ہندوستان پوری قوت استعمال کرنے کے باوجود تحریک آزادی کو دبا نہیں سکا، سردار عتیق احمد
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
مسلم کانفرنس کے صدر کا کہنا ہے کہ اس وقت کشمیری عوام تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس مقصد کے حصول کیلئے لاکھوں کشمیری اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر و سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ کشمیر کی تحریک آزادی نازک مراحل سے گزر رہی ہے، ہندوستان پوری قوت استعمال کرنے کے باوجود تحریک آزادی کو دبا نہیں سکا۔ ایسے حالات میں آزاد کشمیر کے عوام اور سیاسی جماعتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، یہاں کے عوام کو تحریک آزادی کے ساتھ وابستہ رہنا ہے اور مسلم کانفرنس تحریک کا اہم مورچہ ہے۔ آزاد کشمیر کی عوام کی دوہری ذمہ ہے اُنہیں جہاں ریاست کے تشخص کے لیے کردار ادا کرنا ہے وہیں پاکستان کے ساتھ اپنے نظریاتی رشتوں کو مضبوط سے مضبوط بنانا ہے، کارکن آزاد کشمیر کے عوام کے لیے امید کی کرن ہیں اور عوامی مسائل حل کرنے کے لیے خود کو وقف کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مجاہد اول ہاوس غازی آباد میں عیدالفطر کے پرمسرت موقع پر یونین کونسل ہل سرنگ دھاوی سے مصطفی عباسی، اضطفی عباسی، صبور عباسی، ثاقب عباسی، فریال عباسی، ذوالفقار عباسی، شعیب عباسی اور دیگر کی مسلم کانفرنس میں شمولیت کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ مسلم کانفرنس میں نئے شامل ہونے والوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ان کو جماعت میں جائز مقام دینگے۔ مسلم کانفرنس کارکنان کی محرومیوں کے ازالے کیلئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ مسلم کانفرنس نے ہمیشہ کارکنوں کو عزت دی ہمارے لیے کارکنان کی عزت سب سے مقدم ہے، کسی کو بھی مایوس نہیں کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم کانفرنس حال ماضی اور مستقبل کی جماعت ہے، مشکل وقت ہر جماعت پر آیا ہے اور وہ کارکن جو مشکل وقت میں بھی جواں مردی کے ساتھ کھڑے رہے وہ جماعت کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ مسلم کانفرنس تحریک آزادی اور تکمیل پاکستان کیلئے بھرپور جدوجہد کر رہی ہے۔اس وقت کشمیری عوام تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس مقصد کے حصول کیلئے لاکھوں کشمیری اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب کشمیریوں کی دی ہوئی قربانیاں رنگ لائیں گے اور شہداء کا خون کسی صورت رائیگاں نہیں جائے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مسلم کانفرنس ہیں اور
پڑھیں:
وفاقی بجٹ 2025-26:اشیا خورونوش اور روزمرہ استعمال کی چیزوں پر بھاری ٹیکس عائد، عوام پر مہنگائی کا نیا پہاڑ گرگیا۔
وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ کا اعلان کرتے ہوئے عوام پر مہنگائی کا نیا پہاڑ گرا دیا۔سال 2025-26 کے بجٹ میں متعدد روزمرہ استعمال کی درآمدی اشیا اور صنعتی آلات پر ٹیکس عائد کر دیے گئے ہیں جن میں خوردنی اشیا، طبی ساز و سامان، تعمیراتی مشینری، اور بجلی سے چلنے والے آلات شامل ہیں۔ درآمدی ٹماٹر، مٹر، دالیں، کھجور، موسمی، کیک، دودھ، دہی، اور پولٹری جیسے بنیادی خوراکی اجزا پر اب اضافی ٹیکس دینا ہوگا۔ اس کے علاوہ، سرجیکل آلات، جم کا سامان، ورزشی مشینری، انسولین سرنج، سولر چارجز، سی این جی کٹ، پام آئل، تمباکو، اور تعمیراتی مشینری پر بھی کسٹم ڈیوٹی یا جنرل سیلز ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ فنانس بل کے تحت دودھ پروسیسنگ پلانٹس کی درآمد پر ٹیکس دو فیصد بڑھا دیا گیا ہے۔ مویشیوں اور پولٹری کے شیڈز پر دو فیصد اضافی ٹیکس لاگو ہوگا، جب کہ جانوروں کی فیڈ بنانے والی تمام مشینری پر بھی دو فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ ڈیری مصنوعات کی مشینری پر تین فیصد، اور ڈیری شیڈز میں لگنے والے پنکھوں پر تین فیصد ٹیکس نافذ کر دیا گیا ہے۔ میڈیکل، سرجیکل، ڈینٹل اور ویٹنری فرنیچر، ایمرجنسی لائٹس، اور اسپتالوں میں استعمال ہونے والے مکینیکل فٹنگز والے بستروں پر بھی اب پانچ فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔ اسی طرح جم اور ورزشی سامان پر تین سے پانچ فیصد تک ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جب کہ آگ بجھانے والے آلات، کینولا اور انسولین سرنج پر بھی پانچ فیصد ٹیکس نافذ ہوچکا ہے۔ تعمیراتی مشینری اور سامان پر تین سے پانچ فیصد ٹیکس، اور سولر چارجرز پر پانچ فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ ڈمپرز اور کرینز کی درآمد پر بیس فیصد تک بھاری کسٹم ڈیوٹی لگائی گئی ہے، جب کہ پام آئل، ویجیٹیبل آئل اور کیسٹر آئل پر پانچ فیصد ڈیوٹی لاگو کر دی گئی ہے۔ سی این جی کٹس بھی اب پانچ فیصد کسٹم ڈیوٹی کے دائرے میں آ گئی ہیں۔ تاہم، حکومت نے برقی گاڑیوں کی درآمد پر ریلیف فراہم کرتے ہوئے الیکٹرک آٹو رکشہ، الیکٹرک موٹرسائیکل، اور تین پہیوں والے برقی لوڈر پر کسٹم ڈیوٹی میں پچاس فیصد کمی کر دی ہے۔ اس رعایت کا دائرہ الیکٹرک کاروں تک بھی بڑھا دیا گیا ہے، جس سے اس شعبے میں سرمایہ کاری بڑھنے کی امید کی جا رہی ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق یہ بجٹ عام آدمی پر براہ راست اثر ڈالے گا، خاص طور پر خوراک اور طبی اشیا پر ٹیکسوں کی وجہ سے مہنگائی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ اقدامات معاشی استحکام اور مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہیں۔