اگر آپ گوگل کروم استعمال کرتے ہیں تو اسے فوری اپ ڈیٹ کرلیں کیونکہ ۔۔۔!!!اہم خبر آ گئی
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اگر آپ گوگل کروم ویب براؤزر استعمال کرتے ہیں تو فوری طور پر اسے اپ ڈیٹ کرلیں۔گوگل کی جانب سے دنیا کے مقبول ترین ویب براؤزر میں موجود ایک بڑی سکیورٹی خامی دور کرنے کے لیے اپ ڈیٹ کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے 50 سے 60 فیصد افراد براؤزنگ کے لیے گوگل کروم کو ترجیح دیتے ہیں، تو اس میں موجود سکیورٹی کمزوری بہت بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ونڈوز آپریٹنگ سسٹم پر کام کرنے والے کمپیوٹرز میں کروم براؤزر میں یہ سکیورٹی خامی سامنے آئی تھی۔
کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ اس نے سکیورٹی کمزوری کی روک تھام کے لیے اپ ڈیٹ کی ہے۔گوگل نے بتایا کہ CVE-2025-2783 نامی سکیورٹی بگ سے صارفین کو خطرہ لاحق ہے۔کچھ دن قبل آن لائن سکیورٹی کمپنی Kaspersky کے ماہرین نے اس خامی کا انکشاف کیا تھا۔
ماہرین کے مطابق ہیکرز پہلے ای میلز بھیجتے ہیں اور جو افراد ای میل پر موجود لنک کو کلک کرتے ہیں وہ ایسی ویب سائٹس پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے بگ (bug) فوری طور پر ان کے کمپیوٹر ڈیٹا تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔گوگل نے تسلیم کیا کہ ہیکرز نے اس خامی کو استعمال کرکے مختلف صارفین کو نشانہ بنایا ہے اور یہی وجہ ہے کہ براؤزر کو فوری اپ ڈیٹ کرلینا چاہیے۔
کروم براؤزر کو اپ ڈیٹ کیسے کریں؟
عموماً گوگل کروم خودکار طور پر اپ ڈیٹ ہوجاتا ہے۔اگر آپ کو معلوم نہیں کہ براؤزر اپ ڈیٹ ہوچکا ہے یا نہیں تو تھری ڈاٹ مینیو پر کلک کرکے سیٹنگز میں جائیں۔وہاں اباؤٹ کروم پر کلک کریں جو پیج کے بائیں جانب سب سے نیچے ہوگا۔
اس کے بعد کروم کی جانب سے بتایا جائے گا کہ براؤزر اپ ٹو ڈیٹ ہے، اگر نہیں ہوگا تو وہ اپ ڈیٹ ہونا شروع جائے گا۔اس کے بعد بس ری لانچ کریں گے تو کروم اپ ڈیٹ ہوجائے گا۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: گوگل کروم براو زر اپ ڈیٹ
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔