18 مارچ 2025 کو قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان کو دہشتگردی اور علیحدگی پسندی سے نمٹنے کے لیے ہارڈ اسٹیٹ بننا ہو گا۔ جعفر ایکسپریس حملے کے بعد یہ اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ اسی اجلاس میں جنرل عاصم منیر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان آرمی کے جواب گورننس کی ناکامی کی وجہ سے جانوں کی قربانی دے رہی ہے۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اسی اجلاس  سے پی ٹی آئی کے علاوہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور سردار اختر مینگل نے بائیکاٹ کیا تھا۔ سیکیورٹی کے اہم ایشو پر سیاسی تقسیم یہ بتانے کو کافی ہے کہ عدم اتفاق کی اس حال کے ساتھ ریاست دہشت گردی کے مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں دہشتگردی کی اٹھتی لہر، وقتی ہے اور ختم ہو جائےگی

خیبر پختونخوا حکومت ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات خارجہ امور سے متعلق ہے جو صوبائی حکومت کے دائرہ کار سے باہر ہے، ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات اگر صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں آتا بھی ہے تو یہ وفاق کی پالیسی سے بالکل الٹ پالیسی ہے۔ ایسی ڈھیلی ڈھالی حالت کے ساتھ دہشتگردی علیحدگی پسندی کے بڑے مسائل سے نہیں نپٹا جا سکتا۔ پاکستان کا عدالتی نظام نہ تو بے گناہوں کو جلدی ریلیف دیتا ہے نہ ہی دہشتگردوں کے خلاف موثر ثابت ہوا ہے۔

ہارڈ اسٹیٹ سے مراد اگر فیصلے لینے اور ان پر عمل کرنے کا فوری اور تیزرفتار سسٹم اختیار کرنا ہے تو ٹھیک ہے ۔ ہر لیول (صوبائی وفاقی ) پر پالیسی یکساں ہونی چاہیے۔  تضادات کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ پاکستان اگر ہارڈ سٹیٹ کی جانب جاتا ہے تو اسے لازمی آئینی تضادات کا بھی سامنا ہو گا۔ پاکستان کا آئین صوبائی حکومتوں کو وسیع اختیارات دیتا ہے۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے الٹ پالیسی پر عمل پیرا ہے جبکہ بلوچستان حکومت کی عوام میں ٹکے کی ویلیو نہیں ہے۔

 بلوچستان حکومت لیویز اور صوبائی فورسز کے علاوہ صوبائی ملازمین کے دہشتگردوں کے ساتھ رابطے رکھنے والوں کی شناخت اور ان کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہے۔ صوبائی حکومت سے عوامی لاتعلقی بہت بڑھی ہوئی ہے۔ عوامی مشکلات کے جتنے اقدامات صوبائی حکومت کی اپنی ڈومین میں آتے ہیں۔ وہ ان پر بھی عمل کرتے دکھائی نہیں دیتی۔

مزید پڑھیے: مرحلہ وار تمام افغان مہاجرین کو واپس بھجوایا جائےگا

رینڈ کارپوریشن نے سنہ 2013 میں اپنی ریسرچ رپورٹ شائع کی۔ اس میں دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سنہ 2010 تک 71 مسلح تحریکوں کی جانچ کی گئی تھی۔ 24 میں سے 17 ایسی تحریکوں کا جو کامیابی سے ختم کی گئی تھیں ان کے کامن پوائنٹس بتائے گئے تھے۔

صرف فوجی آپریشن سے کوئی تحریک کم ہی ختم ہوتی ہے۔ اس کے لیے ملٹی ڈائمنشنل پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔ عسکریت پسندوں کے بدلتے ٹیکٹک کے ساتھ حکمت عملی کو اپ گریڈ بہتر اور تبدیل کیا جاتا ہے۔ سب سے مؤثر کام نئی بھرتی اور فنڈنگ روکنا ہوتا ہے جس سے تحریک سکڑنا شروع ہو جاتی ہے۔

پاکستان کا بی ایل اے کے خلاف ایک مضبوط کیس ہے۔ یو این سلامتی کونسل کی کمیٹی 1267 میں پاکستان بی ایل اے کو دہشتگرد قرار دینے کے لیے اپنا کیس پیش کر سکتا ہے ۔ سلامتی کونسل کے 5 مستقل ارکان میں سے چین اس تنظیم کا ٹارگٹ ہے۔ امریکا اس کو پہلے ہی دہشتگرد قرار دے چکا ہے۔ روس شنگھائی تعاون تنظیم کا ممبر ہے جو علیحدگی پسندی، دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف ہے۔ پاکستان کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کام ہو گیا تو بی ایل اے کے لیے اسپیس بہت کم ہو جائے گی۔

بلوچستان کے مسائل اصلی ہیں۔ بلوچستان کو اپنے وسائل پر حق ملنا چاہیے۔ بلوچ اگر اپنے لیے زیادہ یا خصوصی اختیارات بھی مانگتے ہیں، تو بھی ان کا مؤقف سننا اور ماننا چاہیے۔ پر امن احتجاج ، اظہار رائے کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت آئین دیتا ہے۔  قانونی حدود کے اندر احتجاج بھی جائز تسلیم کیا جاتا ہے۔ احتجاج میں جب تشدد کا رنگ آتا ہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہو، یا احتجاج کرنے والوں کی جانب سے ادھر قانون باقاعدہ پردہ فرما کر نئی نویلی دلہن کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: یوکرین کی صورتحال اور پاکستان کا فائدہ

ہمارا عدالتی نظام نہ تو بے گناہ کی فوری مدد کو آتا ہے۔ نہ ہی یہ عدالتی نظام دہشتگردوں کو سزا کے انجام تک پہنچاتا ہے۔ یہ سافٹ سٹیٹ کی بھی گئی گزری حالت ہے۔ اگر ہم رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ کی جانب ہی جائیں تو وہ صاف بتاتی ہے کہ صرف آپریشن کسی مسلح تحریک کو ختم نہیں کرتے۔

 گورننس کے مسائل ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سویلین بھی، سیکیورٹی فورسز کے جوان بھی اپنی جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں۔ یہی بری گورننس ہے جو مسائل حل کرنے سے قاصر رہتی آ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے بھی بندوق اٹھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ ایسی ہارڈ اسٹیٹ ہمیں واقعی چاہیے جہاں قانون سب پر نافذ ہوتا ہو۔ ریاست کے ہر شہری کی جان ہر علاقے میں محفوظ ہو۔ اسے زندہ رہنے کسی بھی جگہ جانے اور کام روزگار کرنے کی آزادی ہو۔ اس کی مذہبی نسلی یا لسانی شناخت کی وجہ سے اسے ٹارگٹ نہ کیا جائے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

بلوچستان پارلیمانی کمیٹی اجلاس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سیّد عاصم منیر ہارڈ اسٹیٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلوچستان پارلیمانی کمیٹی اجلاس چیف ا ف ا رمی اسٹاف جنرل سی د عاصم منیر ہارڈ اسٹیٹ صوبائی حکومت پاکستان کا ہارڈ اسٹیٹ کی وجہ سے کے خلاف کی جانب جاتا ہے کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی آل پارٹیز کانفرنس آج ہوگی، اپوزیشن کا شرکت سے انکار

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی آل پارٹیز کانفرنس آج ہوگی، اپوزیشن کا شرکت سے انکار WhatsAppFacebookTwitter 0 24 July, 2025 سب نیوز

پشاور: (آئی پی ایس) خیبرپختونخوا میں قیام امن کیلئے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے آج آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) طلب کی گئی، تاہم اپوزیشن جماعتوں نے کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔

مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی نے متفقہ طور پر اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ نے اے پی سی کو نمائشی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کے فیصلے غیر سنجیدہ ہیں اور ایسی کانفرنس محض سیاسی دکھاوا ہے، حقیقی مسائل کا حل پارلیمانی فلور پر ممکن ہے، نہ کہ نمائشی اجلاسوں میں۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف ایک میز پر بیٹھنے سے مسائل حل نہیں ہوتے، عوامی مسائل کے حل کیلئے عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے اے پی سی کو ”بے مقصد مشق“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اے اے پی سی بحیثیت سیاسی جماعت بلائی ہوتی تو شرکت کرتے۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کانفرنس کے بائیکاٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جو جماعتیں شرکت نہیں کر رہیں وہ درحقیقت صوبے کے مسائل سے لاتعلق ہیں، امن عوام کے تعاون سے ہی ممکن ہے اور حکومت تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کیلئے کوشاں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو اے پی سی میں نہیں آتا اس کی مرضی ہے، امن وامان سب کا مسئلہ ہے، ہر چیز پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسرائیل کیساتھ جنگ کیلئے تیار، پر امن مقاصد کیلئے جوہری پروگرام جاری رہے گا، ایرانی صدر جنرل ساحر شمشاد مرزا کا دورہ ترکیہ، بین الاقوامی دفاعی صنعتی نمائش میں شرکت لانگ مارچ توڑپھوڑ کیس، سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل کے وارنٹ گرفتاری جاری سلامتی کونسل غزہ میں فوری سیز فائر یقینی بنائے، مسئلہ فلسطین کے حل میں کردار ادا کرے، اسحاق ڈار پیپلزپارٹی، اے این پی اور جے یو آئی کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی میں شرکت سے انکار وزیراعظم کی سرکاری کمپنیوں اور اداروں کے بورڈ ایک ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت اسلام آباد میں داخل ہونے والی تمام گاڑیوں پر ایم ٹیگ لگانا لازمی ہوگا: چیئر مین سی ڈی اے کی زیر صدارت اجلاس میں... TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • بانی پی ٹی آئی کے بیٹے ضرور پاکستان آئیں، خوش آمدید کہیں گے، عطا تارڑ
  • اس صوبے میں کسی قسم کے اپریشن کی اجازت نہیں دیں گے
  • نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے مابین اشتراک پاکستان کی اعلیٰ تعلیم میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی
  • اے پی این ایس کے وفد کی سینئر صوبائی وزیر شرجیل میمن سے ملاقات
  • خیبرپختونخوا میں قیام امن کیلئے بلائی گئی اے پی سی، اپوزیشن جماعتوں کا بائیکاٹ
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی آل پارٹیز کانفرنس آج ہوگی، اپوزیشن کا شرکت سے انکار
  • تین اہم سیاسی جماعتوں کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
  • ’حکومتِ پاکستان غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی‘
  • ہم اسرائیل پر دوبارہ حملہ کرنے کیلئے تیار ہیں، ایرانی صدر
  • چار جنرل نشستوں پر ظہیر عباس بانی سے نام لے آئے تھے، سلمان اکرم