موٹروے پیدل کر اس کرنے والے حوالات جائیں گے
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
سٹی42:موٹروے پیدل کر اس کرنا قانونا جرم ایف آر از درج، موٹروے پولیس ایم ساؤتھ نے لاہور میں موٹروے پر پیدل کراسنگ کے خلاف ایف آئی آرز درج کر دیں۔
ترجمان موٹروےپولیس سید عمران احمد کا کہنا تھا کہ ایم 2 نے پیدل کراسنگ کے خلاف07 ایف آئی آر ز درج کر وائی، ایف آئی آر 290/291 تعزیرات پاکستان کے تحت کروائی جارہی ہیں۔
محفوظ شاہرات محفوظ پاکستان ہماری اولین ترجیح ہے، موٹروے پیدل کراس کرنا جان لیوا اور خطرناک حادثات کا سبب ہے، موٹروے کو پیدل کراس کرنے والے حادثات کا شکار ہو رہے ہیں۔
موٹروے پر پیدل کر اسنگ کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے، روڈ یوزرز فٹ برج استعمال کر کےاپنی جان کی حفاظت کریں، ایک لمحے کی لاپرواہی زندگی بھر کا المیہ بنا سکتی ہے۔
چئیرمین پی سی بی کاسابق کرکٹر فاروق حمید کے انتقال پرافسوس کا اظہار
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: پیدل کر
پڑھیں:
آئی ایم ایف کا پاکستان کے بجٹ سازی پر اثر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) ایک عالمی ادارہ ہے جو مختلف ممالک کو مالی معاونت، قرضے، اور معاشی اصلاحات کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کئی دہائیوں سے آئی ایم ایف کے پروگراموں کا حصہ رہا ہے۔ جب بھی ملک کو مالی بحران یا زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا ہوتا ہے، پاکستان آئی ایم ایف سے رجوع کرتا ہے۔ مگر اس مالی معاونت کے ساتھ کچھ سخت شرائط بھی منسلک ہوتی ہیں، جو پاکستان کی بجٹ سازی کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں۔
آئی ایم ایف کا بنیادی مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت اپنے مالی خسارے کو کم کرے، ٹیکس آمدن میں اضافہ کرے اور غیر ضروری سبسڈیز ختم کرے۔ ان شرائط کی وجہ سے حکومت کو اکثر عوامی فلاح کے منصوبے محدود کرنے پڑتے ہیں یا مہنگائی میں اضافے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، بجلی، گیس اور پیٹرول پر دی جانے والی سبسڈیز کم یا ختم کرنا پڑتی ہیں، جس کا بوجھ براہ راست عام آدمی پر پڑتا ہے۔ یہ اقدام اگرچہ معاشی استحکام کے لیے ضروری قرار دیے جاتے ہیں، لیکن ان کے فوری اثرات عوام کی زندگیوں پر منفی پڑتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی ہدایات کے تحت حکومت کو ٹیکس نظام میں اصلاحات کرنا پڑتی ہیں۔ اس میں نئے ٹیکس لگانا، موجودہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا شامل ہوتا ہے۔ یہ اصلاحات اکثر غیر مقبول ہوتی ہیں، لیکن ان پر عمل کرنا حکومت کی مجبوری بن جاتا ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی مالی معاونت جاری رکھنے کے لیے ان شرائط کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
بجٹ کی تیاری میں آئی ایم ایف کا عمل دخل اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اکثر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان کا بجٹ دراصل اسلام آباد میں نہیں بلکہ واشنگٹن میں بنتا ہے۔ وزارت خزانہ کو بجٹ سے پہلے اور بعد میں آئی ایم ایف سے مشاورت کرنی پڑتی ہے، اور بعض اوقات تو اہم فیصلے بھی انہی کی منظوری سے ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال ملکی خودمختاری پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔
اگرچہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا مقصد معیشت کو مستحکم بنانا ہوتا ہے، لیکن ان کا اطلاق ایک کمزور معیشت پر سخت اثر ڈالتا ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں، ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے ہیں، اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اور سیاسی حلقوں میں آئی ایم ایف کے کردار پر تنقید کی جاتی ہے۔
نتیجتاً، آئی ایم ایف پاکستان کے بجٹ سازی میں ایک طاقتور فریق بن چکا ہے۔ جب تک پاکستان اپنی اندرونی آمدن میں اضافہ نہیں کرتا، مالیاتی خسارے پر قابو نہیں پاتا، اور قرضوں پر انحصار کم نہیں کرتا، تب تک آئی ایم ایف کی شرائط اور اثرات بجٹ پر غالب رہیں گے۔ ملکی معیشت کو مستحکم اور خودمختار بنانے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی اور خود انحصاری کی پالیسی اپنانا ناگزیر ہو چکی ہے۔