کسانوں کے خلاف مودی سرکار کی بربریت
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
ریاض احمدچودھری
فروری 2024 میں شروع ہونے والا کسان دھرنا اب ایک بڑی مزاحمتی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ مودی سرکار کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے خلاف کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات کی منظوری تک پیچھے نہیں ہٹیں گے۔پنجاب حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود، کسانوں کی بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحریک بھارتی حکومت کے جبر کے خلاف ایک بڑی مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔
بھارتی حکومت نے پنجاب میں کسانوں کے احتجاجی کیمپوں پر کریک ڈاؤن کرتے ہوئے سیکڑوں کسانوں کو حراست میں لے لیا اور ان کے کیمپوں کو بلڈوزر کے ذریعے مسمار کر دیا۔کسان گزشتہ سال فروری سے ہریانہ اور پنجاب کی سرحد پر دھرنا دیے ہوئے تھے اور نئی دہلی کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر پولیس نے انہیں روکا تھا۔ اس کارروائی میں کسانوں نے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی، اور وہ خود بسوں میں سوار ہو کر روانہ ہوئے۔بھارتی ریاست پنجاب اور ہریانہ میں کسانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، مگر کسان اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ حالیہ کارروائی میں پنجاب پولیس نے کسان رہنما جگجیت سنگھ دلیوال، سروان سنگھ اور دیگر کئی مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔
کسان رہنما چندی گڑھ میں حکومت سے مذاکرات کے بعد واپس جا رہے تھے جب موہالی کے مقام پر انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ دوسری جانب، کھنوری بارڈر پر کسانوں کے احتجاجی کیمپ کو بلڈوز کر دیا گیا، جبکہ پولیس نے شمبو کھنوری بارڈر سے متعدد کسانوں کو زبردستی بے دخل کر دیا۔پولیس نے کسانوں کو بسوں میں زبردستی دھکیل دیا، ان کی پگڑیاں اچھالیں، اور ایمبولینس میں موجود کسان رہنما کو حراست میں لے لیا۔ بھارتیہ کسان یونین کے رہنما کلونت سنگھ نے الزام لگایا کہ پولیس نے بزرگ کسانوں کو باہر نکلنے کا موقع تک نہیں دیا اور ان کے ٹریکٹر اور سامان وہیں چھوڑنے پر مجبور کیا۔
دہلی چلو مارچ ناانصافی کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہیں، مودی سرکار جارحانہ پالیساں لاگو کرکے انصاف کا قتل کر رہی ہے۔بھارتی کسان رہنما راکش ٹکیت نے حکومت کی دوہری پالیسی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف حکومت مذاکرات کا دعویٰ کر رہی ہے اور دوسری طرف کسانوں کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے۔ پنجاب کی حکومتی پارٹی (آپ) نے کسانوں کے مطالبات کی حمایت کی ہے، تاہم انہوں نے احتجاج کے طریقہ کار پر اعتراض کیا ہے۔یاد رہے کہ 2021 میں مودی حکومت کو کسانوں کے بڑے احتجاج کے بعد زرعی قوانین واپس لینے پڑے تھے، اور اب ایک مرتبہ پھر بی جے پی حکومت کسانوں کے احتجاج کے دباؤ کا شکار ہے۔
یہ کسان جو طویل عرصے سے بھارتی حکومت کی بے حسی اور بربریت کا شکار ہیں ،اب بھوک ہڑتال پر مجبور ہیں کیونکہ ان کی پرامن اپیلوں سے حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ بی جے پی حکومت ان کی حالت زار کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔احتجاج میں شدت پولیس کے مسلسل جبر اور بی جے پی کی ہندوتوا حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آئی ہے جس کے بارے میں کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ سکھ برادری کو نقصان پہنچانا اور پنجاب کی ثقافتی شناخت کو مٹانا چاہتی ہے۔پنجاب کے کسانوں کے مطالبات کو نظر انداز کیے جانے کے بعد ان کی جدوجہد بقاء کی جنگ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ بھوک ہڑتال تادم مرگ مودی انتظامیہ کی طرف سے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف انتہائی اقدام ہے، جس پر کسانوں کا الزام ہے کہ وہ بھارت کو جمہوریت سے آمریت میں تبدیل کر رہی ہے۔
پنجاب اور ہریانہ کے کسان گزشتہ سال 13 فروری سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسانوں کی ایک تنظیم ‘سمیوکت کسان مورچہ’ (ایس کے ایم، غیر سیاسی) کے سربراہ جگجیت سنگھ ڈلیوال کھنوری میں گزشتہ سال 26 نومبر سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ اس درمیان بارہا ان کی صحت خراب ہوئی۔سپریم کورٹ نے ڈلیوال کی صحت کی نگرانی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے گزشتہ دنوں ان سے ملاقات کی تھی۔ اس نے ‘آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز’ (ایمس) کے ڈاکٹرز کی بھی ایک کمیٹی بنائی ہے۔
کسانوں کی تنظیمیں اور حکومت کے مابین اب تک مذاکرات کے متعدد دور ہوچکے ہیں، لیکن ابھی تک اس کے کوئی ٹھوس نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔کسانوں نے اپنے مطالبات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ایک تو اپنے تحفے میں دیے جانے والے قانون واپس لے۔ دوسرا یہ کہ جو کسانوں کی جانب سے مانگا جا رہا ہے وہ بلا مشروط طور پر کسانوں کو فراہم کر دیا جائے۔ یعنی کہ کسانوں کو ان کی کاشتہ فصلوں پر اس کا جائز قانونی حق کو برقرار رکھا جائے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے اب تک کسانوں کے ان مطالبات کو منظور کرنے کی بجائے صرف اپنے منظور شدہ قانون یعنی ‘ایسنشل کموڈیٹیز ایکٹ 2020ء ‘ کی وضاحت ہی پیش کی جاتی رہی ہے، لیکن کسانوں کے چند واضح نکات ہیں کہ حکومتی قانون میں لکھا جائے کہ کسان کو اس کی طے کردہ کم سے کم رقم دی جائے گی، جو کہ لازمی ہوگا اور دونوں فریقین پر یکساں نافذ ہو گا۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: بھارتی حکومت کسانوں کے کسانوں کو کسانوں کی کر رہی ہے پولیس نے حکومت کی کے خلاف کر دیا
پڑھیں:
پنجاب پولیس کا اسموگ کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن، 24 گھنٹوں میں 28 مقدمات، 396 افراد پر جرمانے
پنجاب پولیس نے اسموگ، فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے جاری کریک ڈاؤن کے دوران گزشتہ 24 گھنٹوں میں نمایاں پیش رفت رپورٹ کی ہے۔
ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق، صوبے بھر میں کارروائیوں کے دوران 28 مقدمات درج کیے گئے جبکہ متعدد قانون شکن افراد کو گرفتار کیا گیا۔
ترجمان کے مطابق 396 افراد پر مجموعی طور پر 10 لاکھ روپے سے زائد کے جرمانے عائد کیے گئے۔ 23 افراد کو وارننگ نوٹس جاری کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیے پنجاب میں اسموگ کے خاتمے کے لیے ’اینٹی اسموگ گنز‘ کا استعمال
فصلوں کی باقیات جلانے کی 37 خلاف ورزیاں، زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی 231 خلاف ورزیاں، صنعتی سرگرمیوں کی 5 اور اینٹوں کے بھٹوں کی 19 خلاف ورزیاں رپورٹ ہوئیں۔
سال 2025 میں مجموعی کارروائیاںرواں سال اب تک لاہور سمیت مختلف اضلاع میں پنجاب پولیس کے اسموگ کریک ڈاؤن کے دوران 2069 مقدمات درج کیے گئے، 1862 افراد گرفتار کیے گئے۔
85 ہزار 216 افراد کو مجموعی طور پر 21 کروڑ 70 لاکھ روپے سے زائد کے جرمانے کیے گئے۔
11 ہزار سے زائد افراد کو وارننگ جاری کی گئی۔
فصلوں کی باقیات جلانے کی 779، زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی 51,258،
صنعتی سرگرمیوں کی 1694 اور اینٹوں کے بھٹوں کی 3284 خلاف ورزیاں رپورٹ ہوئیں۔
انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے تمام اضلاع میں انسدادِ اسموگ کریک ڈاؤن میں تیزی لانے کی ہدایت کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے اسموگ فری پنجاب: ’ایک حکومت، ایک وژن، ایک مشن، صاف فضا‘
انہوں نے کہا کہ اسموگ ایس او پیز کی خلاف ورزی پر ذمہ داران کے خلاف زیرو ٹالرینس کے تحت سخت کارروائی میں تاخیر نہ کی جائے۔
آئی جی پنجاب نے ہدایت کی کہ کارروائیاں شاہراہوں، انڈسٹریل ایریاز اور زرعی علاقوں میں بلا امتیاز جاری رکھی جائیں تاکہ ماحولیاتی آلودگی میں کمی لائی جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسموگ پنجاب