خریف سیزن، ارسا نے پانی کی 43 فیصد قلت کا تخمینہ لگا لیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) اجلاس میں خریف سیزن کے آغاز میں پانی کی 43 فیصد قلت کا تخمینہ سامنے آیا ہے۔
چیئرمین ارسا صاحبزادہ محمد شبیر کی زیر صدارت ارسا ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس ہوا، یہ اجلاس خریف سیزن کے دوران دستیاب پانی کے تخمینوں کی منظوری کےلیے بلایا گیا تھا۔
اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ خریف سیزن کے آغاز میں پانی کی 43 فیصد قلت کا تخمینہ ہے، اجلاس میں صرف اپریل کے مہینے کےلیے دستیاب پانی کے تخمینے کی منظوری دی گئی۔
اعلامیے کے مطابق مئی کے پہلے ہفتے میں ارسا ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس دوبارہ ہوگا، جس میں ازسرنو پانی دستیابی کا جائزہ لیا جائے گا۔
محکمہ موسمیات کے حکام نے بارشوں سے متعلق ارسا ایڈوائزری کمیٹی کو بریفنگ دی اور بتایا کہ شمالی اورجنوبی علاقوں میں اپریل، مئی اور جون میں بارشیں معمول سےکم ہوں گی۔
محکمہ موسمیات نے بریفنگ یہ بھی بتایا کہ اپریل، مئی، جون میں درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہنے کی توقع ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: خریف سیزن
پڑھیں:
سول ہسپتال کوئٹہ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سول ہسپتال کوئٹہ کے آڈٹ کے دوران ادویات کے ریکارڈ میں انحراف اور 537 روپے کے آکیسجن سلینڈر کیلئے 40 ہزار ادا کرنے سمیت دیگر بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سنڈیمن پرووینشل (سول) ہسپتال کوئٹہ میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں اور سنگین انتظامی بدنظمی کا انکشاف ہوا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت اجلاس میں پیش کی گئی اسپیشل آڈٹ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2017 تا 2022 کے دوران اسپتال انتظامیہ نے 3 کروڑ روپے مالیت کی ادویات خریدیں، لیکن سپلائی آرڈرز اور بلز میں شدید تضاد پایا گیا۔ ریکارڈ کے مطابق آرڈر ایک کمپنی کو جاری کیا گیا، جبکہ ادائیگی کسی دوسری کمپنی کو کی گئی۔ اس کے علاوہ اسٹاک رجسٹر اور معائنہ کی رپورٹس بھی موجود نہیں ہیں۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ مالی سال 2019-20 کے دوران سول ہسپتال کے مرکزی اسٹور سے دو کروڑ 28 لاکھ روپے مالیت کی ادویات غائب ہو گئیں۔ اس سنگین غفلت پر مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابقہ فارماسسٹ نے بیماری کے باعث بروقت انٹریاں درج نہیں کیں۔ تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ فارماسسٹ کی جانب سے آج تک مکمل ریکارڈ جمع نہیں کرایا گیا۔ اس کے علاوہ آکسیجن سلنڈرز کی زائد نرخوں پر خریداری سے حکومتی خزانے کو ساڑھے 13 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ معاہدے کے تحت سلنڈرز کی قیمت 537 روپے مقرر تھی، لیکن وبائی دور میں مارکیٹ سے 40 ہزار روپے فی سلنڈر کے ناقابل یقین نرخ پر خریداری کی گئی۔ مزید یہ کہ تمام کوٹیشنز ایک ہی تحریر میں تیار کی گئی تھیں، جس سے شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ کمیٹی نے ان تمام معاملات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور ذمہ دار افسران کی شناخت اور غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کارروائی اور انکوائری کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔