یکم مئی سے اے ٹی ایم ٹرانزیکشن مزید مہنگی
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
نئی دہلی(کامرس ڈیسک) یکم مئی 2025 سے اے ٹی ایم سے رقم نکالنے پر اضافی چارجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آر بی آئی نے بینکوں کو اے ٹی ایم انٹرچینج فیس بڑھانے کی اجازت دے دی ہے، جس کا اثر خاص طور پر ان صارفین پر پڑے گا جو بار بار اے ٹی ایم کا استعمال کرتے ہیں۔ ہوم بینک نیٹ ورک کے علاوہ کسی اور بینک کے اے ٹی ایم سے کیش نکالنے یا بیلنس چیک کرنے پر اضافی فیس ادا کرنی ہوگی، جس سے صارفین کے لیے یہ سہولت مزید مہنگی ہو جائے گی۔
پہلے جب صارفین ہوم بینک کی جگہ دوسرے بینک کے اے ٹی ایم سے پیسے نکالتے تھے تو 17 روپے دینے ہوتے تھے جو کہ اب اضافے کے ساتھ 19 روپے ہو گئے ہیں۔ ساتھ ہی دوسرے بینکوں کے اے ٹی ایم سے بیلنس چیک کرنے پر پہلے 6 روپے دینے ہوتے تھے جو اب 7 روپے ہو گئے ہیں۔ واضح ہو کہ دوسرے بینک کے اے ٹی ایم سے ٹرانجیکشن فیس تبھی وصولی جائے گی جب فری ٹرانجیکشن کی لمٹ ختم ہو جائے گی۔ میٹرو شہروں میں ہوم بینک کے علاوہ دوسرے بینکوں کے اے ٹی ایم سے فری ٹرانجیکشن کی لمٹ 5 ہے جب کے غیر میٹرو شہروں میں فری ٹرانجیکشن کی لمٹ 3 ہے۔
نیشنل پیمنٹ کارپوریشن آف انڈیا (این ٹی پی سی) کے ذریعہ بھیجے گئے اے ٹی ایم فیس میں اضافے کی تجویز کو آر بی آئی نے منظور کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں لیا گیا ہے جب وائٹ لیبل اے ٹی ایم آپریٹر فیس میں اضافے کی بات کر رہے تھے۔ ان کی یہ دلیل تھی کہ آپریٹنگ اخراجات کی وجہ سے پرانی فیچر میں سروس فراہم کرنا مشکل ہے۔
اگر اہم وائٹ لیبل اے ٹی ایم کی بات کریں تو آر بی آئی نے چھوٹے شہر اور گاؤں تک اے ٹی ایم کی سہولیات دستیاب کرانے کے لیے اے ٹی ایم پیمنٹ اینڈ سیٹلمنٹ سسٹم ایکٹ 2007 کے تحت ان جگہوں پر ایسے اے ٹی ایم لگانے کی منظوری دی ہے، جس میں بینک کا بورڈ نہیں لگا ہوتا ہے۔ ان اے ٹی ایم سے ڈیبٹ، کریڈٹ کارڈ سے پیسے تو نکالے ہی جا سکتے ہیں، ساتھ ہی بل پیمنٹ، منی اسٹیٹمنٹ، چیک بک ریکویسٹ، کیش ڈیپازٹ جیسی سہولیات بھی دستیاب ہوتی ہیں۔
مزیدپڑھیں:پی ٹی آئی کا عید کے 3 روز اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج کا فیصلہ
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے اے ٹی ایم سے بینک کے
پڑھیں:
عالمی بینک کی پاکستان ڈیویلپمنٹ اپ ڈیٹ رپورٹ جاری
عالمی بینک نے پاکستان ڈیویلپمنٹ اپ ڈیٹ رپورٹ جاری کر دی ہے، جس میں پاکستانی معیشت میں بہتری کے ساتھ ساتھ موجود چیلنجز اور آئندہ کے لیے اصلاحاتی سفارشات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی معیشت میں افراط زر میں کمی، شرح سود میں کمی، اور کاروباری اعتماد کی بحالی جیسے مثبت عوامل دیکھنے میں آئے ہیں، جن سے معاشی استحکام ممکن ہوا ہے۔ عالمی بینک نے رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی معاشی شرح نمو 2.7 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے، جب کہ 2026 میں 3.1 فیصد اور 2027 میں 3.4 فیصد ہونے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پرائمری اور کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کے باعث پاکستان نے قلیل مدتی معاشی استحکام حاصل کیا ہے، تاہم سخت معاشی پالیسیوں کی وجہ سے مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں ترقی کی رفتار کم رہی ۔ ٹیکسز،اخراجات میں اضافے کے باعث صنعتی سیکٹر کی سرگرمیاں محدود ہوئیں، جب کہ خدمات کے شعبے کی نمو میں بھی سست روی دیکھی گئی۔
عالمی بینک نے خبردار کیا کہ روزگار کی فراہمی، آبادی میں تیزی سے اضافہ اور غربت میں کمی پاکستان کے لیے بڑے چیلنجز ہیں، اور پائیدار ترقی کے لیے وسیع تر معاشی اصلاحات ناگزیر ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کو حالیہ معاشی استحکام کو طویل مدتی ترقی میں بدلنے کے لیے ایک مؤثر اور ترقی پسند ٹیکس نظام، مارکیٹ پر مبنی شرح تبادلہ، اور درآمدی ٹیرف میں کمی جیسی اصلاحات پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔
عالمی بینک نے مزید کہا کہ کاروباری ماحول کو بہتر بنانے، سرکاری شعبوں میں اصلاحات سے ترقی ممکن ہوگی،۔ تاہم، آئندہ سال کی معاشی نمو سخت مالی اور مالیاتی پالیسیوں سے مشروط ہوگی۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کو قرضوں کی بلند سطح، عالمی تجارتی غیر یقینی صورتحال، اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے منفی عوامل کا بھی سامنا ہے۔
ڈیجیٹل معیشت کے فروغ پر زور دیتے ہوئے عالمی بینک نے کہا کہ پاکستان میں نجی سرمایہ کاری اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی بہتری ضروری ہے۔ رپورٹ میں صوبوں میں انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی کے معیار میں فرق اور فکسڈ براڈبینڈ کی مہنگی قیمتوں کو بھی ڈیجیٹل ترقی میں رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔