد واپس جا رہے تھے جب موہالی کے مقام پر انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ دوسری جانب، کھنوری بارڈر پر کسانوں کے احتجاجی کیمپ کو بلڈوز کر دیا گیا، جبکہ پولیس نے شمبو کھنوری بارڈر سے متعدد کسانوں کو زبردستی بے دخل کر دیا۔پولیس نے کسانوں کو بسوں میں زبردستی دھکیل دیا، ان کی پگڑیاں اچھالیں، اور ایمبولینس میں موجود کسان رہنما کو حراست میں لے لیا۔ بھارتیہ کسان یونین کے رہنما کلونت سنگھ نے الزام لگایا کہ پولیس نے بزرگ کسانوں کو باہر نکلنے کا موقع تک نہیں دیا اور ان کے ٹریکٹر اور سامان وہیں چھوڑنے پر مجبور کیا۔
دہلی چلو مارچ ناانصافی کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہیں، مودی سرکار جارحانہ پالیساں لاگو کرکے انصاف کا قتل کر رہی ہے۔بھارتی کسان رہنما راکش ٹکیت نے حکومت کی دوہری پالیسی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف حکومت مذاکرات کا دعویٰ کر رہی ہے اور دوسری طرف کسانوں کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے۔ پنجاب کی حکومتی پارٹی (آپ) نے کسانوں کے مطالبات کی حمایت کی ہے، تاہم انہوں نے احتجاج کے طریقہ کار پر اعتراض کیا ہے۔یاد رہے کہ 2021 میں مودی حکومت کو کسانوں کے بڑے احتجاج کے بعد زرعی قوانین واپس لینے پڑے تھے، اور اب ایک مرتبہ پھر بی جے پی حکومت کسانوں کے احتجاج کے دباؤ کا شکار ہے۔
یہ کسان جو طویل عرصے سے بھارتی حکومت کی بے حسی اور بربریت کا شکار ہیں ،اب بھوک ہڑتال پر مجبور ہیں کیونکہ ان کی پرامن اپیلوں سے حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ بی جے پی حکومت ان کی حالت زار کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔احتجاج میں شدت پولیس کے مسلسل جبر اور بی جے پی کی ہندوتوا حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آئی ہے جس کے بارے میں کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ سکھ برادری کو نقصان پہنچانا اور پنجاب کی ثقافتی شناخت کو مٹانا چاہتی ہے۔پنجاب کے کسانوں کے مطالبات کو نظر انداز کیے جانے کے بعد ان کی جدوجہد بقاء کی جنگ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ بھوک ہڑتال تادم مرگ مودی انتظامیہ کی طرف سے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف انتہائی اقدام ہے، جس پر کسانوں کا الزام ہے کہ وہ بھارت کو جمہوریت سے آمریت میں تبدیل کر رہی ہے۔
پنجاب اور ہریانہ کے کسان گزشتہ سال 13 فروری سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسانوں کی ایک تنظیم ‘سمیوکت کسان مورچہ’ (ایس کے ایم، غیر سیاسی) کے سربراہ جگجیت سنگھ ڈلیوال کھنوری میں گزشتہ سال 26 نومبر سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ اس درمیان بارہا ان کی صحت خراب ہوئی۔سپریم کورٹ نے ڈلیوال کی صحت کی نگرانی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے گزشتہ دنوں ان سے ملاقات کی تھی۔ اس نے ‘آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز’ (ایمس) کے ڈاکٹرز کی بھی ایک کمیٹی بنائی ہے۔
کسانوں کی تنظیمیں اور حکومت کے مابین اب تک مذاکرات کے متعدد دور ہوچکے ہیں، لیکن ابھی تک اس کے کوئی ٹھوس نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔کسانوں نے اپنے مطالبات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ایک تو اپنے تحفے میں دیے جانے والے قانون واپس لے۔ دوسرا یہ کہ جو کسانوں کی جانب سے مانگا جا رہا ہے وہ بلا مشروط طور پر کسانوں کو فراہم کر دیا جائے۔ یعنی کہ کسانوں کو ان کی کاشتہ فصلوں پر اس کا جائز قانونی حق کو برقرار رکھا جائے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے اب تک کسانوں کے ان مطالبات کو منظور کرنے کی بجائے صرف اپنے منظور شدہ قانون یعنی ‘ایسنشل کموڈیٹیز ایکٹ 2020ء ‘ کی وضاحت ہی پیش کی جاتی رہی ہے، لیکن کسانوں کے چند واضح نکات ہیں کہ حکومتی قانون میں لکھا جائے کہ کسان کو اس کی طے کردہ کم سے کم رقم دی جائے گی، جو کہ لازمی ہوگا اور دونوں فریقین پر یکساں نافذ ہو گا۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: بھارتی حکومت کسانوں کے کسانوں کو کسانوں کی کر رہی ہے پولیس نے حکومت کی کے خلاف کر دیا

پڑھیں:

آرٹیکل 370کی منسوخی مودی سرکار کا ناکام اقدام ثابت

حالات غیر مستحکم، مقبوضہ وادی کا کنٹرول مودی سرکار کے ہاتھ سے نکل چکا

مقبوضہ کشمیر جنگی جنون میں مبتلا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور آرٹیکل 370 کی منسوخی بھی مودی سرکار کا ایک ناکام اقدام ثابت ہوا ہے ۔بھارتی ٹی وی کے مطابق آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال غیر مستحکم و تشویش ناک ہے اور مقبوضہ وادی کا کنٹرول مودی سرکار کے ہاتھ سے نکل چکا ہے ، جس سے امن کے دعوے بے بنیاد ثابت ہو رہے ہیں۔آرٹیکل370 کی منسوخی سمیت مودی کی تمام یکطرفہ پالیسیوں نے عوامی غصے کو بغاوت کی شکل دے دی ہے ۔یاد رہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی پر امت شاہ نے اسے پارلیمنٹ میں تاریخی قدم قرار دیا تھا اور دعوی کیا تھا کہآرٹیکل 370 ہٹانے سے کشمیر میں دہشت گردی ختم ہوگی امن ویکساں حقوق ملیں گے ۔حالات نے ثابت کردیا ہے کہ امت شاہ کے یہ دعوے حقیقت سے کوسوں دور ہیں اور مقبوضہ وادی آج بھی سلگ رہی ہے ۔مودی حکومت نے کشمیری عوام اور قیادت کو نظرانداز کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا تھا۔ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور دیگر رہنماں کو نظر بند کیا، جس کے ردعمل میں احتجاج اور تحریکیں شدت پکڑ گئیں۔مودی کی پالیسیوں کے خلاف جموں و کشمیر اپنی پارٹی جیسی جماعتیں منظر عام پر آئیں۔ اس کے علاوہ بھی کشمیر میں مودی حکومت کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور آزادی کی آوازیں مزید بلند ہو رہی ہیں ۔مودی حکومت کے اقدامات سے کشمیر ایک کھلی جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ کرفیو نافذ کرکے انسانی حقوق کی پامالیاں عام بات بن چکی ہے ۔ یہاں تک کہ ہیومن رائٹس واچ نے 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر میں حقوق کی پامالیوں کو دستاویزی شکل دی۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2020 اور 2021 میں 200 سے زائد شہری سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں فیک انکانٹر میں مارے گئے ۔ ہزاروں کشمیری بشمول سیاسی رہنماں، کارکنوں اور طلبا کو بغیر الزام یا مقدمے کے گرفتار کیا گیا۔انسانی حقوق تنظیم کے مطابق اگست 2019 سے فروری 2020 تک 7 ماہ کی طویل انٹرنیٹ کی بندش سے زندگی مفلوج ہیں اور پابندیاں اب بھی جاری ہیں۔ فوجی کارروائیوں کے دوران تشدد اور ریپ کے واقعات میں اضافہ ہو چکا ہے جب کہ میڈیا پر پابندیاں ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں مودی کیجبر کیخلاف جاری مزاحمت، آزادی کے لیے کشمیری عوام کے عزم کی عکاسی ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • آرٹیکل 370کی منسوخی مودی سرکار کا ناکام اقدام ثابت
  • بھارتی فوجیوں کا مودی حکومت کے خلاف بغاوت آمیز بیان،بھارت آزاد نہیں،مودی ناکام ہو چکا،اب بھارت پر فوج حکومت کرے گی، بھارتی فوج پھٹ پڑی
  • پہلگام واقعے کے پس منظر میں بھارت کا رویہ نہایت افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے، بیرسٹر محمد علی سیف
  • پہلگام حملہ: بھارتی بیانیہ مسترد، کشمیریوں نے مودی سرکار کی ’چال‘ قرار دیدیا
  • پہلگام حملہ: مودی سرکار کی مہم ناکام، بھارتی پروپیگنڈا بے نقاب!
  • نہری منصوبہ کسان دشمنی ہے، حکومت آئینی حدود سے تجاوز کر رہی ہے، پیپلز پارٹی
  • پنجاب اسمبلی: گندم کی قیمت کا اعلان نہ ہونے پر اپوزیشن کا احتجاج: چھوٹے کسانوں کو تحفظ دینگے، حکومت
  • مراد علی شاہ کو گنڈاپور سے مختلف ہونا چاہیے،سندھ حکومت 16 سالہ کارکردگی دکھائے، عظمیٰ بخاری
  • مودی سرکار اور مقبوضہ کشمیر کے حالات
  • پنجاب کے کسان کی بات کرنے والوں کو سندھ نظر نہیں آتا: عظمٰی بخاری