واشنگٹن :1971 کے موسم گرما میں، اس وقت کے امریکی سیکریٹری خزانہ جان کونالی نے صدر نکسن کو امریکہ کی خارجہ اور تجارتی پالیسی کو بڑے پیمانے پر ایڈجسٹ کرنے کی پالیسی “نکسن شاک” شروع کرنے پر راضی کیا، جس کا مقصد “عالمی معاشی نظام کے کنٹرولڈ انہدام” کو یقینی بنا کر امریکی بالادستی کو مزید پھیلانا تھا۔ نکسن شاک کا اثر یورپ پر خاصا تباہ کن رہا، جس نے وال اسٹریٹ کی پابندیوں کو توڑ کر مالیاتی دور کا آغاز کیا اور نیو لبرل ازم اور گلوبلائزیشن کو جنم دیا۔
تاہم، 2008 کے مالیاتی بحران نے اس نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسی طرح، “توڑ کر بنانے پر مبنی” نکسن شاک کی کامیابی ٹرمپ کے ورژن کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے، لیکن یہ ایک سچائی ضرور ظاہر کرتی ہے: امریکی حکمران طبقے کے مفادات اکثر امریکی عوام بلکہ پوری دنیا کی فلاح و بہبود کے برعکس ہوتے ہیں۔ نکسن کے ایک مشیر نے اسے خوب بیان کیا: “منصفانہ ثالث کے طور پر مارکیٹ کی تصویر کشی کرنا پرکشش ہے، لیکن جب عالمی نظام کے استحکام کی ضرورت اور قومی پالیسی کی خودمختاری کے درمیان ٹکراؤ ہو، تو امریکہ سمیت کئی ممالک قومی پالیسی کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔” تاریخ خود کو دہراتی نہیں، لیکن ہم آہنگ ضرور ہوتی ہے۔
ٹرمپ شاک کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے ایک بار پھر محسوس کیا کہ چین جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے عروج نے اس کے قائم کردہ عالمی آزاد تجارتی نظام اور گلوبلائزیشن کو اس کی عالمی معاشی بالادستی کے لیے خطرہ بنا دیا ہے۔ لہٰذا، وہ ایک بار پھر “کنٹرولڈ انہدام” کی بھاری قیمت اٹھانے کو تیار ہے۔ آخر، خطرہ تو پوری دنیا کا ہے، اور اگر کنٹرول سے باہر ہو بھی گیا تو کیا ہوگا؟ ٹرمپ کے ووٹر تو امریکہ میں ہیں، کون پرواہ کرتا ہے! ظاہر ہے، اگر ٹرمپ شاک کامیاب ہوا، تو گلوبلائزیشن کو زبردست دھچکا لگے گا، اور دنیا دو کیمپوں میں بٹ سکتی ہے: ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی، اور دوسری طرف ابھرتی ہوئی معیشتیں۔ ٹریڈ وار کا آغاز ہو چکا ہے، جوابی کارروائیوں اور احتجاج کی آندھی بھی آ پہنچی ہے۔
اگرچہ ٹرمپ نے گولف کھیل کر بظاہر اپنی بے فکری دکھانے کی کوشش کی، لیکن یہ طوفان انتہائی خطرناک ہے اور یہ ٹرمپ کی سیاسی زندگی کا فیصلہ کرے گا۔ اگلی چال ٹرمپ کیسے چلتا ہے، پوری دنیا اسے دیکھ رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ قلیل مدتی طور پر، امریکہ کی ٹیرف پالیسی سخت رویہ اپناتی رہے گی، لیکن اندرونی عملیت پسندوں کے بفرنگ رول کے پیش نظر مکمل تصادم سے بچا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں اتحادیوں کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات ہوں گے، جس میں کچھ ٹیرف چھوٹ کے بدلے مارکیٹ کھولنے کے وعدے لیے جائیں گے۔ درمیانی مدت میں، پالیسی دو راستوں پر تقسیم ہو سکتی ہے: ایک طرف چین جیسے اسٹریٹجک حریفوں پر سخت ٹیرف، اور دوسری طرف اتحادیوں کے ساتھ لچکدار مذاکرات، بشمول G7 ممالک کے ساتھ “فرینڈ شورنگ” سپلائی چین اتحاد بنانا۔ حال ہی میں ایلون مسک نے سوشل میڈیا پر امریکہ-یورپ زیرو ٹیرف فری ٹریڈ زون کا مشورہ دیا، جو ٹرمپ ٹیم کے پلان بی میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ طویل مدت میں، یہ امریکہ کی کامیابی پر منحصر ہوگا کہ وہ نئے تجارتی اصولوں کا نظام بنا سکتا ہے یا نہیں۔ ٹیرف کا استعمال “بحران کے ردعمل” سے
“ساختی ڈیزائن” کی طرف منتقل ہو سکتا ہے، جیسے کچھ ٹیرف کو قانون بنا کر قومی سلامتی پر مبنی تجارتی پالیسی تشکیل دینا۔ ساتھ ہی، کثیرالجہتی اصولوں کی تشکیل نو کا عمل شروع ہوگا۔ اگر WTO میں امریکہ کے مفادات کے مطابق اصلاحات نہ ہوئیں، تو وہ “منی ملٹی لیٹرل معاہدوں” کی طرف مائل ہو سکتا ہے، جس میں ٹیرف کو “جیوپولیٹیکل مخالف ممالک” کےلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ کیا ٹرمپ شاک کامیاب ہوگا؟ مشکل ہے! حالیہ ٹیرف پالیسی کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سے گراوٹ، مہنگائی کے دباؤ، اور امریکی کمپنیوں کو سپلائی چین کے مسائل اور بڑھتی ہوئی لاگت کا سامنا ہے۔
یہ ٹیرف جنگ امریکہ کی معیشت کو شدید نقصان پہنچانے کے ساتھ اندرونی تنازعات کو بڑھا سکتی ہے۔ ساتھ ہی، اتحادی تعلقات میں کشیدگی، ٹرانس ایٹلانٹک اتحاد کی کمزوری، اور BRICS ممالک کی ڈالر سے دوری بڑھ سکتی ہے، جس سے کثیر قطبی نظام کو تقویت ملے گی اور امریکہ بین الاقوامی سطح پر تنہا ہو جائے گا۔ ٹرمپ کا مونرو ازم آخرکار امریکہ کو بالکل تنہا کر دے گا: جب کوئی چائے پلانے والا بھی نہ بچے، تو پھر “میں بادشاہ ہوں” کہنے کا کوئی حق نہیں رہتا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امریکہ کی سکتی ہے کے ساتھ سکتا ہے
پڑھیں:
ٹیرف میں کمی کا امکان، فی الحال ہم چین کے ساتھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ درآمدی اشیا پر ٹیرف 145 فیصد سے کم ہوں گے، تاہم فی الحال ’ہم چین کے ساتھ ٹھیک کر رہے ہیں‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ چین سے آنے والی اشیا پر لگایا جانے والا اضافی ٹیرف کافی حد تک کم ہو جائے گا، لیکن یہ صفر نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ ٹیرف: چین کا امریکا کے خوشامدی ممالک کو سزا دینے کا اعلان
چینی برآمدات پر ٹرمپ کا یہ تبصرہ سیکریٹری اسکاٹ بیسنٹ کے بیان کے جواب میں تھا، جن کا کہنا تھا کہ ٹیرف میں غیر معمولی اضافہ ناپائیدار ہے۔
اسکاٹ بیسنٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ دنیا کی 2 بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ میں ’ڈی اسیلیشن‘ کی توقع رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر 145 فیصد درآمدی ٹیکس عائد کیا ہے، جس کا جواب چین نے امریکی اشیا پر 125 فیصد ٹیرف عائد کرکے دیا ہے۔
امریکا اور چین کے درمیان اس ٹیرف وار کے چلتے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے درجنوں ممالک پر محصولات عائد کرنے کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ ٹھوکر کھا گئی ہے اور امریکی قرضوں پر سود کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
سرمایہ کار سست اقتصادی ترقی اور افراط زر کے بلند دباؤ سے پریشان ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ٹیرف حملے: چین کا امریکا کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کا اعلان
ٹرمپ نے گزشتہ روز سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے سربراہ کے طور پر پال اٹکنز کی رسم حلف برداری کے بعد صحافیوں کو دیے گئے تبصروں میں اسٹاک مارکیٹ میں اضافے کا اعتراف کیا۔
چینی صدر کے ساتھ ہارڈ بال نہیں کھیلیں گے
تاہم، ٹرمپ نے اس بات کی تصدیق کرنے سے گریز کیا کہ آیا وہ بھی سوچتے ہیں کہ چین کے ساتھ صورتحال غیر پائیدار ہے، جیسا کہ بیسنٹ کا کہنا ہے۔
چینی مصنوعات پر غیر معمولی اضافے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ہارڈ بال نہیں کھیلیں گے۔
امریکی صدر نے کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ حتمی ٹیرف کی شرح موجودہ 145 فیصد سے کافی حد تک نیچے آئے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹاک مارکیٹ امریکا ٹیرف چین چینی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سیکریٹری اسکاٹ بیسنٹ