لاہور:

تاریخی شاہی قلعے میں ایک منفرد فنکار اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہا ہے، جو خود کو 'گولڈن کنگ آف لاہور' کے نام سے متعارف کرواتا ہے، یہ نوجوان ایک گریجویٹ ہے، جنہوں نے اپنے حالات سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے اپنے فن کو ذریعہ معاش بنایا۔

یہ کہانی ایک ایسے نوجوان کی ہے جو پہلے ایک سرکاری ملازم تھا مگر نوکری ختم ہونے کے بعد اسے زندگی کی نئی راہیں تلاش کرنا پڑیں، نوکری کے خاتمے کے بعد اس نے مختلف کام کرنے کی کوشش کی، مگر جب کامیابی نہیں ملی تو انہوں نے اس فن کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔

شاہی قلعے میں اپنی جگہ بنانے کے بعد گریجویٹ نوجوان کو والڈ سٹی اتھارٹی کے سربراہ کامران لاشاری کی مدد حاصل ہوئی، جنہوں نے اس کے ہنر کو سراہا اور اسے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔

'گولڈن کنگ آف لاہور' کا کہنا ہے کہ یہ ایک آرٹ ہے، بھیک نہیں، میں سارا دن ایک ہی پوزیشن میں کھڑا رہتا ہوں، جو ایک مشقت طلب کام ہے، یورپ میں لوگ اسے ایک آرٹ کے طور پر دیکھتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ یہاں بھی ایسا ہی ہو۔

 

یہ نوجوان اپنے جسم پر ایک خاص کریم لگاتا ہے جو شِمری پاؤڈر سے تیار کی گئی ہے، تاکہ اس کے جسم پر سنہری رنگ چمک سکے، وہ گھنٹوں تک حرکت کیے بغیر ایک ہی پوزیشن میں کھڑا رہتا ہے تاکہ اس کا فن حقیقی مجسمے کی طرح نظر آئے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا یہ عمل اس کی جلد کے لیے نقصان دہ ہے تو اس نے وضاحت کی کہ وہ عام پینٹ کے بجائے ایک خاص کریم استعمال کرتا ہے جو نسبتاً کم نقصان دہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں پینٹ نہیں لگاتا، میں اپنی ایک خاص کریم بناتا ہوں، جو زیادہ محفوظ ہے۔

فوٹو: ایکسپریس

لاہور کا یہ آرٹسٹ اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس کی محنت کو گداگری کے ساتھ نہ جوڑا جائے کیونکہ وہ لوگوں کو متاثر کرنے اور خوشی دینے کے لیے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ میری محنت ہے، بھیک نہیں، اگر کوئی بغیر کسی محنت کے پیسے دے دے تو وہ حق نہیں بنتا، مگر میں اپنے فن کے بدلے کچھ حاصل کرتا ہوں۔

اس دوران انہیں کئی دلچسپ اور دل چھو لینے والے تجربات بھی ہوئے، ایک واقعے میں ایک شخص نے انہیں گلے لگانے کی اجازت مانگی کیونکہ وہ اس کے فن سے بے حد متاثر تھا، ایک اور موقع پر ایک چھوٹی بچی نے اسے محبت بھرا تحفہ دیا، جو اس کے لیے کسی بھی مالی انعام سے زیادہ قیمتی تھا۔

گولڈن کنگ آف لاہور کے مطابق ہمارے معاشرے میں آرٹسٹ کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی، یہاں بھکاری کروڑوں روپے چھوڑ کر مرتے ہیں مگر آرٹسٹ صرف اپنا فن چھوڑ کر جاتا ہے، یہ افسوس ناک حقیقت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ہاں بہت سے نوجوان غلط راستے پر جا رہے ہیں، کوئی نشے میں مبتلا ہو رہا ہے، کوئی گینگسٹر بن رہا ہے، میں چاہتا ہوں کہ نوجوان میرے فن کو دیکھیں اور سیکھیں کہ ایک جائز طریقے سے بھی کمائی کی جا سکتی ہے۔

گولڈن کنگ آف لاہور کا کہنا تھا کہ ہمیں آرٹ کو فروغ دینا ہوگا اگر حکومت اور معاشرہ آرٹسٹوں کو سپورٹ کرے تو بہت سے نوجوان بے راہ روی سے بچ سکتے ہیں اور اپنے ہنر سے روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ منفرد آرٹسٹ، جو اپنی شناخت چھپانے کو ترجیح دیتا ہے، اپنے فن کے ذریعے ایک مثبت پیغام دے رہا ہے، اگر حالات سخت ہوں تو بھی باوقار راستہ اپنانا ممکن ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اپنے فن کا کہنا رہا ہے

پڑھیں:

وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست

سیلابی ریلے وسطی و جنوبی پنجاب میں تباہی مچا کر سندھ میں داخل ہونے پر پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کو بھی خیال آگیا کہ انھیں اور کچھ نہیں تو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا خالی ہاتھ دورہ ہی کر لینا چاہیے۔

 اس لیے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اور سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے ملتان، شجاع آباد اور جلال پور پیروالا کا دورہ کیا اور حکومتی امدادی سرگرمیوں پر عدم اطمینان کا اظہارکیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ سیاست کا وقت تو نہیں، اس لیے عوام کو اپنے سیلاب سے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔

انھوں نے ایک ریلیف کیمپ کے دورے پر کہا کہ پی ٹی آئی اس مشکل گھڑی میں متاثرین کے ساتھ ہے مگر انھوں نے متاثرین میں سلمان اکرم راجہ کی طرح کوئی امدادی سامان تقسیم نہیں کیا اور زبانی ہمدردی جتا کر چلتے بنے۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دورے میں کہا کہ اس وقت جنوبی پنجاب سیلاب کی زد میں ہے اور سرکاری امداد محدود ہے، اس لیے میری عوام سے اپیل ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور سیلاب متاثرین کی مدد کریں۔

سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے باز نہیں آئے ، موصوف نے کہا کہ ٹک ٹاکر حکومتیں سیلاب زدگان کی مدد کرنے والے والنٹیئرز پر امدای سامان پر فوٹو نہ لگانے کی پاداش میں ایف آئی آر کاٹ رہی ہیں۔

پی ٹی آئی کے حامی اینکرز اور وی لاگرز نے بھی اس موقع پر سیاست ضروری سمجھی اور انھوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اپنے وی لاگ اور انٹرویوز میں بٹھا کر یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ (ن) لیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومت نے سیلاب متاثرین کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے اور صرف دکھاوے کی امداد شروع کر رکھی ہے اور سیلاب متاثرین کو بچانے پر توجہ ہی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور متاثرین کو بروقت محفوظ مقامات پر پہنچانے کی کوشش نہیں کی اور جب سیلابی پانی ان کے گھروں اور کھیتوں میں داخل ہوا تو ریلیف کا کام شروع کیا گیا۔

متاثرہ علاقوں میں ضرورت کے مطابق کشتیاں موجود تھیں نہ ریلیف کا سامان اور نہ ضرورت کے مطابق حفاظتی کیمپ قائم کیے گئے۔ یہ رہنما اس موقعے پر بھی سیاست کرتے رہے اور کسی نے بھی حکومتی کارکردگی کو نہیں سراہا بلکہ حکومت پر ہی تنقید کی۔ جب کہ وہ خود کوئی ریلیف ورک نہیں کرتے۔

پنجاب کے ریلیف کمشنر نے قائم مقام امریکی ناظم الامور کو پنجاب ہیڈ آفس کے دورے میں بتایا کہ پنجاب کو تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا ہے جس سے ساڑھے چار ہزار موضع جات متاثر 97 شہری جاں بحق اور تقریباً 45 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن کے لیے متاثرہ اضلاع میں 396 ریلیف کیمپس، 490 میڈیکل کیمپس اور 405 وزیٹری کیمپس قائم کیے گئے جہاں سیلاب متاثرین کو ٹھہرا کر ہر ممکن امداد فراہم کی جا رہی ہے اور شمالی پنجاب کے متاثرہ اضلاع کے بعد جنوبی پنجاب کی سیلابی صورتحال پر حکومتی توجہ مرکوز ہے اور سیلاب متاثرین کے لیے تمام سرکاری وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے قدرتی آفت پر صوبائی حکومتوں کی امدادی کارروائیوں کو قابل ستائش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے کسانوں، مزدوروں، خواتین اور بچوں نے غیر معمولی ہمت دکھائی ہے اس قدرتی آفت سے بے پناہ مسائل و چیلنجز نے جنم لیا ہے مگر حکومت متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔

 خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکوتوں سے کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خیبر پختونخوا کے برعکس پنجاب و سندھ کی حکومتوں نے سیلابی صورت حال دیکھتے ہوئے تیاریاں شروع کردی تھیں اور حفاظتی انتظامات کے تحت متاثرہ علاقوں میں سیلاب آنے سے قبل خالی کرنے کی اپیلیں کی تھیں مگر اپنے گھر فوری طور خالی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

غریب اپنے غیر محفوظ گھر خالی کرنے سے قبل بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں، انھیں حکومت اور انتظامیہ پر اعتماد نہیں ہوتا کہ وہ واپس اپنے گھروں کو آ بھی سکیں گے یا نہیں اور انھیں سرکاری کیمپوں میں نہ جانے کب تک رہنا پڑے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر قدرتی آفت پر حکومتی اور اپوزیشن دونوں طرف سے سیاست ضرور کی جاتی ہے اور غیر حقیقی دعوے کیے جاتے ہیں اور عوام کو حقائق نہیں بتائے جاتے۔ حکومت نے بلند و بانگ دعوے اور اپوزیشن نے غیر ضروری تنقید کرکے اپنی سیاست بھی چمکانا ہوتی ہے اور دونوں یہ نہیں دیکھتے کہ یہ وقت سیاست کا ہے یا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • عمرشاہ کی طبیعت کیسے بگڑی؟ انتقال کی رات کیا ہوا؟ چچا نے دکھ بھری داستان بیان کردی
  • راولپنڈی انٹرمیڈیٹ نتائج : طالبات نے پہلی تینوں پوزیشنز اپنے نام کرلیں
  • یوٹیوب پر نماز روزے کی بات کرتی ہوں تو لوگ حمائمہ کا نام لیتے ہیں، دعا ملک
  • لاہوربورڈ ، انٹرمیڈیٹ سالانہ امتحان 2025 پارٹ ٹو کے نتائج کا اعلان،کامیابی کا تناسب 60.86 فیصد رہا
  • شہید ارتضیٰ عباس کو خراجِ عقیدت؛ معرکۂ حق میں عظیم قربانی کی داستان
  • صدر ٹرمپ کا ’گولڈن ڈوم‘ منصوبہ حتمی منصوبہ بندی کے مرحلے میں داخل
  • لازوال عشق
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
  • بے حیائی پر مبنی پروگرامات کی تشہیر قابل مذمت ، ان کا مقصد ن نوجوان نسل کو گمراہ کرنا ہے‘ جاوید قصوری