Daily Ausaf:
2025-06-09@22:18:22 GMT

اپنے مادی جسم سے باہر پرواز کا تجربہ

اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT

لاتعداد ایسے علمی موضوعات ہیں جن پر لکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمیں ایسے عنوانات میں الجھایا گیا ہے کہ جن پر جتنے مرضی صفحات کالے کر لیں ان سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ مذہب، سیاست اور عصری مضامین پر لکھنے سے قارئین کا علمی اور شعوری معیار بڑھتا ہے مگر جب مذہبی مضامین میں تفرقہ ہو اور جمہوریت و سیاست صرف ایک شریف اور بھٹو فیملی یا عمران خان جیسے معروف مگر متنازعہ رہنما کے گرد گھوم رہی ہو تو اس سے علم و آگاہی یا شعور کشید کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہو جاتا ہے۔
دنیا کی کسی بھی ملک اور حکومت میں ایک طبقہ ایسا ہونا چایئے کہ جو دنیا و مافیہا اور غم روزگار سے الگ ہو کر ایسے جدید ترین علمی اور سائنسی موضوعات پر خامہ فرسائی کرتا رہے کہ جس سے عوام الناس کی ’’شعوری آگہی‘‘ مسلسل پروان چڑھنے لگے۔
جدید ترین علوم میں عصر حاضر کے مضامین کے علاوہ کچھ ایسے ذاتی تجربات پر مشتمل مضامین بھی شامل ہیں جن کا تعلق ’’خرق عادات‘‘ (Para Normal) یا قبل از وقت کے واقعات (Foreseen Happenings) وغیرہ سے ہوتا ہے۔ روحانی پرواز کرنا بھی انہی مضامین میں سے ایک ہے جسے آپ اپنے مادی جسم سے نکل کر باہر سفر کرنے کا تجربہ (Traveling Out of Your Material Body) بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگرچہ ایسے کسی تجربے کا تعلق صرف اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے مگر اسے دوسروں تک پہنچانا اور متعارف کروانا ایک حیران کن علمی، حسیاتی اور محسوساتی تجربہ ہے۔ لیکن اس لحاظ سے یہ موضوع انتہائی حیران کن، دلچسپ اور سنسنی خیز ہے کہ ایک شخص اپنے اصل مادی جسم سے باہر نکل کر کیسے دور دراز کی چیزوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے یا انہیں عین اپنے سامنے ان کی اصلی حالت میں دیکھ سکتا ہے؟
یہ سوال ان چند منتخب افراد کے لیئے قطعا مشکل نہیں ہے جن کو اپنے مادی جسم سے واقعی باہر نکلنے کا تجربہ ہوا ہو۔ یہ ایک قسم کا اپنے حسیاتی نظام کو اپنے شعور سے منسلک کرنے کا حیرت انگیز تجربہ ہے۔ ہم میں سے ہر انسان کو عام حالات میں بھی روزانہ کی بنیاد پر تخیلاتی یا روحانی پرواز کرنے کا موقعہ ملتا ہے کہ جب ہم دور دراز کے مقامات اور افراد کے بارے میں سوچتے اور محسوس کرتے ہیں۔
لیکن ہم در حقیقت دور کی چیزوں کو صرف اپنی باطنی آنکھ سے دیکھتے اور محسوس وغیرہ کرتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام آباد، لندن، پیرس یا نیویارک وغیرہ میں ہوں مگر وہاں اپنی مادی موجودگی کے باوجود اپنے جسم سے نکل کر شنگھائی، یروشلم یا کسی دوسرے سیارے پر بغیر کوئی وقت ضائع کیئے اتنی ہی جلدی پہنچ کر چیزوں کو دیکھنے، چھونے اور محسوس کرنے لگیں جس طرح ہم اپنے پہلے اصل مقام پر چیزوں کو دیکھتے، چھوتے اور محسوس کرتے ہیں؟اگر کسی غیرمعمولی ماورائی صلاحیت کے حامل شخص کو ایسا تجربہ ہوتا ہے کہ وہ بیک وقت نزدیک اور دور کی چیزوں کو اپنے حسیاتی دائرہ میں لا سکتا ہے تو اسے ہم ’’مادی جسم سے باہر پرواز‘‘ (Flight Out of Body) کا نام دیں گے۔
دنیا میں کچھ لوگ ٹائم ٹریول کا دعوی بھی کر چکے ہیں کہ جو بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل میں سفر کرنے اور مشاہدات کرنے کے بارے میں ہے۔ اس بنیاد پر وہ وقت کے تینوں زمانوں ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں کچھ سچی پیش گوئیاں بھی کرتے ہیں۔ انسان کو وقت میں سفر کرنے پر عمومی عبور حاصل ہو تو وہ ابتدائے آفرینش اور مستقبل میں ہونے والے واقعات کی عین درست پیش گوئی بھی کر سکتا ہے جو صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ پہلے انسانی اپنے موجودہ مادی جسم سے باہر نکلنا اور پھر اپنی ان پانچویں مادی حسوں کو اپنے مادی جسم کے بغیر استعمال کرنا سیکھ لے۔دنیا میں بہت سے ایسے غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک انسان گزرے ہیں جنہیں خرق عادات یا مافوق الفطرت (Super Natural) مظاہرے کرنے پر عبور حاصل تھا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی بھی اسی جگہ پروان چڑھتی ہے جہاں متنوع فکری ماحول اور سوچنے، غوروفکر کرنے اور سوال کرنے کی پوری آزادی ہو۔ ایسے گوہر نایاب خوبصورت علمی و فکری ماحول کے بغیر پیدا کرنا ممکن نہیں ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک و معاشرے میں نہ تو ایسا منفرد اور فکری تعلیمی نظام ہے اور نہ ہی ہمیں اپنے اردگرد ایسا ماحول میسر ہے جہاں ایسی تخلیقی سوچ کو پروان چڑھایا جا سکے۔ آنے والے ادوار ایسے نئے اور جدید علوم کے حیران کن ادوار ہیں جن میں ممکن ہے انسان اپنے اس ناقص مادی جسم سے بھی آزادی حاصل کر لے۔ ان روائتی مذہبی اور سیاسی زنجیروں کو توڑنے کا واحد ذریعہ ایسے ہی جدید علوم کو فروغ دینے سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر وطن عزیز میں بھی ایسی جدید طرز کی فکر کو رائج کیا جائے تو ہم بھی جدید اور ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں، جس کے بارے ایک حدیث مبارکہ ہے کہ،’’ایک لمحہ کی فکر دو جہانوں کی عبادت سے افضل ہے‘‘۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مادی جسم سے باہر اپنے مادی جسم اور محسوس کرتے ہیں چیزوں کو ہوتا ہے کے بارے کو اپنے سکتا ہے ہیں جن

پڑھیں:

فلسفۂ قربانی

انسان کی فطری و بنیادی خوبیوں میں سے ایک اہم ترین خصلت ایثار و قربانی ہے اور یہ وہ عظیم وصف ہے، جو انسان کو حیوان سے ممتاز بناتا ہے، ورنہ تو خود غرض اور مفاد پرست انسان اور ایک حیوان کے درمیان کوئی جوہری فرق کیا باقی رہ جاتا ہے ۔۔؟

ازروئے قرآن حکیم تو ایسے انسان حیوانات اور درندوں سے بھی بدتر ہیں، جنہیں خدا نے فطری طور پر اجتماعی شعور ودیعت فرمایا مگر وہ محض اپنی ذات اور خاندان کے مفاد تک ہی محدود اور محصور رہے۔ آج سے قربانی کے عظیم ایام شروع ہو رہے ہیں۔ لیکن بنیادی مسئلہ حسب معمول ابھی تک مبہم اور غیر واضح ہے کہ یہ تمام تر مشقّت آخر کس مقصد کے لیے ہے ۔۔۔ ؟

کہنے اور سننے کی حد تک تو سبھی کا ماننا ہے کہ یہ عمل خدا کی خوش نُودی کے لیے سرانجام دیا جاتا ہے لیکن سماج اور معاشرے میں مطلوبہ نتائج پیدا نہ ہونے کے باعث لگتا یوں ہے کہ یہ عظیم الشان سنتِ ابراہیمیؑ اب محض ایک رسم اور دکھاوا بن چکی ہے۔

امام انسانیت سیّدنا ابراہیمؑ نے خدا کی خوش نُودی اور خلقِ خدا کی بہبود کے لیے آتشِ نمرود میں چھلانگ لگانے سے بھی اعراض نہ فرمایا اور پھر اپنے لاڈلے صاحب زادے سیّدنا اسمٰعیلؑ اور سیّدہ ہاجرہ کو خدا کے حکم سے بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑ دیا۔ بعدازاں ایک اور سخت ترین امتحان اپنے لاڈلے بیٹے کو قربان کر دینے کے حکمِ خداوندی سے شروع ہُوا تو آپؑ کی ثابت قدمی و استقلال سے دُنبے کو ذبح کردینے پر منتج ہوگیا۔ اپنے چنیدہ بندے کی اطاعت شعاری و وفا کیشی کی یہ عظیم ادا خالق ارض و سماء کو اس قدر محبوب ٹھہری کہ تب سے ابد تک قربانی کی یہ سنّت ملّتِ ابراہیمی کا شعار، سنگھار اور حسنِ اظہار قرار پائی۔

بعض لوگ جب سطحی نظر سے قربانی کے لیے جانوروں کے ذبح کرنے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو انہیں یہ عمل خدا نہ خواستہ خلافِ انسانیت اور ظلم دکھائی دیتا ہے، حالاں کہ عام حالات میں دورانِ سال اس سے کہیں زیادہ جانور اور پرندے انسانی خوراک بنتے ہیں تو اس کا کوئی نوٹس تک نہیں لیا جاتا، دوسرا یہ کہ کائنات کے اندر دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسانی شرف اور مقام کا صحیح ادراک نہ ہونے سے اس طرح کے جدید توّہمات کا پیدا ہونا کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں۔

اسی طرح ہم میں سے بعض مسلمانوں کا اخلاقی زوال اور ہمارے دُہرے معیارات بھی اِس طرز کی غلط فہمیوں اور فکری مغالطوں کی وجہ بنتے ہیں۔ نماز سے لے کر روزہ و قربانی تک تمام عبادات کا اساسی مقصد تقوٰی کا حصول ہے۔ قرآن حکیم سے ہمیں یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ خدا تک ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بل کہ اس تک تمہارا تقوٰی پہنچتا ہے۔ آیت کریمہ کا یہ جزو قربانی کے فلسفے اور بنیادی مقصد کو واضح کرنے کے لیے خدائے بزرگ و برتر کا دوٹوک اور حتمی اعلان ہے۔

اب غور فرمائیے کہ بُخل اور حرص و طمع پر مبنی فکر و عمل سے ہماری تمام کوشش رائیگاں چلی جائے تو کس قدر بدنصیبی ہوگی ؟ ’’اپنے رب کے لیے نماز ادا کیجیے اور قربانی کیجیے۔‘‘ اور جب اپنے رب کی خاطر نماز اور قربانی کا اہتمام ہوگا تو یہ اعمال بندوں کے ظاہر و باطن میں وہ انقلاب پیدا کریں گے کہ اگلی آیت کریمہ کے مطابق: ’’تمہارا دشمن ہی ابتر اور ذلیل و رُسوا ہوگا۔‘‘ جب نماز اور قربانی کا عمل بھی موجود ہو لیکن انسانی قلوب اور معاشرتی اسلوب میں تقوٰی و طہارت اور عدل و ایثار ناپید ہو تو پھر یک لمحہ سکوت و سکون سے سوچنا ہوگا کہ قربانی کی عظیم ترین سنّت ابراہیمی کہیں رسمِ محض تو بن کر نہیں رہ گئی ۔۔۔ ؟

خدا کو تو روح بلالی کے بغیر رسمِ اذان اور روح ابراہیمی کے سوا رسم قربانی کی کوئی حاجت اور ضرورت نہیں، وہ تو غنی اور بے نیاز ہے اور اُسے تو ان اعمال سے فقط ہماری اصلاح و فلاح اور ارتقاء مطلوب ہے تاکہ ہم اس کے مقرب و محبوب بن سکیں۔ ہمارے خالق و مالک کو بہ خوبی علم تھا کہ انسان نفع عاجل اور ظاہری مفاد کے حصول میں بے قرار مگر خفیہ و پائیدار فائدے سے بے زار رہتا ہے، سو قربانی کی غایتِ اصل یعنی تقوٰی کو بُھلا کر گوشت اور خون کے بہانے اور بڑھانے سے آگے نہ بڑھ پائے گا۔ یہی تو ایک انسان اور مسلمان کا امتحان ہے کہ وہ پائیدار و ناپائیدار میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے ۔۔۔ ؟

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جو ’’بندۂ مومن‘‘ اپنی قربانی کے گوشت سے کسی مجبور اور ضرورت مند کو کچھ دینے سے معذور ہے بھلا وہ اپنی جان سے گوشت اور خون کب راہِ خدا میں قربان کرنے کی ہمّت کر سکے گا ۔۔۔ ؟

یاد رہے کہ ہر سال راہ خدا میں جانوروں کا خون بہانا دراصل ایک اعلی ترین نصب العین کی خاطر اپنے جان و مال کی قربانی کے لازوال انسانی جذبے کا اظہار کرنا ہے۔

قرآن حکیم کی ایک آیت کے مفہوم کے مطابق اﷲ تعالٰی نے مومنوں سے ان کی جان و مال کے عوض جنّت کا سودا کر چھوڑا ہے۔ ہماری تمام تر صلاحیتیں اور نعمتیں ہمارے پاس خدا کی امانت ہیں جب کہ دوسری طرف کرۂ ارضی پر آتش نمرودی بھی برابر بھڑکتی ہوئی دامن انسانیت کو خاکستر کیے جا رہی ہے۔

بہ قول ڈاکٹر محمد اقبالؒ

آگ ہے، اولاد ابراہیمؑ ہے، نمرود ہے

کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے

اگر ہماری قربانی ہمارے اندر موجودہ عالمی نمرودی نظام کے خلاف جدوجہد کا داعیہ پیدا نہیں کرتی تو اس کا مطلب ہے کہ ہم روح سے خالی رسمِ قربانی پر تو کاربند ہیں مگر تاحال ظلم و استحصال سے نفرت اور عدل و ایثار سے محبّت ہمارے اندر جاگزیں نہیں ہو سکی۔ المیہ یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام سے انسانوں کی اصل فطرت اس قدر مسخ اور تباہ ہوچکی ہے کہ افراد کی اکثریت اپنی ناک سے آگے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتی اور حکم رانوں سے لے کر عوام الناس تک کی اکثریت انفرادیت پسندی اور مفاد پرستی کے مرض کا بُری طرح شکار ہو چکے ہیں۔

قربانی کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ ہم اپنی انانیت کو اجتماعیت کے اندر فنا کر ڈالیں اور دوسرے انسانوں کی بقاء و ارتقاء کے لیے اپنا تن، من اور دھن وار دیں۔ ابھی ماضی قریب کی معاشرتی و مذہبی روایت یہی تھی کہ قربانی کے گوشت کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا جاتا یعنی ایک محتاج اور غریب طبقے کے لیے، دوسرا عزیز و اقارب اور تیسرا حصہ گھر کے لیے رکھ لیا جاتا، جس میں سے عید کے مہمانوں کی تواضع بھی کی جاتی۔ لیکن اب گزشتہ چند سالوں سے بعض افراد نے سارے گوشت کو گھر میں منجمد کرنے کی گنجائش تک نکال لی ہے، جو درست ہے۔

مگر وطن عزیز میں تو اسّی فی صد آبادی غذائیت کی کمی کا شکار ہے اور گوشت، پھلوں کے بغیر سادہ و یک ساں خوراک پر گزر بسر کرتی ہے۔ نصف آبادی صرف گوشت چکھنے کے لیے سال بھر عیدِ قربان کی منتظر رہتی ہے، ایسے میں دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیے منہگے ترین بکروں، گائے اور بیلوں کی نمائش اور قربانی کرکے ذخیرہ کر ڈالنا سنّت ابراہیمیؑ اور شریعت محمدیؐ کی اصل روح سے متصادم ہی ٹھہرے گا۔ جب معاشرے اور سماج میں اکثریت ضرورت مند اور محروم المعیشت طبقے کی ہوگی تو قربانی کے گوشت کو تقسیم کرکے حق داروں تک پہنچانا لازم ٹھہرے گا البتہ اگر معاشرہ خوش حال و ترقی یافتہ ہے تو گوشت کو ذخیرہ کر لینے میں بھی کوئی حرج نہ ہوگا۔

اسی لیے تو قرآن حکیم ہمیں تعلیم دیتا ہے ہم اس کا عملی مظاہرہ کریں کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اُس اﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ گویا بندۂ خدا تو خدا کی منشاء و رضا میں مکمل فدا و فنا ہوتا ہے اور یہی قربانی کی عظیم الشان سنّت ابراہیمی کا مقصد و مدّعا بھی ہے ورنہ تو سبھی کچھ نمود و دکھاوا ہے۔

عید قرباں پر اپنے ڈیپ فریزر بھرنے سے احتراز کیجیے اور نادار و بے کس خلق خدا کا حصہ کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے ان تک پہنچائیے کہ یہی ایثار و قربانی کا درس اور قربانی کا اصل مقصد و منشاء ہے۔

Tagsپاکستان

متعلقہ مضامین

  • لندن: اسرائیلی فورسز کی جانب سے فریڈم فلوٹیلا اور مدلین کشتی کو روکنے کے خلاف برطانوی دفتر خارجہ کے باہر احتجاج کیا جارہا ہے
  • ایک سال میں خواندگی کی شرح 60 فیصد رہی، اقتصادی سروے
  • حج آپریشن 2024: حجاج کرام کی وطن واپسی کا آغاز، پہلی پرواز آج آئے گی
  • وفاقی حکومت کا اقتصادی سروے: 2کروڑ 48 لاکھ بچوں کا اسکولوں سے باہر رہنے کا انکشاف
  • طالب علم جس نے شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑی تیار کرلی
  • بلوچستان میں کتنے بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور انہیں تعلیمی اداروں میں واپس کیسے لایا جاسکتا ہے؟ (Eid Story)
  • سول اسپتال حیدرآباد کی لفٹ میں لاش سمیت 5 افراد پھنس گئے
  • سول اسپتال حیدرآباد کے سرجیکل آئی سی یو کی لفٹ میں لاش اور 5 افراد پھنس گئے
  • فلسفۂ قربانی
  • اسرائیل غزہ کے حقائق کو دنیا بھر سے چھپا رہا ہے، اقوام متحدہ کا اعلان