قصور میں فارم ہاؤس پر چھاپہ: ’ویڈیو بنانے اور وائرل کرنے‘ پر پولیس اہلکار گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
قصور(نیوز ڈیسک)’اِدھر دیکھو سامنے، اِدھر دیکھو، سامنے کرو اِسے۔‘
’اسے یونیورسل کر دو، اِدھر دیکھو، باہر کے ملکوں والے دیکھیں گے تو کیا کہیں گے ہمیں۔۔۔ وائرل، وائرل۔‘
یہ وہ الفاظ ہیں جو پاکستان میں سوشل میڈیا پر گذشتہ 24 گھنٹے سے وائرل ایک ویڈیو کے پس منظر میں سنائی دیتے ہیں۔
اس ویڈیو میں بہت سے مرد اور خواتین ملزمان کو فلمایا گیا ہے جبکہ ویڈیو ریکارڈ کرنے والے چہرہ چھپاتی خواتین کو بارہا تاکید کرتے ہیں کہ وہ اپنا چہرہ سامنے کریں یا اپنے چہرے کے سامنے سے بال ہٹائیں تاکہ ان کی شناخت ممکن ہو سکے۔
اس ویڈیو میں پولیس کی وردی میں ملبوس خواتین اہلکار بھی نظر آتی ہیں جو ان احکامات کو یقینی بنا رہی ہوتی ہیں کہ ہر خاتون کا چہرہ ویڈیو میں صاف نظر آئے۔
ویڈیو میں نظر آنے والے لگ بھگ ڈیڑھ درجن خواتین اور مردوں کے چہروں پر بے بسی نمایاں ہے اور اُن میں سے بیشتر، بالخصوص خواتین، پریشانی کے عالم میں چہرے چھپانے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ ان کی ویڈیو نہ بنائی جا سکے۔
نہ تو یہ پولیس کی جانب سے کی جانے والی کسی شناخت پریڈ کا منظر ہے اور نہ ہی کسی پریس کانفرنس کا جس میں کسی بڑے جرم میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کی اطلاع دی جاتی ہے اور انھیں میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
دراصل یہ پنجاب کے ضلع قصور کے ایک فارم ہاؤس میں ہونے والی مبینہ ڈانس پارٹی پر پڑنے والے پولیس کے چھاپے کے بعد کے مناظر ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس مقام پر چھاپہ اُس وقت مارا جب مرد و خواتین مبینہ طور پر اونچی آواز میں بجنے والے گانوں پر ناچ رہے تھے۔
اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے حوالے سے قصور پولیس نے پنجاب حکومت کو اپنی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ ارسال کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک منظم پروگرام تھا جس کے ٹکٹ سوشل میڈیا کے ذریعے سے فروخت کیے گئے تھے جبکہ حکومت پنجاب کے مطابق اس واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو معطل کرنے کے بعد مزید تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
قصور پولیس میں ڈی پی او محمد عیسی خان کا کہنا ہے کہ اس تقریب میں ’ملی بھگت‘ کے الزام پر تھانے کے ایس ایچ او اور پولیس سکیورٹی اہلکار دونوں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ جبکہ موبائل سے مذکورہ ویڈیو بنانے اور اسے وائرل کرنے کے الزام میں تفتیشی افسر اور سب انسپکٹر کے خلاف مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ گرفتار ملزمان کی ویڈیو بنانا اور وائرل کرنا ’قانون کی خلاف ورزی تھی جس کے خلاف پولیس کا اپنا احتساب کا نظام حرکت میں آیا ہے اور اس پر کارروائی ہوئی ہے۔‘
’متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف پیکا ایکٹ اور پولیس سروسز رول کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کر کے ان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔‘
اس واقعے کا مقدمہ ضلع قصور کے تھانہ مصطفیٰ آباد میں پانچ اپریل کی رات گئے پولیس کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔
مقدمے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مخبر نے اطلاع دی کہ ایک فارم ہاوس پر کافی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں ڈانس پارٹی کا انعقاد کر رہے ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق جب پولیس نفری موقع پر پہنچی تو اونچی آواز میں ناچ گانا چل رہا تھا۔ پولیس نے مزید الزام عائد کیا کہ اس موقع پر شرکا شراب نوشی بھی کر رہے تھے۔ ’چھاپے کے دوران ڈانس پارٹی میں مصروف مرد و خواتین ادھر ادھر بکھرنے لگے، جن کو گھیرا ڈال کر قابو کیا گیا اور ان لوگوں سے ان کا نام پتا پوچھا گیا۔‘
مقدمے میں 35 مردوں جبکہ 25 خواتین کی شناخت ظاہر کرتے ہوئے انھیں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ملزمان کا تعلق صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخوا سے بھی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق موقع سے شراب کی بوتلیں بھی برآمد ہوئی جبکہ شیشہ اور ساؤنڈ سسٹم بھی قبضے میں لیا گیا ہے۔ پولیس نے فارم ہاؤس میں موجود 25 کے قریب گاڑیاں بھی قبضے میں لی ہیں۔
پولیس کے مطابق ’اس پارٹی کے منتظم موقع سے فرار ہو گئے ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔‘
ویڈیو میں کیا ہے؟
وائرل ہونے والی ویڈیو اسی فارم ہاؤس سے گرفتار ہونے والے مرد و خواتین کی ہے۔
اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مبینہ طور پر موبائل کیمرے سے ویڈیو بنانے والے گرفتار ہونے والی خواتین پر ایک، ایک کر کے فوکس کرتے ہیں۔
اس موقع پر پس منظر سے آوازیں سنائی دیتی ہیں جن میں خواتین کو کیمرے کی طرف دیکھنے کے لیے تاکید کی جا رہی ہوتی ہے۔
ویڈیو میں دکھائی دینے والی چند خواتین اپنے چہرے چھپانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن پھر ویڈیو میں ایک خاتون پولیس اہلکار دکھائی دیتی ہے جو چہرہ چھپانے والی خواتین کا ہاتھ پکڑ کر نیچے کرتی ہے۔ اس طرح ویڈیو میں ایک اور ہاتھ نظر آتا ہے جو ایک اور خاتون کے بالوں کو اس کے چہرے سے ہٹاتا ہے۔
مزیدپڑھیں:گلی کی صفائی کرنے والی لڑکی کی راتوں رات ماڈل بن گئی، ویڈیو وائرل
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پولیس اہلکار ویڈیو میں فارم ہاؤس کے مطابق اس ویڈیو کیا گیا گیا ہے ہے اور
پڑھیں:
شاہد آفریدی کون ہیں؟ میں نہیں جانتا، حکم شہزاد لوہا پاڑ کی نئی ویڈیو وائرل
معروف ٹک ٹاکر اور حکیم شہزاد لوہا پاڑ نے ایک حالیہ پوڈکاسٹ کے دوران کہا ہے کہ وہ قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی کو نہیں جانتے، البتہ ان کا نام سنا سنا لگتا ہے۔
پوڈکاسٹ میں میزبان کی جانب سے جب ان سے شاہد آفریدی سے متعلق سوال کیا گیا تو حکیم شہزاد کا کہنا تھا کہ ’میں شاہد آفریدی کو نہیں جانتا، مگر ان کا نام سنا سنا سا لگتا ہے‘۔ تاہم اگلے ہی لمحے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’یہ نام تو میں پہلی بار سن رہا ہوں‘۔
میزبان نے بعدازاں انہیں ایک ویڈیو دکھائی جس میں وہ خود شاہد آفریدی کے حوالے سے گفتگو کرتے نظر آ رہے تھے۔ اس پر حکیم شہزاد نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ ویڈیو جعلی ہے اور ٹیمپرڈ کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکیم شہزاد لوہا پاڑ کو میڈل دینا گورنر خیبر پختونخوا کو مہنگا پڑگیا، سوشل میڈیا پر تنقید
اسی پوڈکاسٹ میں جب میزبان ریحان طارق نے ان سے اداکارہ حبا بخاری کے بارے میں پوچھا تو حکیم شہزاد نے کہا کہ وہ انہیں بھی نہیں جانتے۔ میزبان نے یاد دلایا کہ ایک وائرل ویڈیو میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ حبا بخاری ان کی دی ہوئی دوا استعمال کرنے کے بعد اُمید سے ہوئیں، جس پر حکیم شہزاد نے پھر سے کہا کہ وہ ویڈیو بھی ٹیمپرڈ ہے اور ان کی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شوہر کا پانچواں نکاح کرانے جا رہی ہوں، دانیہ شاہ کی ویڈیو وائرل
میزبان نے حکیم شہزاد کو چند دوائیوں کے نام بتائے اور کہا کہ یہ ان کی ویب سائٹ سے لی گئی ہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ ویب سائٹ میری نہیں ہے اور میں نے نہیں جانتا یہ کس کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس ویب سائٹ کے خلاف میں نے ایف آئی اے میں پرچہ کٹوایا ہوا ہے۔
انٹرویو کے بعد سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی جس میں حکیم شہزاد نے الزام عائد کیا کہ ریحان طارق نے پوڈکاسٹ کے لیے انہیں پچاس لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا، مگر انٹرویو کے بعد ادائیگی سے انکار کر دیا۔ حکیم شہزاد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر ہائی کورٹ ملتان سے رجوع کر لیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
حبا بخاری حکیم شہزاد انٹرویو حیم شہزاد لوہا پاڑ دانیہ شاہ ریحان طارق شاہد آفریدی