طلبہ کے لیے اضافی مارکس اور معیارِ تعلیم
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
سندھ اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی نے کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ کے گزشتہ سال فرسٹ ایئرکے طلبہ کے ساتھ امتحانی کاپیوں کی جانچ پڑتال میں ہونے والی زیادتی کے بارے میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی سفارشات منظورکر لیں۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی سفارش کے تحت ہر امیدوارکو 20 فیصد اضافی مارکس دیے جائیں گے۔
اس فیصلے سے امیدواروں اور ان کے والدین اور کراچی کے طلبہ سے زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے والے عناصرکو تشفی ہوگئی مگر تعلیمی معیارکا معاملہ کہیں فضاؤں میں کھوگیا۔ جب گزشتہ سال فرسٹ ایئرکے امتحانی نتائج کا اجراء ہوا تھا تو ذرایع ابلاغ پر ایک شور اٹھا تھا۔کراچی کے ذہین طلبہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے کلاس اول سے میٹرک تک کے امتحانات میں اعلیٰ نمبر حاصل کیے تھے۔
ان نمبروں کی بنیاد پر کراچی کے ان کالجوں میں انھیں داخلے ملے، جہاں فرسٹ ایئر میں داخلے کی فہرست میں آخری نمبر امتحانات میں 75 سے 80 فیصد نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کا ہوتا ہے۔ طلبہ اور ان کے والدین نے کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرے کیے۔ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے اراکینِ اسمبلی نے اپنی تقاریر پر توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعے اس مسئلے کو اٹھایا اور سندھ اسمبلی میں اس مسئلے پر بحث شروع ہوگئی۔
اس بحث کا ایک خطرناک نکتہ یہ تھا کہ اندرونِ سندھ کے طلبہ کو پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیادہ نشستیں دلوانے کے لیے ایک منظم سازش کے تحت طلبہ کے نمبرکم کیے گئے ہیں۔ صوبائی وزیر تعلیم سردار علی شاہ نے اس مسئلے پر تحقیقاتی رپورٹ تیارکرنے کے لیے این ای ڈی یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کی قیادت میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی۔ اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ارکان نے 250 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں شکوہ کیا کہ بورڈ کا عملہ ان کے ساتھ مکمل تعاون نہیں کر رہا ہے۔ بہرحال اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ ایک مافیا کے طور پرکام کرتا ہے۔
اس مافیا کا کام امتحانی نتائج میں ردوبدل کرنا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبے کے دیگر تعلیمی بورڈز کے مقابلے میں کراچی بورڈ کا عملہ امتحانی نتائج تیار کرنے میں بدترین لاپرواہی کا ثبوت دیتا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ ممتحن نے امتحانی کاپیوں کی مکمل طور پر جانچ پڑتال ہی نہیں کی اورکچھ امتحانی کاپیوں میں سوالات کے نمبر نہیں لگائے گئے تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بورڈ کا عملہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا، یہی وجہ ہے کہ Digital Maintenance کے بجائے مینوئل طریقے سے نتائج مرتب کیے گئے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس صورتحال میں Data Integrity پر انحصارکرنا، ایک رسک لینے کے مترادف ہوگا۔ سندھ کے وزیر تعلیم سردار علی شاہ نے اس رپورٹ کے مطالعے کے بعد یہ محسوس کیا کہ کراچی کے طلبہ کے ساتھ زیادتی ہوئی، اس بناء پر انھیں اضافی نمبر دینے چاہئیں۔ وزیر تعلیم کی اس تجویزکی ہاؤس کمیٹی نے منظوری دیدی، یوں یہ معاملہ داخلِ دفتر ہوا۔
یہ مسئلہ صرف اس سال کا نہیں بلکہ گزشتہ کئی برسوں سے کراچی اور اندرونِ سندھ کے تعلیمی بورڈز کے نتائج شکوک و شبہات کا شکار ہوگئے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی پالیسیوں پرکڑی نظر رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کالجز کے پرنسپل، ڈائریکٹرکالج اور بورڈ کے عہدیداروں کے تقرر میں ایڈہاک ازم سے کام لیتی ہے۔
اخبارات کی رپورٹوں کے جائزہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بورڈ کے چیئرمین، سیکریٹری اورکنٹرولر امتحانات کے تقرر میں میرٹ کے بجائے دیگر عوامل کو ترجیح دیتی ہے۔ اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی گزشتہ ایک عشرہ کے دوران مختلف بورڈ کے نئے مقررکیے جانے والے عہدیداروں اور برسرِاقتدار جماعت کے رہنماؤں سے ان کی رشتے داریوں کی تفصیل ریکارڈ کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ہر سال بورڈ کے چیئرمین، سیکریٹری اورکنٹرولر امتحانات تبدیل ہوئے۔
صرف گزشتہ سال کراچی بورڈ میں 6 چیئرمین کا تقرر ہوا۔ یہ الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے کہ حکومت نے مبینہ طور پر ایسے افسروں کوکراچی بورڈ کے اہم عہدوں پر تعینات کیا جن کی ملازمت کا بیشتر حصہ اندرونِ سندھ فرائض انجام دیتے ہوئے گزرا اور اچانک انھیں اہم ترین اسائنمنٹ دیدیا گیا۔ ان افسروں کے لیے فوری طور پر بورڈ کے پورے سسٹم کو سمجھنا ہی مشکل کام تھا۔ یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ کراچی میٹرک بورڈ اورکراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ کو طلبہ کی دو لسانی تنظیموں کے کارکن گھیرے میں رکھتے ہیں۔
مسئلہ امتحانی پرچوں کے آؤٹ ہونے کا نہیں ہے، اگرگزشتہ 10برس کا ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو اخبارات میں بہت سی ایسی خبریں آئیں کہ پرائیوٹ اسکولوں اورکالجوں کی انتظامیہ نے اپنے طلبہ کا سینٹر مخصوص اداروں میں بنوا لیا اور بورڈ کے عملے کی مدد سے خطیر رقم دے کر طلبہ کو نقل کی سہولتیں دیں۔ ایک پوری مافیا کا کام امتحانی پرچے آؤٹ کرنا ہے۔ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں پرچہ آؤٹ کرنا اب آسان ہوگیا ہے، جب بورڈ کا عملہ،کالجوں کے اساتذہ اور سیاسی جماعتوں کی ذیلی طلبہ تنظیموں کے اراکان پر مشتمل مافیا کام کرے گی تو پھر سب کچھ آسان ہو جاتا ہے۔
ایک اہم معاملہ کالجوں میں معیارِ تعلیم کا ہے۔ اس حقیقت کا اقرارکرنا چاہیے کہ پورے سندھ میں اور عام طور پرکراچی، حیدرآباد اور سکھر وغیرہ میں اساتذہ کالجوں میں بہت کم نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر سائنس،کامرس اورکمپیوٹر سائنس کے اساتذہ کا بیشتر وقت کوچنگ سینٹروں میں گزرتا ہے۔ جب کوئی طالب علم کالج میں داخلہ لیتا ہے تو اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ کن کن مضامین کے اساتذہ کون سے کوچنگ سینٹروں میں لیکچر دیتے ہیں اور پھر طالب علم جب پہلی دفعہ کالج جاتا ہے تو کالج کا عملہ کالج کی لیب میں پریکٹیکل کروانے کے بجائے انھیں متعلقہ کوچنگ سینٹروں میں داخلے لینے کا مشورہ دیتا ہے۔
چند مخصوص کوچنگ سینٹروں سے وابستہ سینئر پروفیسر صاحبان امتحانی پرچے تیارکرتے ہیں۔ سندھ میں کالج اساتذہ کی تنظیم سندھ پروفیسر لیکچرار ایسوسی ایشن کے صدر منور عباسی اور دیگر رہنماؤں نے حکومت کے فرسٹ ایئر کے طلبہ کو اضافی نمبر دینے کے فیصلے کو افسوسناک قرار دیا ہے۔ ان اساتذہ کا یہ بیانیہ ہے کہ یہ فیصلہ غیر منطقی ہے، وہ کہتے ہیں کہ سندھ حکومت کی پالیسیاں ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ حکومت تعلیم کو سیاست کی نذر کرتے ہوئے طلبہ کو بھکاری بنانے پر تلی ہوئی ہے۔
یہ کہاں کی منطق ہے کہ امتحانی کاپیاں خالی پڑی ہوئی ہوں اور اب طالب علموں کو 15 سے 20 اضافی نمبر دے کر ان کو نہ پڑھنے کی ترغیب دیتے ہوئے نیا دروازہ کھول دیا جائے۔ سپلا کے رہنماؤں کا یہ نکتہ انتہائی اہم ہے، جن طلبہ کی کاپیاں خالی ہیں، انھیں بھی اضافی نمبر دیدیے جائیں اور انھیں ان طلبہ کے برابرکردیا جائے جن طلبہ نے سخت محنت کر کے نمبر حاصل کیے ہیں۔ سپلا کے رہنماؤں نے حکومت کے فیصلے پر تو تنقید کی مگر تحقیقاتی کمیٹی کے اس نکتے کو نظر اندازکردیا کہ بعض اساتذہ نے پوری توجہ سے امتحانی کاپیوں کی جانچ نہیں کی اور یہ غلطی سپلا کے اراکین کی ہے۔
سپلا کے رہنماؤں کو اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نااہلی کا مرتکب ہونے والے اپنے اراکین کے احتساب کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ سپلا کی قیادت غیر حاضر استاد اور کوچنگ سینٹر مافیا کے مسئلے پر مکمل طور پر خاموش ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وزیرِ تعلیم کی صدارت میں ہونے والے اس اہم اجلاس میں ان افراد کے احتساب کا ذکر ہی نہیں ہوا جن کی وجہ سے یہ بحران پیدا ہوا۔ سندھ کا مجموعی تعلیمی معیار پنجاب اور پختون خوا کے مقابلے میں کم ہے۔ اس بات کا اندازہ CSS کے امتحانات میں شریک ہونے والے طلبہ اورکامیاب ہونے والے طلبہ کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔
وفاقی حکومت کے ادارہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور سندھ حکومت کے ادارہ سندھ پبلک سروس کمیشن کی رپورٹوں میں صوبے کے تعلیمی معیارکے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں، اگر سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سندھ کے تعلیمی معیارکی بہتری چاہتے ہیں تو پھر ایڈہاک ازم کو چھوڑکر طویل منصوبہ بندی کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ سندھ کی حکومت سندھ کے تعلیمی معیار پرکئی کانفرنسز منعقد کرے۔ ان کانفرنسوں میں ملک کے معروف ماہرینِ تعلیم کے علاوہ بھارت، ایران اور بنگلہ دیش کے علاوہ یورپی اورامریکی ماہرینِ تعلیم کو بھی مدعوکیا جائے۔ ان کانفرنسوں کی سفارشات کے مطابق پورے نظام کی تشکیلِ نوکی جائے تاکہ پورے صوبے میں میرٹ کی بنیاد پر تعلیمی نظام استوار ہوسکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کوچنگ سینٹروں تعلیمی معیار بورڈ کا عملہ اضافی نمبر کے رہنماؤں کے تعلیمی رپورٹ میں ہونے والے حکومت کے کراچی کے جاتا ہے سندھ کے طلبہ کے سپلا کے کے ساتھ طلبہ کو کے طلبہ بورڈ کے کے لیے گیا ہے یہ بھی اور ان
پڑھیں:
پاکستانی نوجوان کورین ثقافت کے شیدائی کیوں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 جون 2025ء) کورین ڈرامے پاکستانی نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ ان ڈراموں میں پیش کی جانے والی ثقافت کی جانب نوجوانوں کا رجحان چند سال قبل عالمی وبا کے دوران ایک وقتی تفریح یا فرار کے طور پر شروع ہوا تھا، جو اب ایک گہرے جذباتی اور ثقافتی تعلق میں بدل چکا ہے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی اے لیول کی طالبہ ایمان ابرار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جنوبی کوریا کے ڈراموں اور فلموں میں خاندان کی اہمیت، طبقاتی تفریق، زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت اور نرم و ملائم رومانوی کہانیوں جیسے موضوعات کو جس انداز میں پیش کیا جاتا ہے، وہ پاکستانی معاشرتی حقیقتوں سے گہری مماثلت رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ یہ ڈرامے ہر نسل کے لوگوں میں زیادہ مقبول ہیں۔(جاری ہے)
فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی میں کورین ثقافت پر تحقیق کرنے والی طالبہ فضا زاہد کے مطابق یہ ڈرامے ایسے موضوعات کو اجاگر کرتے ہیں جو پاکستانی معاشرے میں پائے جانے والے احساسات اور تجربات سے قریب تر ہیں جیسا کہ طبقاتی تفریق، خاندانی عزت، ممنوعہ محبت، حوصلہ مندی، اور خود کی تلاش۔
پاکستانی اور کورین ثقافت میں مماثلتفضا زاہد کے مطابق پاکستانی اور کوریائی ثقافتوں میں مذہب اور زبان کے فرق کے باوجود خاندانی نظام، بزرگوں کے احترام اور قریبی رشتوں جیسی نمایاں مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ یہی مشترک اقدار کورین ثقافت پر تحقیق کو اہم بناتی ہیں اور کورین ڈراموں کو پاکستانی ناظرین کے لیے ایک مانوس اور جذباتی تجربہ بنا دیتی ہیں، جس سے دیگر ایشیائی ممالک کے لوگ بھی خود کو کوریا سے جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
ایمان ابرار کہتی ہیں کورین ڈراموں میں خواتین کے کردار مضبوط اور مہربان ہوتے ہیں، جبکہ مرد کردار ہمدردی، احترام اور جذباتی حساسیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایسی خصوصیات جو عالمی میڈیا میں اکثر نظر نہیں آتیں، یہ ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہیں اور واضح طور پر ایک دیرینہ کمی کو پورا کر رہے ہیں۔
'کمچی اور سارنگہے، اب اجنبی نہیں'فضا زاہد کے مطابق چند سال قبل اگر کوئی "رمیون"، "کمچی" یا "سارنگہے" جیسے الفاظ مسکراہٹ کے ساتھ ادا کرتا تو زیادہ تر لوگ حیرت کی نگاہ سے اسے دیکھتے۔
لیکن آج یہ الفاظ تعلیمی اداروں اور شہری ہوٹلوں سمیت روزمرہ کی گفتگو، خاص طور پر نوجوانوں کی بول چال میں عام حصہ بن چکے ہیں۔ فضا زاہد کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک وقتی رجحان نہیں بلکہ ایک گہری ثقافتی تبدیلی کی علامت ہے، جو پاکستانی نوجوانوں میں کورین ڈراموں (K-Dramas) کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو نمایاں کرتی ہے۔ ایک نئی کلچرل مارکیٹمزید برآں، فضا زاہد کہتی ہیں پاکستان میں کورین کھانوں اور زبان کے لیے نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے ایک نئی ثقافتی منڈی کو جنم دیا ہے۔
اس کا ثبوت ملک بھر میں کورین ہوٹلوں کی مقبولیت اور کورین اسکالرشپس و لینگویج کورسز کے لیے طلبہ کی بڑھتی ہوئی دلچسپی ہے۔نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) کے شعبۂ کورین زبان کے سربراہ احتشام حسین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نمل فنکشنل کورسز کے ساتھ ساتھ کورین زبان میں ڈگری پروگرام بھی پیش کر رہا ہے۔ "ہماری پہلی فارغ التحصیل کلاس اب مارکیٹ میں متحرک ہے۔
"احتشام حسین نے مزید بتایا کہ پہلے ادارہ صرف ڈپلومہ کورسز فراہم کرتا تھا تاہم طلبہ میں کورین زبان اور خاص طور پر کورین ثقافت کے حوالے سے بڑھتی ہوئی دلچسپی کے باعث مکمل ڈگری پروگرام کا آغاز کیا گیا۔
'کورین ڈراموں سے متاثر ہو کر پڑھائی شروع کی'سندس اکرم نمل میں کورین زبان کی ڈپلومہ کی طالبہ ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اُنہیں کورین زبان میں دلچسپی سن 2015 میں ایک کورین ڈرامہ دیکھنے کے بعد پیدا ہوئی۔
اس تجسس نے انہیں نہ صرف کورین گانے سننے، خاص طور پر بی ٹی ایس کی موسیقی کی طرف مائل کیا بلکہ وقت کے ساتھ ان کی کورین ثقافت سے وابستگی بھی گہری ہوتی گئی۔ اسی دلچسپی کے تحت انہوں نے کورین زبان سیکھنے کا باقاعدہ آغاز کیا۔احتشام حسین کے مطابق کورین زبان اور ثقافت کی مقبولیت کی بڑی وجہ کورین تفریحی صنعت، خاص طور پر بی ٹی ایس جیسے بینڈز کی نوجوانوں میں مقبولیت ہے۔
یہی ثقافتی کشش طلبہ کو کورین زبان سیکھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کی ترغیب دے رہی ہے۔ تحقیق اور روزگار کے نئے دروازےاحتشام حسین کے مطابق کورین زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے کئی فوائد ہیں۔ طلبہ تحقیق، ترجمہ اور تشریح جیسے شعبوں میں جا رہے ہیں، لیکن زیادہ تر کورین ثقافت پر تحقیق کو ترجیح دیتے ہیں۔ بعض طلبہ کوریا میں اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے مواقع کے خواہاں ہیں، جہاں "گلوبل کوریا اسکالرشپ (GKS)" جیسے پروگرامز بین الاقوامی طلبہ کو اسکالرشپ فراہم کرتے ہیں۔
ادارہ طلبہ کی رہنمائی کرتا ہے اور حال ہی میں ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی کیے گئے ہیں۔ ان کے بقول، اب طلبہ "ایمپلائمنٹ پرمٹ اسکیم" کے تحت ملازمتیں حاصل کر کے اچھی تنخواہیں کما رہے ہیں اور اپنی پہچان بنا رہے ہیں۔ادارت: عرفان آفتاب