قائد اعظم یونیورسٹی میں سانحہ جعفر ایکسپریس کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے امن واک کی گئی۔ اس موقع پر شرکا کی جانب سے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی پر زور دیا گیا۔ امن واک کے دوران طلبہ میں بلوچستان میں جاری دہشت گرد کارروائیوں اور ان کی سہولت کاری میں ملوث افراد کے خلاف شدید غم و غصہ پایا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں سانحہ جعفر ایکسپریس کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے امن واک کی گئی۔ امن واک کا اہتمام قائد اعظم یونیورسٹی کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سائیکالوجی کے زیراہتمام کیا گیا، امن واک میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی بڑی تعداد شریک رہی۔ طلبہ کی جانب سے دہشت گردی سے متاثرہ افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا، اس موقع پر طلبہ نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر 11 مارچ یوم سیاہ اور ہم متحد ہیں جیسے نعرے درج تھے۔

اس موقع پر شرکا کی جانب سے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی پر زور دیا گیا۔ امن واک کے دوران طلبہ میں بلوچستان میں جاری دہشت گرد کارروائیوں اور ان کی سہولت کاری میں ملوث افراد کے خلاف شدید غم و غصہ پایا گیا۔ واک کے شرکا نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: قائد اعظم یونیورسٹی امن واک

پڑھیں:

سانحہ خضدار چراغ علم کو بجھانے کی دلخراش واردات

21 مئی 2025ء کو بلوچستان کے مرکزی شہر خضدار میں ہونے والا دہشت گرد حملہ نہ صرف ایک دلخراش انسانی سانحہ تھا بلکہ یہ پاکستان کی ریاستی رٹ، قومی غیرت، اور علاقائی استحکام کے خلاف ایک چیلنج بھی بن کر سامنے آیا۔ آرمی پبلک اسکول کی بس پر ہونے والا یہ حملہ اس وقت پیش آیا جب درجنوں معصوم طلبہ اپنے خوابوں کے سفینے میں سوار ہو کر علم کے سفر پر روانہ تھے۔ اچانک ایک خودکش حملہ آور بارود سے بھری گاڑی لے کر ان کے سامنے آیا اور بس سے ٹکرا گیا۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ بس کے پرخچے اڑ گئے، معصوم بچوں کی لاشیں دور جا گریں، خون سے زمین سرخ ہو گئی، اور کتابیں، بستے اور یونیفارم ٹکڑوں میں بکھر گئے۔ اس حملے میں چار طلبہ، ڈرائیور اور کلینر موقع پر شہید ہو گئے جبکہ درجنوں بچے زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ محض جانی نقصان نہیں، بلکہ دشمن کی بوکھلاہٹ اور بزدلانہ ذہنیت کا غماز ہے، جو روایتی جنگوں میں بارہا شکست کھانے کے بعد اب معصوموں کے خون سے اپنی تسکین چاہتا ہے۔
خضدار، بلوچستان کا ایک ایسا ضلع ہے جو نہ صرف جغرافیائی بلکہ تزویراتی، عسکری اور تعلیمی لحاظ سے پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ضلع سی پیک کے روٹ پر واقع ہے، اور گوادر سے منسلک زمینی رابطوں کا اہم سنگم ہے۔ بلوچستان کا یہ علاقہ ان قیمتی معدنیات سے مالا مال ہے جو عالمی طاقتوں کی نظروں کا مرکز ہیں تانبہ، سونا، کوئلہ، کرومائٹ اور دیگر قیمتی دھاتیں جن کے ذخائر یہاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی قوتیں اور ان کے مقامی آلہ کار اس خطے کو مستقل بدامنی کی گرفت میں رکھ کر نہ صرف پاکستان کی معیشت کو زک پہنچانا چاہتے ہیں بلکہ علاقائی توازن کو بھی بگاڑنے کے درپے ہیں۔ یہی قوتیں خضدار جیسے علاقوں میں تعلیم، ترقی اور ریاستی ساکھ کے خلاف نفسیاتی جنگ لڑ رہی ہیں، اور آرمی پبلک اسکول جیسے ادارے ان کی آنکھوں میں کانٹے کی مانند چبھتے ہیں کیونکہ یہی ادارے نئی نسل کو شعور، حب الوطنی اور استقامت کی راہ دکھا رہے ہیں۔
دہشت گردی کا یہ واقعہ کسی وقتی جنون یا علاقائی ناراضگی کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ دشمن کی ایک منظم اور گہری منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے۔ بھارت، خاص طور پر مودی سرکار، پاکستان کی عسکری صلاحیتوں اور سفارتی کامیابیوں سے پریشان ہو کر اب پراکسی وار کی راہ پر گامزن ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ بی ایل اے، ٹی ٹی پی، بی ایل ایف اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو مالی، عسکری اور تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے۔ خفیہ اداروں کی رپورٹس اور زمینی شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خضدار حملے کی پشت پر بھی یہی نیٹ ورک کارفرما تھا، جس میں نہ صرف بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ بلکہ اسرائیلی ایجنسی ’’موساد‘‘ اور کچھ مغربی عناصر بھی شامل ہیں۔ ان کا مقصد صرف جانی نقصان نہیں، بلکہ خوف و ہراس پھیلا کر ریاست کی گرفت کو کمزور کرنا اور بلوچستان میں سرمایہ کاری کو روکنا ہے۔
یہ حملہ نظریاتی جنگ کا بھی حصہ ہے۔ دشمن جانتا ہے کہ پاکستانی قوم اگر اپنی فوج اور ریاستی اداروں پر اعتماد کھو دے تو ملک اندر سے کھوکھلا ہو جائے گا۔ معصوم بچوں پر حملہ کر کے قوم کے دل پر چوٹ لگائی گئی ہے تاکہ جذباتی طور پر مایوسی پیدا کی جائے، والدین کو خوفزدہ کیا جائے اور نئی نسل کو علم کی روشنی سے محروم کیا جائے۔ تاہم دشمن یہ بھول جاتا ہے کہ یہ قوم سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد متحد ہوئی، اپنے زخموں کو طاقت میں بدلا، اور دہشت گردی کے خلاف ایک ناقابلِ شکست بیانیہ تشکیل دیا۔ خضدار کا سانحہ ایک بار پھر قوم کو جھنجھوڑ رہا ہے، لیکن یہ جھنجھوڑنا شکست کا پیش خیمہ نہیں بلکہ جاگنے، اٹھ کھڑے ہونے اور فیصلہ کن اقدام کا اعلان ہے۔
ریاست پاکستان اب اس پالیسی پر نہیں رہ سکتی کہ ہر سانحے کے بعد صرف مذمت کے بیانات دیے جائیں۔ یہ وقت عملی اقدامات کا ہے۔ سب سے پہلے بلوچستان میں خفیہ نیٹ ورک کو مزید فعال کرنا ہوگا تاکہ دہشت گردی کی کسی بھی کوشش کو پیشگی ناکام بنایا جا سکے۔ دوسرے، ان گروہوں کے خلاف بلا امتیاز اور بلا خوف ہدفی آپریشنز کیے جائیں چاہے وہ بلوچستان کے پہاڑوں میں ہوں یا سرحد پار افغانستان یا ایران کے علاقوں میں چھپے ہوں۔ تیسرے، بین الاقوامی سطح پر بھارت اور اس کے اتحادیوں کے کردار کو بے نقاب کیا جائے، اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی فورمز پر ان کے جرائم کے شواہد رکھے جائیں تاکہ سفارتی دبا بھی پیدا ہو۔ چوتھے، تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کو ازسرنو منظم اور مضبوط کیا جائے، خاص طور پر ان اداروں کو جو فوجی پس منظر رکھتے ہیں، تاکہ دشمن کی چالوں کو ناکام بنایا جا سکے۔
میڈیا کا کردار بھی اس مرحلے پر کلیدی ہے۔ ایک ایسا قومی بیانیہ تشکیل دینا ہوگا جو قوم کو نہ صرف متحد رکھے بلکہ نئی نسل کو دشمن کے پراپیگنڈے سے محفوظ رکھے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ بتانا ہوگا کہ وہ دشمن کی گولیاں نہیں بلکہ اس کے نظریات کا ہدف ہیں، اور ان کا سب سے بڑا دفاع علم، شعور اور حب الوطنی ہے۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کو مضبوط کریں گے، تو دشمن کی ہر چال ناکام ہوگی۔خضدار میں بہنے والا خون ہمیں جھکنے نہیں، اٹھ کھڑے ہونے کا پیغام دیتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے قومی وقار، ریاستی اداروں اور معصوم شہیدوں کے خون کا حساب لیں ۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ حکومت کی 2700 سے زائد طلبہ کیلئے اسکالرشپ کی منظوری
  • امریکہ نے نئے طلبہ کے لیے ویزا عمل کو روک دیا
  • یوم تکبیر تعطیل کے باعث بیچ نمبر5کے بلوں کی مقررہ تاریخ میں توسیع، ترجمان آئیسکو
  • فتنتہ الہندوستان کے بزدلانہ حملے کیخلاف بلوچستان میں شہداء سے اظہارِ یکجہتی
  • سیاحوں کے لیے خوشخبری
  • صدر اور وزیرِ اعظم کی نوشکی میں پولیو ٹیم پر حملے کی مذمت
  • پاکستان جیسے ممالک دہشتگردی کو سیاحت سمجھتے ہیں، یہ دنیا کیلئے بڑا خطرہ ہے ،نریندرمودی
  • کشمیر کونسل سویڈن کے زیر اہتمام یومِ یکجہتیِ پاکستان و یوم تشکر کا شاندار مظاہرہ
  • سانحہ خضدار چراغ علم کو بجھانے کی دلخراش واردات
  • کشمیر کونسل سویڈن کے زیر اہتمام یوم یکجہتی پاکستان و یوم تشکر کا شاندار مظاہرہ